حیوانات کے ساتھ حسن سلوک

414

حصہ دوم

انسان کو فطری طور پر اپنی اولاد کے ساتھ محبت ہوتی ہے، جس طرح یہ محبت اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں ودیعت فرمائی ہے، اسی طرح یہ جذبہ جانوروں کو بھی عطا کیا ہے، بعض طاقتور جانور تو اولاد کی جدائی پر حملہ آور بھی ہوجاتے ہیں، بہت سے لوگ جانوروں کے چھوٹے اور دودھ پیتے بچوں کو اُن کی ماں سے جدا کردیتے ہیں، ان کا یہ عمل سنگدلی کا مظہر ہے، سیدنا عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں: ’’ایک مرتبہ رسول اللہؐ اپنے اصحاب کے ہمراہ کسی سفر میں تھے، مسلمانوں نے ایک مقام پر آرام کے لیے پڑائو ڈالا، نبی کریمؐ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے، ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے ساتھ اس کے دو بچے بھی تھے، ہم نے اس کے بچوں کو پکڑ لیا، وہ چڑیا آئی اور اُن کے سَروں پر اُڑنے اور پھڑپھڑانے لگی، نبی کریمؐ تشریف لائے، آپ نے یہ منظر دیکھا تو دریافت کیا: اسے اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے تکلیف پہنچائی ہے، اس کے بچے اِسے واپس کردو، (ابودائود)‘‘۔ ایک حدیث میں ہے: نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جو شخص ماں اور اس کے بچے کے درمیان جدائی ڈالے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے اور اس کے دوستوں کے درمیان جدائی ڈال دے گا، (ترمذی)‘‘۔
ہمارے ہاں بعض علاقوں میں کتوں، مرغوں اور بٹیروں کو لڑانے کی وبا عام ہے، نبی کریمؐ نے اس عمل سے منع فرمایا ہے، سیدنا عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: ’’نبی کریمؐ نے جانوروں کو آپس میں لڑانے سے منع فرمایا ہے، (ابودائود)‘‘۔ جانوروں کو لڑانا بعض اوقات محض شوقیہ طور پر تفریح طبع کے لیے ہوتا ہے اور بعض اوقات شرط لگا کر بازی کھیلی جاتی ہے، یہ دونوں صورتیں حرام اور ناجائز ہیں اور دوسری صورت میں جوا بھی شامل ہوجاتا ہے، اس لیے اس کی حرمت دوچند ہے، کیونکہ جانوروں کو لڑانے میں اُنہیں اذیت وتکلیف پہنچانا ہے، بلکہ اس دوران بعض جانور مر بھی جاتے ہیں۔
نبی کریمؐ نے بعض جانوروں کو قتل کرنے کی اجازت بھی دی ہے، یہ وہ حیوانات وحشرات الارض ہیں جو طبعی طور پر موذی (Harmful) ہوتے ہیں اور انسانوں کو تکلیف ونقصان پہنچانے میں عموماً ابتدا کرتے ہیں، جیسے سانپ، بچھو، درندے اور ان جیسے دوسرے حیوانات، سو انہیں ہر حال میں مارنا جائز ہے، حتیٰ کہ حالت ِ احرام میں بھی انہیں قتل کرنے سے مُحرم پر کوئی دم وغیرہ نہیں آتا۔ البتہ نبی کریمؐ نے ان حیوانات کو قتل کرنے میں بھی احسان اور بھلائی کا حکم دیا ہے، یعنی اس قسم کے جانوروں کو قتل کرنے کے لیے ایسا طریقہ کار اختیار کیا جائے کہ اُن کی جاںکنی کا دورانیہ کم سے کم ہو، مثلاً: گولی، تیز دھار آلے یا کسی ایسی وزنی چیز سے مارنا کہ جس سے جلد موت واقع ہوجائے، نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان کرنا فرض کیا ہے، اس لیے جب تم لوگ کسی جانور کو مارو تو اچھے طریقے سے مارو اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو اور چھری کی دھار کو خوب تیز کرلیا کرو، (مسلم)‘‘۔ نبی کریمؐ نے چھپکلی اور گرگٹ کو مارنے کا حکم دیا ہے، لیکن اُسے مارنے میں بھی احسان کا حکم دیا ہے: نبی کریم ؐ نے فرمایا: جس نے چھپکلی کو پہلی ضرب میں مار ڈالا تو اس کے لیے اتنی اتنی نیکیاں ہیں اور جس نے اسے دوسری ضرب سے مارا، اس کے لیے اتنی اتنی نیکیاں ہیں، مگر اس کی نیکیاں پہلی بار میں مارنے والے سے کم ہیں اور اگر اس نے تیسری ضرب سے مارا تو اس کے لیے اتنی اتنی نیکیاں ہیں، لیکن دوسری ضرب سے مارنے والے سے کم ہیں، (مسلم)‘‘۔ سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: رسول کریمؐ نے فرمایا: جو شخص گرگٹ کو ایک ہی وار میں مار ڈالے، اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جائیں گی، دوسرے وار میں اس سے کم اور تیسرے وار میں اس سے بھی کم نیکیاں لکھی جائیں گی، (مسلم)‘‘۔ ایک یا اس سے زائد وار کے ساتھ مارنے کی صورت میں اجرو ثواب میں کمی وزیادتی کو بیان کرنے کا مقصد اِس بات کی ترغیب دلانا ہے کہ جس قدر جلدی اور سہولت سے ہوسکے، قتل کیا جائے۔
