عدالت عظمیٰ میں اہم مقدمہ

510

بجٹ کے شور میں عدالت عظمیٰ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل کی سماعت کا اہم مقدمہ چل رہا ہے جس میں انکشاف ہوا ہے کہ خفیہ ادارے کے جن افسران نے شوکت صدیقی کے گھر کا وزٹ کیا، اْن میں موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید بھی شامل ہیں۔ اس مقدمے میں عدالت عظمیٰ کے مزید ججوں کے نام بھی پس منظر میں آئے ہیں۔ تفصیلات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بریگیڈیئر عرفان رامے شوکت صدیقی کے گھر آئے اور درخواست کی کہ آئی ایس آئی دفتر کے سامنے گرین بیلٹ خالی کروانے کا جو آرڈر دیا گیا ہے اس کا دوبارہ جائزہ لیں، لیکن شوکت صدیقی کے انکار پر انہوں نے برہمی کا اظہار کیا۔ اس واقعے کے دو دن بعد جنرل فیض حمید جب ان کے گھر آئے تو عمرے کی مبارک باد دی، بریگیڈیئر عرفان رامے کے رویّے پر معذرت کی اور کہا کہ وہ قانونی راستے کے مطابق اس معاملے کو حل کریں گے۔ جنرل فیض حمید کے دوسرے وزٹ کے بارے میں شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے بتایا کہ ’’جنرل فیض حمید نے تین ہفتوں بعد جب دوبارہ وزٹ کیا تو کہتے ہیں کہ آرمی چیف نے انہیں سمن کیا ہے اور پوچھا ہے کہ جج صاحب کیا چاہتے ہیں؟ آپ سے ایک جج نہیں سنبھالا جارہا، ہم تو پوری پارلیمنٹ کو ہینڈل کرلیتے ہیں‘‘۔ اس کیس میں ہونے والی باتیں اور انکشافات بہت خطرناک ہیں۔ ان کا چرچا اب بچے بچے کی زبان پر ہے۔ یہ ملک کی خفیہ ایجنسی ہی نہیں اِس وقت عدلیہ کے وقار کا بھی مسئلہ ہے۔ دونوں اہم ادارے اعتبار اور احترام سے ہی برقرار ہیں، یہی ان کی طاقت ہے۔ اس صورتِ حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالت عظمیٰ میں چلنے والے اس مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے، اگر شوکت عزیز کا الزام غلط ہو تو عدلیہ قانون کے مطابق اْن کے لیے فیصلہ کرے، اور اگر اْن کے الزامات ٹھیک ثابت ہوں تو متعلقہ لوگوں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