کلبھوشن پر مہربانیاں کیوں

541

پاکستانی قومی اسمبلی میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کو ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا حق دینے کا بل مظور ہونے پر بھارت میں کلبھوشن کے اہل خانہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بھارتی جاسوس کے اہل خانہ نے بھارتی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں اس بل سے متعلق خبر کا شدت سے انتظار تھا۔ ہماری امیدیں اور زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ اس کے والد اور دوست نے اس گفتگو میں یہ بھی کہا کہ یہ ہماری سفارتی جیت ہے۔ چند روز قبل پاکستانی قومی اسمبلی میں بھارتی جاسوس کلبھوشن کو پاکستان کی سول عدالت میں اپنی سزا کے خلاف اپیل کرنے کا حق دینے کا بل منظور کیا گیا تھا اب یہ بل سینیٹ میں جائے گا اور وہاں بھی بڑی آسانی سے منظور ہونے کی توقع ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کسی کو بھی انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرکے ہی سزا دی جاتی ہے۔ کلبھوشن کے معاملے میں بھی اس کو مدنظر رکھا گیا ہے لیکن وہ ایک عام شہری نہیں ہے۔ اس نے بھارت کے لیے جاسوسی کا برملا اعتراف کیا ہے اس کی ویڈیو عام کی گئی جس میں وہ نہ صرف جاسوسی بلکہ بلوچستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلانے کا بھی اعتراف کررہا تھا، اسے اگر سزائے موت سنائی گئی ہے تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ اسے سول عدالت میں اپیل کا حق دیا جائے۔ دشمن ملک کے لیے جاسوسی کرنا اور اس کے لیے اپنے پڑوسی ملک میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلانا ایک فوجی کارروائی ہے اور اسے فوجی کارروائی کے ذریعے سزا کافی ہے۔ اگر کسی وجہ سے کوئی بھارتی شہری سرحد پار آجاتا ہے یا مدت سے زیادہ دن قیام کرلیتا ہے کوئی حادثہ ہوجاتا ہے یا اس سے اس دوران کوئی جرم سرزد ہوجائے تو اس کا معاملہ سول عدالت میں جانا چاہیے اور جاتا ہے۔ پاکستانی حکومت بھارتی جاسوس کے معاملے میں جس قدر مہربان ہورہی ہے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔ پہلے کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ بھارت جیسے دشمن کی موجودگی میں پوری قوم کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ دفاعی تیاریاں رہنی چاہئیں، اسلحہ اور طیارے ہمہ وقت تیار رہنے چاہئیں لیکن حالات اس نہج پر جارہے ہیں کہ گزشتہ تین برس سے صاف نظر آرہا ہے کہ یہ جملہ اس طرح ہوگیا ہے کہ بھارت جیسے اہم پڑوسی کے ساتھ ہر قیمت پر تعلقات رہنے چاہئیں، خواہ وہ پاکستان کے ساتھ کچھ بھی کرتا رہے۔ قومی سطح پر سیاست میں پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں، ایک دوسرے کو کرپٹ کہنے پر تمام اخلاقی حدود کو پامال کرتے ہوئے ٹی وی کیمرے کے سامنے مغلظات بکنے اور ہاتھا پائی پر اتر آتے ہیں لیکن جب بھارت کوئی فائدہ پہنچانا ہو تو یہ ازلی دشمن ایک ہوجاتے ہیں اس کی حکمت عملی وضع کرلی جاتی ہے کبھی بائیکاٹ کے دوران کبھی واک آئوٹ کے دوران ایسے بل منظور ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھی قومی مفاد کے نام پر بھی اتفاق رائے ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کلبھوشن کے معاملے میں بھی ہوگیا جو لوگ قومی بجٹ کی منظوری میں رکاوٹ ڈالنے کا فخریہ اعلان کررہے ہیں ان کو پتا ہے کہ بجٹ کی منظوری میں تاخیر سے حکومت کو تو ضرور دھچکا لگے گا لیکن معیشت کا پہیہ بھی رک جائے گا، وہ لوگ کلبھوشن کے معاملے میں انگوٹھا چھاپ کر آجاتے ہیں۔ پاکستانی اسمبلی میں موجود مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال کر امریکا کو پیش کرنے کا کارنامہ کرچکے ہیں۔ یہ لوگ ملک دشمنوں کے معاملے میں اس قدر نرم ہوتے ہیں جتنا کہ اپنے ملک کے باشندوں کے لیے ہونا چاہیے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ کلبھوشن یادو کا واحد گناہ یہ نہیں ہے کہ وہ بھارتی باشندہ ہے بلکہ وہ بھارتی فوج کا جاسوس ہے۔ پاکستان میں دہشت گرد نیٹ ورک چلاتا رہا ہے اور اس کا اعتراف بھی کرچکا۔ لیکن اس کے لیے اس قدر مہربانیاں ہیں پہلے بھی اسے سفارتی رسائی یا سفیر سے ملاقات کے لیے بار بار موقع دیا گیا۔ بھارتی سفیر آئے اور اس سے ملے بغیر چلے گئے۔ اسے یادو کے والد اور دوست نے اپنی سفارتی کامیابی قرار دیا ہے۔ حالانکہ یہ پاکستانی سفارتی ناکامی نہیں بلکہ پاکستان کی جانب سے غیر ضروری رعایت ہے جس پر انہوں نے سفارتی کامیابی کا دعویٰ کردیا۔ پاکستان کو تو رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے بھارتی پائلٹ کو چائے پلا کر واپس بھیجنے پر بھی فخر ہے۔ اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کلبھوشن کے لیے براہ راست رہائی کے بجائے عدالت کے ذریعے رہائی کا ڈراما رچایا جائے گا۔ عدالت میں کوئی نہ کوئی نکتہ سامنے آجائے گا جس سے کلبھوشن کی بے گناہی کا راستہ نکل آئے گا۔ اور سارا ملبہ عدالت پر ڈال دیا جائے گا۔ پہلے ریمنڈ ڈیوس کو بھونڈے طریقے سے رہا کیا گیا تھا۔ بھارتی پائلٹ کو اچانک نامعلوم اشارے پر رہا کیا گیا جس طرح اب دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ سفارتی کامیابی ہے۔ اسی طرح اس وقت کہا گیا تھا کہ مودی نے تو بہت بڑی کارروائی کا حکم دے دیا تھا۔ پاکستان نے خوفزدہ ہو کر ابھینندن کو رہا کردیا۔ پاکستانی حکمرانوں کی خیر سگالی کا بھوت پھر بھی نہیں اُترا۔ اب جاسوس کے لیے مہربانیاں ہیں۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ کوئی معاملہ ہو ازخود پاکستانی قوم کی مایہ ناز بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ سامنے آجاتا ہے۔ پاکستانی حکمران اس کے معاملے میں عافیہ کے گھر والوں کی خوشی کا باعث کب بنیں گے۔ اگر کلبھوشن کے لیے قومی اسمبلی قانون بناسکتی ہے سب ایک ہوسکتے ہیں تو نئے امریکی صدر سے قومی اسمبلی کی قرارداد کے ذریعے ہی عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کوئی نامعلوم خوف ہے جس نے سب کے ہاتھ پائوں باندھ رکھے ہیں۔ اگر اس ہلڑ بازی میں کلبھوشن کو بھارت کے حوالے کردیا گیا تو پھر پاکستانی قوم ایسا کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