جی سیون کا چین کیخلاف بڑا سرمایہ کاری منصوبہ

389
برطانیہ: جی 7 ممالک کے سربراہ اہم معاملات پر تبادلہ خیال کررہے ہیں‘ چھوٹی تصاویر رہنماؤں کی باہم ملاقاتوں کی ہیں

لندن (انٹرنیشنل ڈیسک) چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو محدود رکھنے کے لیے جی سیون ممالک نے غریب ممالک میں سرمایہ کاری کے ایک منصوبے کو حتمی شکل دے دی ہے۔ لیکن کیا یہ منصوبہ چینی ماڈل کا توڑ ثابت ہو گا؟ ترقی یافتہ ریاستوں کے گروپ جی سیون کے رکن ممالک نے غریب ممالک میں بنیادی ڈھانچے میں بہتری کے لیے ایک وسیع تر منصوبے کو حتمی شکل دے دی ہے۔ امیر ممالک غریب ریاستوں کے انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے سرمایہ کاری کریں گے۔ اس کاوش کا مقصد چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اثر و رسوخ اور بالخصوص بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹوو کا مقابلہ کرنا ہے۔ امریکا کے بہتر دنیا کی تعمیر نو کی طرز پر تشکیل دیے گئے اس منصوبے کو امریکی صدر جوبائیڈن کی دیگر رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کے بعد حتمی شکل دی گئی۔ برطانیہ کے ساحلی علاقے کاربس بے میں 3 روزہ جی سیون اجلاس جمعہ کے روز شروع ہوا تھا۔ پہلے دن رکن ممالک نے غریب ممالک کے لیے کورونا ویکسین عطیہ کرنے کا بھی اعلان کیا۔ اس اجلاس کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں 2 برس بعد پہلی بار رکن ممالک کے سربراہان بالمشافہ مل رہے ہیں۔ ورنہ کورونا کی وبا کی وجہ سے گزشتہ ڈیڑھ سال سے تقریباً تمام سربراہ اجلاس آن لائن ہی ہوتے رہے ہیں۔ جی سیون گروپ برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور امریکا پر مشتمل ہے۔ جی سیون اجلاس میں ہفتہ کے روز شرکا کے مابین مستقبل میں کسی نئی عالمی وبا سے بچنے کے لیے ایک متفقہ اور جامع حکمت عملی پر اتفاق رائے ہو گیا۔ کاربس بے ڈکلیریشن کو حتمی شکل دینے کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ بھی تیار کیا گیا ہے، جس کی تفصیلات آج اتوار کو جاری کی جائیں گی۔ جی سیون سربراہ اجلاس کے دوسرے دن کے اہم موضوعات میں روس کی وجہ سے لاحق چیلنجوں بھی شامل رہے، جب کہ میانمر میں فوجی بغاوت، ہانگ کانگ میں جمہوری اقدار کی بقا کے لیے جدوجہد اور مشرقی یوکرائن میں مبینہ روسی مداخلت سمیت کئی اہم امور پر بھی بات چیت ہوئی۔ اس 3 روزہ اجلاس میں اس بار خصوصی دعوت پر شرکت کرنے والے ممالک آسٹریلیا، جنوبی افریقا، جنوبی کوریا اور بھارت کے نمایندوں سے بھی ہفتے کے روز تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔ آج اس اجلاس کا آخری دن ہوگا، جس دوران ماحولیاتی تبدیلیوں سے جڑے خطرات اور مسائل پر گفتگو کی جائے گی۔ اس دوران شریک رہنماؤں کی الگ الگ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