بیت المقدس،عالم اسلام اور اقوام متحدہ

415

امیر جماعت اسلامی پاکستان

رمضان کریم کی بابرکت اور ایک ہزار مہینوں سے افضل رات لیلۃ القدر میں جب پوری دنیا کے مسلمان عبادت و ریاضت میں مصروف تھے۔ فلسطین کے ہزاروں مسلمان بھی بیت القدس میں اپنے رب کے حضور سربسجود تھے کہ اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ پر دھاوا بول دیا اور گولہ باری اور فائرنگ سے عبادت میں مصروف سیکڑوں فلسطینیوں کو خون میں نہلا دیا۔ مسجد کا صحن لاشوں اور زخمیوں سے بھر گیا اور فرش فلسطینیوں کے پاکیزہ خون سے لہو رنگ ہو گیا۔ اسرائیل نے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑاتے ہوئے غزہ کو کھنڈر اور ملبے کا ڈھیر بنادیا۔ دنیا میں میڈیا کی آزادی کے بڑے بڑے دعویدار وں کے سامنے غزہ میں کئی منزلہ عمارت کو میزائلوں سے تباہ کردیا گیا جس میں مختلف ملکوں کے درجنوں ٹی وی چینلز کے دفاتر تھے مگر مجال ہے اس اندھی گونگی اور بہری اقوام متحدہ پر کہ ایک بھی لفظ مذمت کا بولا ہو۔ اسرائیل نے گیارہ روزہ جنگ میں ساڑھے تین سو نہتے فلسطینیوں کو میزائلوںکی بارش کرکے شہید کردیا، جن میں سو سے زائد معصوم بچے اور چالیس خواتین بھی شامل ہیں جبکہ ہزاروں زخمی اور ڈیڑھ لاکھ بے گھر ہیں۔ امریکا نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں اسرائیل کے خلاف چار بار مذمتی قرارداد کو روکا اور مسلسل اسرائیل کی سرپرستی کرتا رہا۔ امریکا نے محض اپنا اسلحہ بیچنے کے لیے جگہ جگہ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ یو این او نے ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کی، سلامتی کونسل میں سات کفن چوروں کا ٹولہ بیٹھا ہے۔ یو این او کا کردار مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ متعصبانہ رہا ہے۔ فلسطین اور کشمیر کے مسائل ابھی تک صرف اس لیے حل نہیں ہوسکے کیونکہ ان علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اسلامی ملک کے حصے بخرے کرنے ہوں تو مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان جیسے مسائل خود ہی پیدا کیے جاتے ہیں اور پھر گھنٹوں میں حل ہوجاتے ہیں۔ عالم اسلام کے کمزور حکمران عالمی استعمار کی غلامی پر راضی ہیں۔ یہ یہودیوں یا ہندوئوں کو نہیں بلکہ اپنے ہی عوام کو ڈراتے رہتے ہیں۔
بیت المقدس وہ مسجد ہے جس میں امام الانبیاء سیدنا محمد ؐ نے سیدنا آدم ؑ سے لیکر سیدنا عیسیٰ ؑ تک تمام انبیاء کی امامت کی اور وہیں سے آپؐ معراج شریف پر تشریف لے گئے۔ بعثت کے بعد آپؐ ڈیڑھ سال تک مسجد اقصیٰ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے اسی لیے اسے مسلمانوں کے قبلہ اول کی حیثیت حاصل ہے۔ یہودیوں اور نصرانیوں دونوں کا یہ دعویٰ تھا کہ سیدنا ابراہیم ؑ ان کی قوم سے تھے۔ یہودی سیدنا ابراہیمؑ کو یہودی اور عیسائی انہیں نصرانی کہتے تھے جس کا جواب اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں دیا کہ ’’سیدنا ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی وہ تو مخلص اور یکسو مسلمان تھے۔ مسلمانوں نے یروشلم پر 12سو سال حکومت کی، سیدنا عمر فاروق ؓ کو یروشلم کے عیسائی پادریوں نے شہر کی چابیاں خود پیش کیں اور برملا اعتراف کیا کہ ہماری کتب میں یروشلم کی چابیاں لینے والے کی جو نشانیاں بیان کی گئی ہیں وہ تمام نشانیاںسیدنا عمر فاروق ؓ میں موجود ہیں۔ گزشتہ ایک صدی سے انبیاء کی سرزمین فلسطین اور مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقد س پر اسرائیلی دہشت گردی جاری ہے۔
مسئلہ کشمیر کی طرح مسئلہ فلسطین بھی برطانیہ کا پیدا کردہ ہے جس نے پہلی عالمی جنگ کے بعد 1918 سے دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر سرزمین فلسطین پر بسانا شروع کیا اور اس کو یہودیوں کے لیے ’’قومی گھر‘‘ قرار دیا۔ 1948 میں اسرائیل کو باقاعدہ ایک ملک کی حیثیت دیکر عالم اسلام کے عین سینے میں خنجر گھونپ دیا گیا۔ اسرائیل ایک فاشسٹ اور ناجائز ریاست ہے جس کی پون صدی سے امریکا اور برطانیہ سمیت عالمی استعماری قوتیں سرپرستی کررہی ہیں۔ 636ء میں عرب فاتحین نے خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر اسے فتح کر لیا یہودی یہاں ہمیشہ اقلیت میں رہے۔ یہودیوں نے اپنی سازشوں سے کبھی اس خطہ کو امن نصیب نہیں ہونے دیا، صلیبی جنگوں میں عیسائیوں کو مسلمانوں کا قتل عام کیا اور بیت المقدس پر قبضہ کرلیا، 1189ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کیا اور یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی۔ چار صدیوں تک عثمانیوں کی حکمرانی کے بعد 1917ء میں برطانیہ نے اس خطے کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اعلان بالفور کے ذریعہ یہودیوں کے لیے ایک قومی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا۔
