اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کی تنہائی

748

دنیا کے ہر معاشرے میں کچھ چیزیں ’’قابل قبول‘‘ ہوتی ہیں اور کچھ چیزیں ’’ناقابل قبول‘‘ ہوتی ہیں۔ ایک کمیونسٹ معاشرے میں اس بات پر بحث نہیں ہوسکتی تھی کہ مارکسزم صحیح ہے یا غلط ہے۔ کمیونسٹ معاشرے کے لیے یہ بات بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی تھی کہ اس میں کوئی کھڑا ہو کر کہے ’’جدلیاتی مادیت‘‘ کا اصول غلط ہے۔ مغربی معاشروں میں آزادی اور جمہوریت کو ایک عقیدے کا درجہ حاصل ہے۔ چناں چہ مغربی معاشرے میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمیں آزادی پسند نہیں، ہم جمہوریت کے بجائے آمریت چاہتے ہیں۔ اسلامی معاشرے کے اپنے عقاید اور اپنی اقدار ہیں۔ اسلامی معاشرہ اپنے بنیادی عقاید اور بنیادی اقدار پر نہ کوئی سودے بازی کرسکتا ہے اور نہ ان عقاید اور اقدار پر وہ کسی کو سوالیہ نشان لگانے کی اجازت دے سکتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص اسلامی معاشرے میں کھڑے ہوکر یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے سر عام زنا کرنے کی اجازت دی جائے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں اسلامی اقدار کو معرضِ بحث میں لایا جارہا ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 20 مئی 2021ء کو اندرون ملک کی ایک پرواز میں ایک صاحب اور ایک خاتون نے نازیبا حرکات شروع کیں تو کئی مسافروں نے جہاز کے عملے سے اس کی شکایت کی۔ جہاز کے عملے نے مذکورہ بالا شخص اور خاتون کو نازیبا حرکات سے باز رہنے کے لیے کہا مگر انہوں نے اپنی حرکات جاری رکھیں اور کہا کہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ چناں ایک ائر ہوسٹس نے ان دونوں کو ایک کمبل لا کر دے دیا۔ لیکن مسئلہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ جہاز میں موجود ایک مسافر نے سول ایوی ایشن میں اس واقعے کی شکایت درج کرائی۔ یہ واقعہ بعض اخبارات میں رپورٹ ہوا اور جیو نے 25 مئی کے اپنے پروگرام رپورٹ کارڈ میں اس پر ایک گرما گرم بحث کرادی۔ پروگرام کی میزبان علینہ فاروق نے پروگرام کے پینل کے سامنے یہ سوال رکھا کہ کیا مرد اور عورت یا جوڑے کی مبینہ حرکات کو ’’ذاتی معاملہ‘‘ کہا جاسکتا ہے؟ اس مسئلے پر جیو کے پینل میں موجود خاتون بے نظیر شاہ نے کیا کہا: انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ انہوں نے فرمایا۔
’’یہاں پر میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ اگر اس ائر لائن پہ کوئی مرد کسی عورت کو مارتا یا کسی عورت سے بدتمیزی کرتا تو کیا سول ایوی ایشن اتھارٹی سے شکایت کی جاتی؟ تب کہا جاتا کہ یہ ان کے گھر کا معاملہ ہے۔ لیکن یہاں بہت بڑا ایشو ہے۔ سینسر بورڈ پر جب ہمارے یہاں موویز جاتی ہیں سینسر ہونے کے لیے ان میں جتنے رومینٹک سین ہوتے ہیں وہ کاٹ دیے جاتے ہیں۔ لیکن جو Violent سین آتے ہیں جن میں Violent دکھایا جاتا ہے وہ ہمارے بچے گھر میں بیٹھ کر دیکھتے ہیں۔ تو ہمارے معاشرے میں ’’رومانس‘‘ acceptable نہیں ہے۔ violence جو ہے acceptable ہے۔ ہمارے معاشرے میں بنیادی مسئلہ علینہ یہ ہے کہ adult (بالغ) کو Adult نہیں مانتے۔ اٹھارہ سال کا جو ایک شخص ہے ووٹ کرسکتا ہے۔ گاڑی چلا سکتا ہے لیکن اپنی مرضی کی شادی نہیں کرسکتا۔ معاشرہ فیصلے کرے گا کہ وہ پبلک میں کیسے ہوں گے؟ معاشرہ فیصلہ کرے گا کہ وہ کپڑے کیسے پہنیں گے؟ میرے لیے (اس واقعے میں) جو ہیرو ہے وہ ائر ہوسٹس ہے جسے پرائیویسی کی سمجھ آتی ہے‘‘۔
