بجٹ: الفاظ کا گورکھ دھندا اور دھوکا

571

وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کا بجٹ برائے 2021-22ء قومی اسمبلی میں پیش کردیا ہے۔ وفاقی بجٹ کا حجم 8487 ارب روپے ہے، جس میں مجموعی خسارہ 3990ارب ہے، وصولیوں کا ہدف 5829 ارب روپے رکھا گیا ہے، سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 215 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں جبکہ ترقی کا ہدف 4.8 فی صد مقرر کیا گیا ہے۔بجٹ پر وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ’’پہلے 2 سال مشکل بجٹ دیا، اب خوشحالی کا بجٹ ہے، بجٹ سے متعلق آئی ایم ایف کو اپنی شرائط پر قائل کرلیا، کہتا تھا گھبرائو مت، لیکن سارے گھبرا گئے‘‘۔ جب کہ معیشت کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ بجٹ معیشت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، یہ انتہائی خوبصورت الفاظ کا مجموعہ ہے لیکن درحقیقت دھوکا ہے جو صرف بے بنیاد مفروضوں پر مشتمل ہے اور اس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں، بجٹ میں کیے گئے دعوے غیر حقیقت پسندانہ ہیں۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنروں کی پنشن میں 10 فی صد اضافہ کیا گیا اور کم سے کم اجرت 20 ہزار کردی گئی، لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ملک کی مجموعی ٹیکس آمدنی میں ڈائریکٹ اور اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں کا توازن بہت بگڑا ہوا ہے۔ ملک کے مجموعی محاصلات میں زیادہ حصہ اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں کی مد میں آتا ہے جو سیلزٹیکس، کسٹم ڈیوٹی، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی شکل میں خزانے میں جمع ہوتے ہیں۔ یہاں پر حکومت نے یہی ہوشیاری کی ہے اور خوشنما اعلانات تو کردیے ہیں لیکن دوسری طرف پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی جو 2018ء میں 180 ارب روپے ہوتا تھا اِس سال عمران خان کی حکومت نے اس کا ہدف 601 ارب روپے رکھا ہے۔ اس کا مطلب ہے جب یہ لیںگے تو پھر پیداواری لاگت بڑھے گی، مہنگائی بڑھے گی، روزمرہ استعمال کی چیزوں دودھ، دہی، دال وغیرہ کی قیمتیں بڑھیں گی۔ یعنی حکومت ایک عام آدمی کی جیب میںایک ہاتھ سے جو ڈالے گی وہ دوسرے ہاتھ سے نکال لے گی۔ اس لیے ماہرین پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کو بھتا کہتے ہیں اور اسی بنیاد پر ’’عوام دوست‘‘ بجٹ کی نفی کی جارہی ہے، اور معیشت پر گہری نظر رکھنے والے واقعی گھبرائے ہوئے ہیں۔ اس بجٹ کو دیکھ کر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایک منی بجٹ اور آئے گا۔ اس کی ٹھوس وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی بات کی جارہی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ابھی آئی ایم ایف سے مذاکرات مکمل ہی نہیں ہوئے ہیں، گو کہ وزیر خزانہ نے برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کی رپورٹ مسترد کردی جس میں اْن کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ امریکی فوج کے ساتھ تعاون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آئی ایم ایف سے مراعات حاصل کی جائیں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم اور اس کے وقار کو بیچ کر وقتی طور پر چیزوں کو استحکام دینے کے ساتھ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن بھی موجود رہے گی۔ اور دوسری طرف وزیراعظم عمران خان یا ان کی حکومت کی کسی بات پر قوم اس لیے یقین کرنے کو تیار نہیں ہے کہ یہ عمران خان ہی تھے جنہوں نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے خودکشی کرلوں، اور اب عمران خان خود آئی ایم ایف کے ساتھ کھڑے ہیں، اور ان کے نئے وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر نہیں آسکتے۔ پہلے ہی بیرونی قرضوں کے پہاڑ نے ہر شخص کو مقروض بنایا ہوا ہے، اور ہم معیشت میں بہتری کے لیے خود انحصاری کی جانب بڑھنے کے بجائے ابھی تک آئی ایم ایف کے در پر ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔ بجٹ کے چند گھنٹوں بعد ہی وزیر خزانہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’ہم نے اپنا پروگرام آئی ایم ایف سے شیئر کیا ہے، ود ہولڈنگ ٹیکس ختم، کیپٹل گین ٹیکس ڈائون کردیا گیا ہے‘‘۔ وہ یہ بھی فرماتے ہیںکہ ڈیڑھ ماہ سے تیل کی قیمتیں نہیں بڑھائیں، اب بڑھانی پڑیں گی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کچھ نہ کچھ اضافہ ضرور کرنا ہوگا۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ مہنگائی ہوگی اور بہت ہوگی۔
بجٹ پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا ہے کہ ’’8.5 کھرب کے مجموعی وفاقی بجٹ میں سے 3 ہزار 60 ارب روپے سود اور قرضوں کی ادائیگی میں چلے جائیں گے۔ پی ایس ڈی پی کے لیے رکھے گئے فنڈز بھی قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص رقم سے تقریباً 35فی صد کم ہیں۔ موجودہ مہنگائی کے دور میں ملازمین کے لیے گھر چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ہمارا مطالبہ رہا ہے کہ مزدور کی کم از کم اجرت 30ہزار مقرر کی جائے‘‘۔ سراج الحق کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’پی ٹی آئی حکومت کی گزشتہ 3 سال کی کارکردگی ظاہر کرتی ہے کہ ملک میں گورننس کا شدید فقدان ہے‘‘۔ صورتِ حال یہ ہے کہ وفاق اور صوبوں کو ٹیکس اصلاحات اور ملکی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لیے جس محنت اور منصوبے کی ضرورت تھی وہ گزشتہ 3 برس میں کہیں نظر نہیں آیا۔ ٹیکس آمدن میں اضافہ کوالٹی آف ٹیکس سے نہیں بلکہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافے سے ہوا جو ایف بی آر کی ناکامی ہے۔ حکومت آج کل زراعت، زراعت بھی کررہی ہے۔ اس کی جانب سے زراعت کے شعبے کی ترقی کے لیے زرعی آلات پر ٹیکسوں میں کمی ضرور مثبت قدم ہے اور ایک عام کسان کو کچھ ریلیف بھی ملے گا، لیکن یہ ناکافی ہے۔ پھر وزیراعظم عمران خان نے آتے ہی سادگی اپنانے اور وزیراعظم ہائوس کے اخراجات کم کرنے کے دعوے کیے تھے لیکن بجٹ میں وزیراعظم آفس کے اخراجات میں 18کروڑ 40 لاکھ کا اضافہ کردیا گیا۔ عمران خان کی حکومت کا پیش کردہ بجٹ 2021-22ء الفاظ کا گورکھ دھندا ہے، اور یہ اشرافیہ اور دولت مندوں کے لیے فائدے مند رہے گا جبکہ غریبوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کرے گا۔