موذی جانوروں کو آگ میں جلانایا اُن پر گرم پانی ڈالنایا ان کے اعضاء کاٹنا اور اُنہیں تکلیف دے کر مارنا یا ضرورت سے زائد تکلیف دے کر مارنا شریعت کی رُوسے جائز نہیں ہے، ایک مرتبہ رسول اللہؐ نے چیونٹیوں کی ایک بستی کو دیکھا، جسے کسی نے جلاکر خاکستر کردیا تھا، آپ نے پوچھا: اِنہیں کس نے جلایا ہے، لوگوں نے کہا: ہم نے جلایا ہے، فرمایا: آگ پیدا کرنے والے کے علاوہ کسی کے لیے بالکل بھی مناسب نہیں کہ وہ آگ سے تکلیف پہنچائے، (ابودائود)‘‘ اور ایک حدیث میں آپؐنے فرمایا: ’’بیشک آگ کا عذاب صرف اللہ تعالیٰ ہی دے سکتا ہے، (بخاری)‘‘۔ البتہ اگر موذی جانوروں کو زندہ جلائے بغیر مارنا ناممکن یا شدید دشوار ہو تو انہیں جلانے یا ان پرگرم پانی ڈالنے کی گنجائش موجود ہے، مثلاً: اگر کسی دوا کے ذریعے چار پائی کے کھٹملوں کا خاتمہ نہ ہوسکے تو گرم پانی سے اُنہیں مارا جاسکتا ہے۔
اِسی طرح جس حیوان کو ذبح کرنے کا ارادہ ہو تو نبی کریمؐ نے اُس کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیا ہے، مثلاً: ذبح سے پہلے چھری کی دھار خوب اچھی طرح تیز کرلی جائے، جانور کے سامنے چھری کو ظاہر نہ کیا جائے، ایک جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح نہ کیا جائے، ذبح کے وقت جانور کو زمین پر نہ گھسیٹے، ذبح سے پہلے جانور کو کچھ کھلاپلا دیا جائے، خالی پیٹ ذبح نہ کیاجائے، آپؐنے فرمایا: ’’جب تم کسی جانور کو ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، اپنی چھری کو تیز کرلو اور اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ذبح کے وقت اس کی تکلیف کم سے کم ہو، (مسلم)‘‘۔ ذبح کے بعد جب تک جانور کی جان نہ نکل جائے، اُس کی کھال نہیں اتارنی چاہیے، کیونکہ یہ اذیت پر اذیت ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے بکری کو لٹایا اور اپنی چھری تیز کرنے لگا، نبی کریم ؐنے اُسے دیکھا تو فرمایا: کیا تم اس کو دو موت مارنا چاہتے ہو، تم نے اِسے لٹانے سے پہلے چھری کو تیز کیوں نہ کیا، (المستدرَک للحاکم)‘‘۔ سیدنا قرہ بن ایاس مزنی بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے نبی کریمؐ سے عرض کی: یارسول اللہ! جب میں بکری کو ذبح کرتا ہوں تو مجھے اس پر رحم آتا ہے، آپؐ نے فرمایا: اگر تم بکری پر رحم کرتے ہو تو اللہ بھی تم پر رحم کرے گا، (مسند احمد)‘‘۔ وضین بن عطا بیان کرتے ہیں: ایک قصاب نے بکری کو ذبح کرنے کے لیے اس کے کوٹھے کا دروازہ کھولا تو وہ بھاگ پڑی، اس نے اس کا پیچھا کیا اور اسے اُس کی ٹانگوں سے پکڑ کر کھینچنے لگانا، یہ دیکھ کر نبی کریمؐ نے فرمایا: اے قصاب! اس کو نرمی سے کھینچ کرلائو، (مصنف عبد الرزاق)‘‘۔
بعض لوگ نشانہ بازی کی مشق کرنے کے لیے یا ویسے ہی تفریح طبع اور کھیل کود کے طور پر حیوانات خاص طور پر پرندوں کو تیر یا بندوق سے نشانہ بناتے ہیں، رحمت ِ عالم ؐ نے اس سے بھی منع فرمایا ہے اور ایسے شخص پر لعنت فرمائی ہے، چنانچہ ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن عمر قریش کے کچھ بچوں کے پاس سے گزرے، جو ایک پرندے کو باندھ کر اُس پر نشانہ بازی کر رہے تھے اور اُنہوں نے پرندے کے مالِک سے یہ طے کیا ہوا تھا کہ جو تیر نشانے پر نہ لگا وہ اس کا ہو گا، جب انہوں نے آپ کو آتا دیکھا تو بھاگ گئے، سیدنا عبداللہ بن عمر نے پوچھا: اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والے پر لعنت فرمائے، یہ کس نے کیا ہے، بے شک رسولِ کریمؐ نے (مشق کے لیے) کسی ذِی رُوح کو تیر اندازی کا نشانہ بنانے والے پر لعنت فرمائی ہے، (مسلم)‘‘۔
