اصولِ معاشرت

424

دوسرا حصہ

آپ خود سوچیے کہ مخالف کی کردار کشی اور اس پر اتہامات کی بوچھاڑ کرنے والے لوگ اگر دین کے مستند ترجمان کی حیثیت سے قبول کر لیے جائیں تو پھر معاشرے میں دین داری اور آدمیت باقی رہ سکتی ہے؟ ہمیں تو دشمنان ِ اسلام پر بھی جھوٹ باندھنے کی اجازت نہیں ہے کجا یہ کہ مسلمان کو بہتان کی باڑھ پر رکھا جائے۔ تو خیر، یہ تو بیچ میں ایک بات آگئی، کہنا یہ تھا کہ حسن ِ معاشرت بھی ذوقِ عبادت کی طرح دین کا ایک مستقل مقصود ہے۔ اس کی برکت سے ہم رسمی اور قانونی مسلمان کی سطح سے بلند ہوکر بندگی اور اسلام کی حقیقت کے حامل بنتے ہیں۔ اگر ہم آج پڑھی جانے والی پہلی حدیث ہی کو اپنے جینے کا سامان بنا لیں تو ان شاء اللہ اسلام کی سماجی برکتوں کے بھی شاہد بن سکتے ہیں۔ اس حدیث میں حسن ِ معاشرت کے تین اصول ارشاد فرمائے گئے ہیں۔ پہلا اصول یہ ہے کہ آپس میں تواضع سے پیش آؤ یعنی آپس میں تواضع اختیار کرو، دوسرا یہ کہ کسی کے مقابلے میں اپنی کسی چیز پر فخر نہ کرو، اور تیسرا یہ کہ سرکشی نہ کرو۔ تواضع یعنی دوسرے کو اپنے سے بہتر اور برتر سمجھنا اور عمل سے اس کا اقرار کرنا، معاشرتی وجود کی سب سے بڑی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ تاریخ کی کوئی لہر اس معاشرے کو نہیں ہلا سکتی جس کے افراد آپس میں ایسا نظام ِ تعلق رکھتے ہوں جس میں ہر شخص دوسرے کو اپنے سے اچھا جانتا ہے۔ یہ تواضع ہے جو آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے اجتماعی وجود کو انفرادی وجود پر حتماً ترجیح دے۔ تو پہلی بنیاد ہے تواضع، کہ تم مجھ سے اچھے ہو، تم مجھ سے زیادہ اہم ہو، تمہارا حق میرے حق پر فائق ہے، تمہاری ضرورت میری ضرورت سے بڑی ہے اور تمہاری حیثیت میری حیثیت سے زیادہ ہے۔ اگر افراد میں یہ ذوق پیدا ہوجائے تو معاشرہ رسول اللہؐ کے سچے امتیوں کا معاشرہ ہوگا ورنہ ہم اسی حال میں مبتلا رہیں گے کہ ماننے کا دعویٰ کرو اور زندگی نہ ماننے والوں کی طرح گزارو۔ یہ دو لختی کب تک چل سکتی ہے۔ دین پورا کا پورا قبول کیا جائیگا ورنہ یہ دین ان لوگوں کو اپنے اندر سے اگل کر باہر پھینک دے گا جو اسے آدھا پونا قبول کرکے مطمئن بیٹھے ہیں۔ جس کی بندگی عاجزی کے ساتھ ہے، وہ اپنی معاشرت میں خود پسند نہیں ہوسکتا۔ مطلب، ایک ہی نفس ہے جو خالق ومخلوق دونوں کے تعلق میں کام کرتا ہے، تو جس کو اللہ کی حضوری میں عاجزی حاصل ہے وہ مخلوق کے تعلق میں خود پسندی کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ اللہ کے تعلق سے سیکھا ہوا انکسار مخلوق کے ساتھ تعلق میں بھی دکھائی دے گا ورنہ سب وہم ہے۔ تو دوسرا اصول یعنی اپنے اوپر فخر کرنے سے بچنا، تواضع کی نفسیاتی اور طبعی توسیع ہے اور دوسرے پہلو سے یہ تواضع ہی کا زیادہ مستند اور ٹھوس اظہار ہے۔ یعنی تواضع اپنی ساخت میں حال کی طرح ہے اور خود پر فخر نہ کرنا اس کا مستند عملی اظہار۔ ظاہر ہے خود پسندی، خود نمائی، خود ستائی وغیرہ اللہ کے سامنے تو ہو نہیں سکتی۔ بڑے سے بڑا متکبر شخص بھی نماز میں تو عاجزی ہی دکھائے گا اور اس عاجزی میں نماز کی حد تک وہ جھوٹا بھی نہیں ہوگا لیکن نماز میں طاری ہوجانے والی عاجزی اس کے تکبر پر اثرانداز نہیں ہوگی۔ ایسا آدمی دوہری شخصیت رکھتا ہے۔ ایک شخصیت اللہ کے آگے جھکی رہتی ہے اور دوسری مخلوق کے سامنے اکڑی رہتی ہے۔ اس آدمی سے شیطان کھیلتا ہے۔ اس سے ایک مشینی عاجزی کے ساتھ نماز یں پڑھواتا رہتا ہے اور اس عاجزی کو اس کے لیے تکبریا خود پسندی کا جواز بنا دیتا ہے۔ وہ اس عاجزی ہی پر فخر کرنے لگتا ہے۔ تو یاد رکھنا بعض لوگوں کو شیطان بظاہر اچھی نماز پڑھوا دیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بری معاشرت میں مبتلا رکھتا ہے، دینی علم میں تبحّر کے درجے تک پہنچا دیتا ہے اور دینی مزاج کو مسخ کروا دیتا ہے، بہت اچھے اچھے کام کرو ادیتا ہے اور پھر ان کاموں پر فخر کرنے کی عادت ڈال دیتا ہے، بظاہر اللہ کے قرب کی منزلیں طے کرواتا رہتا ہے مگر دراصل وہ اس سالک کو اللہ سے ناقابلِ پیمائش دوری میں مبتلا رکھتا ہے۔ تو بھائی، بہت ڈرنا چاہیے، کسی چیز، کسی بات، کسی عمل، کسی علم اور کسی حال پر اکڑنا نہیں چاہیے۔
مختصر یہ کہ جو اللہ سے تعلق میں اچھا ہے وہ اللہ کو ماننے والوں کے ساتھ تعلق میں بھی لازماً اچھا ہوگا۔ ان دونوں اچھائیوں کو الگ نہیں کیا جاسکتا، یہ جہاں ہوں گی ساتھ ہوں گی۔ مصلے پر سجدہ گاہ کو آنسؤوں سے تر کر کے اٹھنے والا مصلّیٰ لپیٹتے ہوئے بھلا اپنے بیٹے یا خادم کو گالی دے سکتا ہے؟ قرآن شریف پڑھتے ہوئے بار بار اس پر جھک جانے والا، رونے والا، لرزنے والا تلاوت ختم کر کے پڑوسی سے لڑنے جاسکتا ہے؟ تعلق باللہ سے حاصل ہونے والی نرم دلی مخلوق کے ساتھ تعلق میں کام آنے والی محبت و شفقت بنے بغیر رہ سکتی ہے؟ تو یہ جو دوسرا اصول ہے کہ آپس میں فخر نہ کیا کرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کے مقابلے میں خود کو بڑا بنانے اور دکھانے کی کوشش نہ کیا کرو۔ نسب، علم، تقویٰ، مال وغیرہ سب اللہ کی نعمتیں ہیں، ان میں بھی اگر تم نے کسی کے مقابلے میں فخر کیا تو یہ ان نعمتوں کے انکار کا جرم ہوگا۔ عالم جاہل پر فخر کرے گا تو علم اس کے حق میں وبال بن جائے گا، نیک عمل کرنے والا گناہگاروں کے مقابلے میں فخر کرے گا تو اپنی نیکی کو بھی معصیت بنا دے گا۔ یعنی اپنی کسی اچھی بات پر گھمنڈ کرنے سے وہ اچھی بات بھی برائی بن جائے گی۔ بندگی مزاج بن جائے تو آدمی اپنی خوبیوں پر بھی شرماتا ہے اور اپنی نیکیوں کو بھی استغفار کا مستحق سمجھتا ہے۔ اور بندگی بنیادی حال اور واحد تشخص نہ بنے تو سجدے میں محسوس ہونے والا تذلّل بھی بے اصل ہے اور تلاوت میں اشک باری بھی بے روح ہے۔ جس چیز کو ہم بندگی کا مزاج کہہ رہے ہیں اس کا پہلا اظہار ہی انکسار ہے اور اس کا پہلا نتیجہ ہی خود پسندی کی کامل نفی ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقِ اکبرؓ کو رسول اللہؐ نے بشارت دی تھی کہ تمہارے لیے جنت اپنے آٹھوں دروازے کھول دے گی، وہ یہ فرماتے ہیں کہ اگر قیامت کے دن یہ اعلان ہوا کہ ایک شخص کے سوا سب جنت میں جائیں گے تو مجھے اندیشہ ہوجائے گا کہ کہیں وہ ایک شخص میں ہی تو نہیں! اسی طرح سیدنا عمر فاروقِ اعظمؓ کو اپنے جنتی ہونے پر یقین رکھنا واجب تھا لیکن اس کے باوجود آں جناب فرمایا کرتے تھے کہ کاش حساب کے دن میں برابر سرابر ہی چھوٹ جاؤں! یہ ہوتے ہیں بندگی کا مزاج رکھنے والے اللہ کے دوست جو حب ِ الٰہی کی انتہا پر ہونے کی حالت میں بھی اس مالکْ الملک کی خشیت سے لرزتے رہتے ہیں اور اس کے محبوب ہونے کی یقینی سند پا کر بھی استغفار کے احوال کو کم زور نہیں پڑنے دیتے۔ اور خود رسول اللہؐ کا اسوہ کیا تھا؟ فخر ِ موجودات، مقصود ِ کائنات، رحمۃُ للعالمین، شفیع المذنبین، مدار ِ نجات اور حبیب اللہ ہوتے ہوئے بھی طالبِ مغفرت رہا کرتے تھے۔ یہ آپؐ کا مزاج ِ بندگی ہی تھا جس کی رعایت فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ تسلی دی کہ ہم نے آپؐ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے ہیں، ورنہ کہاں مدار ِ حق و باطل اور کہاں گناہ! لیکن آپؐ کی تشفی اسی وقت ہوتی جب اللہ تعالیٰ عفو ومغفرت کا اعلان فرماتے۔
(باقی آئندہ)