دیکھا جائے تو بے نظیر شاہ کا یہ بیانیہ مذہب کے خلاف ہے۔ ہماری تہذیب کے خلاف ہے۔ ہماری اقدار کے خلاف ہے۔ معاشرے کے خلاف ہے۔ بے نظیر شاہ کا تصور معاشرہ پست ہے۔ اس کا ثبوت ان کا یہ فرمانا ہے کہ جہاز میں اگر مرد عورت کو مار رہا ہوتا تو کوئی مداخلت نہ کرتا۔ لوگ کہتے یہ مرد اور عورت کا ذاتی معاملہ ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ اپنی تمام تر برائیوں کے باوجود ہمارے معاشرے میں عورت کے حوالے سے بڑی حساسیت پائی جاتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر مرد ایک عورت کو مار رہا ہوتا تو پانچ سات لوگ کھڑے ہوکر اسے ایسا کرنے سے روکتے اور اگر ان سے یہ کہا جاتا کہ یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے تو ان میں سے کچھ لوگ یہ ضرور کہتے کہ اپنے ذاتی معاملے کو تماشا نہ بنائیں۔ اپنے ذاتی معاملے کو گھر کی چار دیواری کے اندر نمٹائیں۔ بے نظیر شاہ نے یہ کہہ کر برصغیر کی پوری تہذیبی روایت اور تاریخی تجربے کو جھٹلایا ہے کہ ہمارے معاشرے میں رومانس قابل قبول نہیں ہے، تشدد قابل قبول ہے۔ بے نظیر شاہ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اگر گزشتہ سو سال میں ہندوستان اور پاکستان نے ایک لاکھ فلمیں بنائی ہیں تو ان میں سے 70 ہزار فلمیں رومانوی ہیں۔ اگر گزشتہ 100 سال میں 10 لاکھ فلمی گیت لکھے گئے ہیں تو ان میں سے 9 لاکھ گیت رومانوی ہیں۔ اردو غزل کی روایت ڈھائی سو، تین سو سال پرانی ہے اور اگر اب تک غزل کے 10 ارب شعر لکھے گئے ہیں تو ان میں سے 9 ارب شعر رومانوی یا عشقیہ ہیں۔ برصغیر کا معاشرہ رومانس کے اس سمندر کو قبول کیے ہوئے ہے مگر بے نظیر شاہ فرما رہی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں رومانس قابل قبول نہیں ہے۔ بے نظیر شاہ ذرا بتائیں تو کہ غزل کی شاعری اور مشاعروں کے خلاف کب جلوس نکالے گئے۔ فلموں اور فلمی گیتوں کے خلاف کب کب اور کہاں کہاں جلسے اور جلائو گھیرائو ہوا۔ بے نظیر شاہ نے فرمایا کہ فلموں سے رومانوی سین نکال دیے جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فلموں سے رومانوی سین نہیں عریاں سین نکال دیے جاتے ہیں۔ رومانس اور عریانی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بے نظیر شاہ نے رومانس اور عریانی و فحاشی کو باہم ملا کر رومانس کی پوری روایت پر بڑا حملہ کیا ہے۔ بے نظیر شاہ نے یہ بات درست کہی ہے کہ ہماری فلموں میں بڑا تشدد دکھایا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری فلمی صنعت پر سیکولر اور لبرل لوگوں کا غلبہ ہے۔ ان لوگوں کا اپنے مذہب، اپنی تہذیب، اپنی تاریخ، اپنے معاشرے، معاشرے کی اقدار اور اپنے لوگوں سے کوئی کمٹمنٹ نہیں، نہ ہی ان کا تصور آرٹ بلند ہے۔ چناں چہ وہ فلموں میں یا تو عریانی و فحاشی کو پیش کرتے ہیں یا تشدد کو۔ آپ دیکھیے کہ ہندوستان کے ممتاز ڈائریکٹر ستیہ جیت رے اور شیام بینگل کا اپنے معاشرے سے کمٹمنٹ تھا اور ان کا تصور آرٹ بھی بلند تھا۔ چناں چہ ان کی فلموں میں نہ عریانی و فحاشی ہے نہ تشدد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی فلمیں آرٹ فلمیں کہلاتی ہیں۔ بے نظیر شاہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہمارے یہاں بالغ کو بالغ نہیں سمجھا جاتا۔ یہ خیال بھی غلط ہے۔ ہمارے یہاں بالغ کو بالغ ہی سمجھا جاتا ہے مگر بالغ سے بھی مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ بھی اپنے مذہب اور اپنی اخلاقی اقدار کی پاسداری کا مظاہرہ کرے۔ کسی شخص کے بالغ ہونے کا اسلامی معاشرے میں یہ مطلب نہیں کہ وہ سرعام جنسی جذبات کا اظہار کرنے لگے۔ کوئی ایسا کرے کا تو آئین، قانون اور معاشرہ اس کو روکے گا۔ کیا کسی کمیونسٹ معاشرے میں کوئی شخص یہ کہہ سکتا تھا کہ چوں کہ میں اب بالغ ہوگیا ہوں اس لیے میں اب کمیونزم اور اس کی اقدار پر تھوکتا ہوں؟ نیشنل سیکورٹی مذہب کے تناظر میں ایک معمولی تصور ہے مگر امریکا میں کوئی شخص نیشنل سیکورٹی کے خلاف خیالات یا جذبات کا اظہار نہیں کرسکتا۔ کرے گا تو جیل جائے گا یا مارا جائے گا۔ بے نظیر شاہ نے فرمایا ہے کہ ہمارے نوجوان بالغ ہونے کے بعد ووٹ ڈال سکتے ہیں، کار چلا سکتے ہیں مگر پسند کی شادی نہیں کرسکتے۔ یہ ایک صریح جھوٹ ہے، شہروں میں تو اب 60 فی صد شادیاں پسند سے ہورہی ہیں۔
پروگرام کے پینل میں حسن نثار بھی موجود تھے، انہوں نے جو کچھ کہا وہ اتنا اشتعال انگیز ہے کہ پورا رپورٹ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے چند فقرے یہ ہیں۔ انہوں نے فرمایا۔
پہلی بات ’’Mind Your Own Business‘‘
دوسری بات ’’in rome do as romans do‘‘
پاکستانی فیکٹر کی جو بات ہورہی ہے یہی پھنے خان اگر مغربی معاشرے میں ہوتے تو کیا کرتے، وہ کیا کرتے ہیں شراب خانوں کا کیا کرتے ہیں کیسینو کا کچھ ہوش کرو بھئی۔
Try to become a global citizen۔ جو مادر پدر آزاد ملک ہیں ناں کوئی شے نہیں ہے جن میں آپ ان کے نزدیک بھی پھٹکتے ہوں۔ (آپ ان سے کہتے ہیں) ٹیکنالوجی دے دو، بلب دے دو، بجلی دے دو، ٹی وی دے دو، سیل فون دے دو‘‘۔
پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر سے ہماری گزارش ہے کہ وہ جرأت کا مظاہرہ کریں اور کہیں کہ ہم خدا، قرآن، رسول اکرم کی سنت اور مذہب اسلام کے باغی ہیں۔ ہم ہرگز وہ نہیں کریں گے جو خدا اور مذہب کہتا ہے، ہم صرف وہ کریں گے جو ہمارا دل چاہتا ہے۔ حسن نثار کہہ رہے ہیں۔ Mind your own business اس پر ان سے کسی کو اٹھ کر کہنا چاہیے۔
you better shut your dirty mouth۔ حسن نثار کا کہنا ہے کہ روم میں وہ کرو جو رومی کرتے ہیں۔ ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں وہ کرو جس کی اسلامی جمہوریہ پاکستان اجازت دیتا ہے۔ مغرب میں شراب خانے ہیں، کیسینو ہیں وہ ان کو مبارک لیکن حسن نثار کی دلیل سیدھی سادی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں جب تم مغرب سے سائنس لے رہے ہو، ٹیکنالوجی لے رہے ہو، تو اس کی شراب خوری بھی لو، اس کی جوئے بازی بھی لو، اس کی جنسی انارکی بھی لو، اس کی عریانی و فحاشی اور اس کے زنا کا کلچر بھی لو۔ تو کیا مغرب نے شراب اور زنا کے ذریعے سائنسی اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی ہے؟ آج سے ہزار سال پہلے مسلمان علوم و فنون میں دنیا کے امام تھے۔ تو کیا مسلمانوں نے یہ ترقی شراب نوشی، عریانی و فحاشی اور زنا کے سہارے کی تھی؟ جیو کے پروگرام میں ارشاد بھٹی بھی موجود تھے وہ اسلام کا نام لیے بغیر اپنے معاشرے کا دفاع کرتے رہے۔ مگر پروگرام میں لبرل ازم کے پانچ پرستار تھے اور مذہب کا ایک۔ تو کیا جیو معاشرے کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ معاشرے میں اسلام ’’اقلیت‘‘ کا مسئلہ ہے، اکثریت کا نہیں۔