شوقیہ طور پر پرندے یاغیر موذی جانوروں کو پالنے میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ سیدنا انس بیان کرتے ہیں: ان کے بھائی ابو عمیر نے ایک چڑیا پال رکھی تھی، رسول کریمؐ جب کبھی تشریف لاتے تو اُن سے اس پرندے کی بابت دریافت فرماتے تھے کہ وہ کیسا ہے، (بخاری)‘‘۔ البتہ ان کے حقوق کی حفاظت لازم ہے، اُن کے حقوق یہ ہیں کہ اُنہیں باقاعدہ خوراک دی جائے، خوراک ہر وقت اُن کے سامنے موجود ہونی چاہیے، وہ جب چاہیں کھائیں، بعض لوگ جانوروں کو انسانوں کی طرح صرف صبح اور شام دو وقت کھانا دیتے ہیں، یہ طریقہ درست نہیں ہے، اس کے علاوہ ان کی صفائی ستھرائی، سردی گرمی اور بارش سے حفاظت اور بیماری کی صورت میں علاج کا مناسب بندوبست کیا جائے، امام قرطبی فرماتے ہیں: ’’جس شخص کے گھر میں اس کی بلی کو خوراک اور ضروریات نہ ملیں اور جس شخص کے پنجرے میں بند پرندوں کی پوری خبر گیری نہ ہوتی ہو تو وہ شخص کتنی ہی عبادت کرلے، وہ محسنین میں شمار نہیں ہوگا، (الجامع لاحکام القرآن)‘‘۔
ابوبکر شبلی کو کسی نے خواب میں دیکھا اور ان سے پوچھا: آپ کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا ہے، اُنہوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے دربار میں کھڑا کرکے فرمایا: ابوبکر! تمہیں معلوم ہے میں نے تمہیں کیوں بخش دیا، میں اپنے نیک اعمال شمار کرنے لگا جو نجات کا ذریعہ بن سکتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے ان اعمال میں سے کسی عمل کے سبب تیری بخشش نہیں فرمائی، میں نے عرض کی: الٰہی! پھر تونے کس سبب سے میری مغفرت فرمائی، ارشاد فرمایا: ایک مرتبہ تم بغداد کی گلی سے گزر رہے تھے کہ تم نے ایک بلی کو دیکھا جسے سردی نے کمزورکردیا تھا، اس پر ترس کھاتے ہوئے تم نے اسے اپنے جبے میں چھپا لیا تاکہ وہ سردی سے بچ جائے، پس بلی پر رحم کی وجہ سے میں نے آج تم پر رحم فرمایا ہے، (حیاۃ الحیوان)‘‘۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبولیت کا اصل سبب رحم کا وہ جذبہ ہے جو بندے کے دل میں پیدا ہوتا ہے اور بندہ کسی کو تکلیف میں مبتلا دیکھ کر اس کی تکلیف کا ازالہ کرتا ہے۔
بعض جانوروں کے آواز نکالنے پر نبی کریمؐ نے دعا کی تعلیم ارشاد فرمائی ہے، آپؐ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص مرغ کی آواز سنے تو اُسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے فضل طلب کرے، کیونکہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہوتا ہے اور جب تم میں سے کوئی شخص گدھے کو رینکتا سنے تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے، کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہوتا ہے، (بخاری)‘‘۔
ہمارے ملک میں کافی عرصے سے جانوروں کے حوالے سے بہت زیادہ لاپروائی اور غفلت برتی جارہی ہے، گزشتہ دنوں اسلام آباد کے ایک چڑیا گھر میں شیر اور شیرنی سمیت متعدد جانوروں کے ہلاک ہونے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا، اِسی طرح چند ماہ قبل کراچی میں ایک گھر کی تیسری منزل سے قربانی کے بیل کو اُتارتے وقت بے احتیاطی برتی گئی اور اُسے تیسری منزل سے زمین پر گرادیا گیا، ملک بھر کے بیش تر چڑیا گھروں میں موجود جانور سُہولتوں کے فقدان کی وجہ سے عدمِ تحفظ کا شکار ہیں، ان کی خوراک اور ضروریات کے لیے جاری ہونے والی رقوم کا بڑا حصہ خورد برد اور کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے، سو اس معاملے میں اربابِ اختیار کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