1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ء میں اپنی افواج واپس بلالیں اور 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ عالم اسلام نے ظلم و جبرکے اس فیصلے کو مسترد کر دیا اور مصر، اردن، شام، لبنان، عراق اور سعودی عرب نے اسرائیل پر حملہ کر دیا، مگر اپنوں کی بے وفائی اور اغیار کی سازشوں کی وجہ سے اسے ختم کرنے میں ناکام رہے۔ 1949ء میں اسرائیل نے عربوں کے ساتھ الگ الگ صلح کے معاہدے کیے اس کے بعد اردن نے غرب اردن کے علاقے پر قبضہ کر لیا جب کہ مصر نے غزہ کی پٹی اپنی تحویل میں لے لی۔ 1967 میں اسرائیل نے مصر پر حملہ کرکے نہ صرف نہر سوئیز پر قبضہ کرلیا بلکہ غزہ فلسطین کے ایک لاکھ آٹھ ہزار مربع میل پر قبضہ کرلیا۔
عالم اسلام اب اس حقیقت کو تسلیم کرلے کہ کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل قراردادوں اور امریکا سمیت عالمی استعماری قوتوں کی لونڈی یو این او سے اپنے مسائل کے حل کی بھیک کب تک مانگتے رہیں گے۔ ساٹھ سے زیادہ مسلم ممالک جن کے پاس چالیس لاکھ سے زیادہ منظم افواج ہیں، پاکستان ایٹمی قوت بھی ہے مگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ان کی پر کاہ کے برابر وقعت نہیں، پونے دو ارب مسلمانوں کو سلامتی کونسل میں نمائندگی اس لیے نہیں دی جارہی کہ ان کے لیے کوئی ٹھوس آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ امت کے مسائل کے حل کے لیے اگر عالم اسلام کے حکمران متحد نہ ہوئے تو پھر وہ وقت دور نہیں جب بزدل حکمرانوں سے نجات کے لیے دنیا بھر کے مسلمان متحد ہوجائیں گے۔
اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ عالم اسلام فلسطین، کشمیر، اراکان سمیت دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے تحفظ کے لیے مشترکہ طور پر ٹھوس قدم اٹھائیںاور غلامی کی زنجیروں کو ہمیشہ کے لیے کاٹ پھینکیں۔ پاکستان ترکی، انڈونیشیا، ایران، ملائشیا اور سعودی عرب سلامتی کونسل میں نمائندگی کے لیے متحد ہوجائیں اور جنرل اسمبلی میں دو ٹوک موقف اختیار کریں کہ اگر مسلمانوں کو سلامتی کونسل میں نمائندگی نہ دی گئی تو وہ عالم اسلام کی الگ مسلم اقوام متحدہ بنالیں گے۔
باقی صفحہ7نمبر1
سراج الحق
قبلہ اول کی حفاظت کے لیے مسلم ممالک اپنی فوج بھیجیں۔ جن مسلم ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے وہ فوری طور پر اعلان لاتعلقی کریں۔ فلسطین کے تحفظ اور بحالی کے لیے عالم اسلام مشترکہ فنڈ قائم کرے۔ عالم اسلام کو امریکا اور اقوام متحدہ کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے فیصلے خود کرنا ہوںگے۔ پاکستان کے لوگ مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے عالم اسلام کے ہر مسئلے پر اپنی ذمے داری پوری کی۔
میں دنیا بھر کے مسلمانوں خاص طور پر پاکستانی قوم کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے ساتھ بے مثال یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے دنیا بھر میں اسرائیلی جارحیت، دہشت گردی اور درندگی کے خلا ف بھرپور آواز بلند کی۔ لاکھوں پاکستانی شہریوں نے اسرائیل کے خلاف اور فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے ملک گیر مظاہروں میں شرکت کی، خاص طور پر ہماری مائوں، بہنوں، بیٹیوں نے اپنے معصوم بچوں کے ہمراہ ان مظاہروں میں جوش وجذبے اور عزم کے ساتھ حصہ لیا۔
مسئلہ صرف بیت المقدس پر قبضہ کرنے تک محدود نہیں، یہودیوں کا اگلا ہدف پاکستان، سعودی عرب اور باقی عرب دنیا ہے۔ پاکستان ترکی اور ایران ان کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ آقاؐ نے یہودیوں کی شرانگیزیوں کی وجہ سے انہیں مدینہ سے باہر نکالا تھا وہ زخم اب بھی ان کے دلوں میں تازہ ہے۔ یہ سازشی قوم خود سامنے آنے کی جرأت نہیں کرتی لیکن سازشوں کے ذریعے لوگوں کو آپس میں لڑانے میں ید طولیٰ رکھتی ہے۔ اس وقت دنیا کی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں پر ان کا قبضہ ہے۔ عالمی بینک اور مالیاتی ادارے ان کے زیر اثر ہیں، جنہیں یہ ہمیشہ اپنے مخالفین کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
ماضی کے مقابلے میں آج کا عالم اسلام ایک زندہ و جاوید حقیقت ہے۔ اگر عالم اسلام اپنے باہمی اختلافات ختم کرکے اپنی قوت کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دے تو دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے گی اور فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔ ہماری حکومتوں کو اپنا بیانیہ بھی ایک کرنا ہوگا۔ عالم اسلام اپنے عوام کو حقیقی آزادی دے اور اپنے وسائل امت کے مسائل کے حل کے لیے استعمال کیے جائیں۔