یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے

573

ہم مسلمانوں کے ساتھ بھارتی چیرہ دستیوں کی بات کرتے نہیں تھکتے۔ چین میں ہونے والے ایغور مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر چیخ و پکار مچا کر رکھ دیتے ہیں۔ بھارتی کشمیر میں ہونے والے کشمیریوں کے ساتھ بھارتی ظلم تشدد پر سراپا احتجاج بنے رہتے ہیں۔ بھارتی شہروں میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں پر ہونے والے امتیازی سلوک اور گاہ بگاہ قتل عام پر مذمتی بیانات داغتے رہتے ہیں۔ میانمر میں مسلمانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک پر صدائے احتجاج بلند کرتے اور فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف دنیا کے ہر فورم پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں لیکن عالم یہ ہے کہ ریاست کا نہ تو عوام کا عوام پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم پر اور نہ ہی ایک ذمے دار ریاست کی طرح ریاست کا عوام کے جان و مال کا تحفظ فراہم کرنے پر کوئی منصفانہ کردار دنیا کے سامنے ہے۔
پورے پاکستان میں انسانی خون سے ہولی کھیلنا، نجی اور سرکاری املاک کو نذر آتش کرنا، ہستی بستی بستیوں پر حملے کرنا اور عوامی و ریاستی سطح پر ہر قسم کے ظلم و ستم اور غیر منصفانہ طرز عمل کا ہونا، وہ بھی ایک ایسے ملک میں جو بنایا ہی اس لیے گیا تھا کہ یہاں اسلام کے نظامِ عدل کو نافذ کیا جائے گا، ایک ایسا امر ہے جس پر یہ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ بحیثیت ِ ملک و ملت اگر اللہ کا عذاب ہم پر نازل نہیں ہو رہا تو اس میں ہمارا نہیں، اس زمین پر بسنے والے ان بے زبان حیوانات اور نباتات کا لحاظ ہے جو محض اس لیے تباہ و برباد ہوکر رہ جائیں گے کہ عذاب کے نزول میں ان کا نہیں، ہماری بد اعمالیوں کا عمل دخل ہوگا۔ ایک ایسا ملک جس کو وجود میں لانے کے لیے برِ صغیر کے مسلمانوں نے اپنی جان، مال، عزت اور آبرو کی صرف اس لیے قربانی دی تھی کہ وہاں اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے مطابق زندگی بسر کی جائے گی، وہاں قیام پاکستان کے فوراً بعد سے تا دم تحریر ایک دن کے لیے بھی اس نظام کو رائج نہیں کیا گیا بلکہ ہر آنے والا دن اللہ سے کیے عہد کی خلاف ورزی میں بسر ہوتا چلا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہبی، مسلکی، لسانی اور علاقائی تعصب میں ہم اپنے پڑوسی ملک سے بھی کئی ہاتھ آگے نکل گئے۔
دنیا کے مہذب ملکوں میں بھی ہر قسم کی مذہبی، نسلی، علاقائی اور لسانی تفریق کے نتیجے میں خونریزیاں ہوتی اور سیاسی مخالفتوں کے نتیجے میں سڑکوں اور گلیوں میں خون بہتا دیکھا گیا ہے لیکن جو انداز دنیا پاکستان میں دیکھ رہی ہے وہ انداز شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں دکھائی دیا ہو۔ کسی دشمن ملک کا نہیں، پاکستان کا ایک شہر ایسا بھی ہے جہاں ہندوستان پر محمود غزنوی کی طرز پر متعدد سرکاری و غیر سرکاری لشکر حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔ اپنے اپنے نظریات اور مفادات کے مطابق اس شہر کے وسائل پر قابض ہونے کے بہانے کئی جنگیں نہ صرف لڑی جا چکی ہیں بلکہ ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ سب سے آخری جنگ کب اور کن کن کے درمیان ہو کر یہ فیصلہ سنائے گی کہ آخری فتح کا جھنڈا کون سا سرکاری یا غیر سرکاری لشکر لہرائے گا۔
ہنگامے خواہ سیاسی نوعیت کے ہوں یا لسانی و علاقائی، میلوں دور سے لشکر تیار ہوکر کسی بھی ملک میں کسی دوسرے شہر پر حملہ آور ہوتے شاید ہی چشم فلک نے دیکھے ہوں لیکن پاکستان کا ایک شہر جس کا نام کراچی ہے وہاں عرصہ دراز سے لشکر کشی کا ایک ایسا سلسلہ چل نکلا ہے جہاں نہ صرف باقاعدہ حملوں پر حملے ایک روایت بن گئے ہیں بلکہ حملہ آور جس انداز میں حملے کرکے جان، مال، عزتوں اور آبرؤں کو تاراج کرتے رہے ہیں وہ انداز ٹھیک ایسا ہی رہا ہے جیسے کراچی میں رہنے والے مسلمان ہی نہیں ہیں اور ان کی ہر شے سے ہولی کھیلنا نہ صرف کارِ ثواب ہے بلکہ ان کے مال و دولت یہاں تک کے خواتین تک کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹا جا سکتا ہے۔
ایوب خان کے زمانے میں سرکاری سطح پر ہونے والا حملہ کچھ اس سے مختلف نہیں تھا۔ اس حملے کے بعد ہر دور میں کراچی کو فتح کرنے کا سلسلہ ہر سول اور مارشلائی حکمرانوں کے دل میں کروٹیں لیتا رہا ہے۔ بے شمار حملے ہر پی پی دور میں ہوئے اور غیر سندھیوں کے خون سے کراچی و حیدرآباد میں قتل عام کو معمول بنا کر رکھا گیا۔ کراچی کی متعدد بستیاں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردی گئیں۔ چند دن پہلے پورے سندھ سے لاکھوں افراد نے جمع ہوکر کراچی کی سب سے خوبصورت زیر تعمیر بستی پر ایسی لشکر کشی کی جیسے یہ بستی کراچی میں بسنے والے مسلمانوں کی نہیں سومنات کے مندر کے ارد گرد رہنے والے ہندؤں کی ہو۔ یہ حملہ آور نہ صرف پاکستان نہ کھپے کے نعرے بلند کر رہے بلکہ حملہ آوروں کو تعلیم دیتے رہے کہ جو کچھ بھی مال و دولت لوٹ سکتے ہو لوٹ لو کیونکہ یہ سب مال غنیمت ہے۔
کراچی گزشتہ 30 سال سے رینجرز کے محض اس لیے حوالے ہے کہ وہ یہاں (کچھ حلقوں کی مرضی کے مطابق) امن برقرار رکھے لیکن اس سارے عرصے میں سیکورٹی اداروں میں سے کسی ایک کا بھی کوئی ایک اہل کار دور دور تک نظر نہیں آیا۔ وہ ادارے جو ایک سیٹی پر بیرکوں سے باہر آکر پورے شہر میں پھیل جایا کرتے تھے، وہ جلاؤ گھیراؤ اور حملے کی زد میں آنے والوں کی چیخ و پکار پر بھی باہر نہیں نکلے اور بحریہ ٹاؤن راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوتا رہا۔ اس لشکر کشی کا سبب کچھ بھی رہا ہو لیکن اس کی زد میں ماضی کی طرح ایک خاص آبادی ہی آئی اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ صوبائی حکومت ہو، وفاق ہو یا طاقتور ادارہ، سانس کھینچ کر محوِ تماشا ہی دکھائی دیے۔ کراچی کے ساتھ ہمیشہ کی طرح اس بے رحمانہ لشکر کشی پر پورے پاکستان کی خاموشی پر اتنا ہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف