عیسائیت کی تاریخ کا شرمناک باب؟

674

عیسائی مذہب کی تعلیم یہ ہے کہ اگر ان کے ایک گال پر کوئی تھپڑ مارے تو دوسرا گال بھی پیش کر دیتے ہیں، دوسراگال تھپڑ کے لیے پیش کرنے والے کینیڈا کے وزیرِاعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے کہ اسکول سے 215 بچوں کی باقیات کا ملنا ’تاریخ کے شرمناک باب‘ کی دردناک یادیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا پاپائے روم کو معافی مانگنا چاہیے لیکن ویٹی کن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کیتھولک چرچ کو 215 بچوں کی ہلاکت پر افسوس ہے لیکن ہم سب کو مل کر کام کرنا چاہیے اور غم زدہ خاندانوں کی مدد پر غور کرنا ضروری ہے عروج کے زمانے میں اس اسکول میں 500 سے زیادہ طلبہ زیر تعلیم تھے۔ 19ویں اور 20ویں صدی کے دوران کینیڈا کے اسکول حکومت اور مذہبی حکام کے ماتحت چلائے جانے والے بورڈنگ اسکول ہوتے تھے۔ عالمی میڈیا کا کہنا اس اسکول کی فنڈنگ حکومت کرتی تھی اور ویٹی کن کیتھولک چرچ بچوں کو زبردستی تعلیم دیتا تھا تاکہ عیسایت کو فروغ حاصل ہوسکے اس دوران بچے تشدد کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے۔
سٹیلائٹس کی مدد سے موصول ہونے والی تصویر کے مطابق کینیڈا کے ایک سابق مقامی رہائشی اسکول میں 215 بچوں کی باقیات پر مشتمل ایک اجتماعی قبر ملی ہے۔ جن بچوں کی باقیات ملی ہیں یہ بچے برٹش کولمبیا کے کیملوپس انڈین رہائشی اسکول کے طالب علم تھے اور اس اسکول کو 1978 میں بند کر دیا گیا تھا۔ گزشتہ ہفتے اس دریافت کا اعلان ٹی کے ایملوپس ٹی اسیکوپیمک فرسٹ نیشن کے سربراہ نے کیا۔ فرسٹ نیشن میوزیم کے ماہرین اور کورونر کے دفتر کے ساتھ مل کر اموات کی وجوہات اور اس کے اوقات کا اندازہ لگانے کے لیے کام کر رہی ہے کیونکہ ابھی تک ان کا پتا نہیں چل سکا ہے۔ جسٹن ٹروڈو کی ہدایت پر جاری تفتیش سے موصول ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کی ہلاکت میں تشدد کا عنصر صاف نظر آرہا ہے۔
اقامتی نظام کے تحت چلائے جانے والے اسکولوں میں کیملوپس انڈین رہائشی اسکول سب سے بڑا تھا۔ 1890 میں رومن کیتھولک انتظامیہ کے تحت اسے قائم کیا گیا تھا اور 1950 میں اپنے عروج کے زمانے میں اسکول میں تقریباً 500 طلبہ تھے۔ کینیڈا کی مرکزی حکومت نے 1969 میں اس اسکول کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا اور 1978 میں اس کے بند ہونے تک مقامی طلبہ کے ہاسٹل کے طور پر چلایا جاتا تھا۔
ہلاک ہونے والے بچوں میں سے کچھ تو محض تین سال کی عمر کے تھے۔ کینیڈا کی حکومت کا کہنا ہے گمشدہ بچوں کے اہل خانہ کے غم کو کم کرنے لیے دی ٹکیملوپس ٹی اسکویپیمک کو ان کی حتمی آرامگاہ قرار دیں۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ گمشدہ بچوںکے اہل خانہ، گھروں اور برادریوں تک پہنچنے کوشش میں مصروف ہیں جن کے بچے اسکول جاتے تھے۔ برٹش کولمبیا کی چیف کورونر (یعنی موت کا پتا لگانے والا طبی افسر) لیزا لاپوائنٹ نے کینیڈا کے نشریاتی ادارے سی بی سی کو بتایا کہ ’’ہم معلومات اکٹھا کرنے کے عمل میں جلدی کر رہے ہیں‘‘۔
کینیڈا کے وزیرِ اعظم مسٹر ٹروڈو نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’کیملوپس رہائشی اسکول میں پائے گئے باقیات کی خبر نے میرے دل کے ٹکڑے کر دیے‘۔ کینیڈا کے وزیرِ داخلہ کیرولن بینیٹ نے کہا کہ رہائشی اسکول نوآبادیاتی پالیسی کا ’ایک شرمناک‘ حصہ ہے۔ برٹش کولمبیا کی اسمبلی آف دی فرسٹ نیشنز کے علاقائی چیف ٹیری ٹیجی نے ایسی قبروں کے مقامات کی تلاش کو ’فوری کام‘ قرار دیا جو اس خطے میں برادریوں کے غم اور نقصان کو تازہ کرتا ہے۔
یہ ہاسٹل اسکول کیا تھے؟ اس سلسلے معلوم کیا تو پتا چلا کہ 1863 سے 1998 تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ مقامی بچوں کو ان کے اہل خانہ سے زبردستی لے کر ان اسکولوں میں رکھا گیا تھا۔ ان بچوں کو اکثر اپنی زبان بولنے یا اپنی ثقافت پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور ان میں سے بہت سوں کے ساتھ بدسلوکی اور زیادتی کی جاتی تھی۔ 2008 میں اس نظام کے اثرات کو جاننے کے لیے قائم کردہ کمیشن کو معلوم ہوا کہ مقامی بچوں کی بڑی تعداد کبھی بھی اپنے گھروں اور اپنی برادریوں میں واپس نہیں آئی۔ 2015 میں جاری کی گئی تاریخی ’ٹرتھ اینڈ ری کنسیلیشن رپورٹ‘ میں کہا گیا کہ یہ پالیسی ’ثقافتی نسل کشی‘ کے مترادف تھی۔ 2008 میں کینیڈا کی حکومت نے اس نظام سے متاثر بچوں اور ان کے والدین سے باضابطہ طور پر معافی بھی مانگی۔ مسنگ چلڈرن پروجیکٹ کے تحت اسکولوں میں رہتے ہوئے فوت ہونے والے بچوں کی اموات اور تدفین کے مقامات کو دستاویزی شکل دی جا رہی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اب تک مرنے والے چار ہزار ایک سو سے زیادہ بچوں کی شناخت کی جا چکی ہے۔ ویٹی کن سٹی میں 215 لڑکوں کی باقیات پر کینڈین وزیر اعظم کا معافی مانگنے کا مطالبہ یکسر مسترد تو نہیں لیکن معافی مانگنے کے بجائے متاثرین کے غم کو بانٹنے کی بات کی ہے جبکہ ابھی تک تشدد سے ہلاک شدہ بچوں اور ان والدین کی شناخت بھی نہیں ہو سکی ہے۔ حقیقت یہ ہے ان بچوں کے والدین کے بارے میں حکومت کو ابھی تک ٹھیک سے معلوم بھی نہیں ہے۔ مسیحی اور غیر مسلم مذہبی درس گاہوں میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ ایک کربناک حقیقت ہے مسیحی اور غیر مسلم مذہبی درس گاہوں میں آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے لیکن اسلامی حکومتیں ان باتوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتی ہیںاور نہیں معلوم کب تک کرتی رہیں گی۔
پوری دنیا کے اسلامی اور دیگر ممالک میں 1442 برسوں سے اسلامی دینی مدارس کام کر رہے ہیں اور کافر اور اب اسلامی حکومتیں بھی دینی مدارس پر الزام لگاتے ہیں کہ وہاں پڑھنے والے بچوں کو تواتر سے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں بعض مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں اور بعض خوف کے مارے مدرسوں ہی کو خیرباد کہہ دیتے ہیں لیکن ان میں اب تک ایسا کوئی واقع سامنے نہیں آیا جہاں سے تشدد سے ہلاک ہونے والے بچوں کی اجتماعی قبروں کا انکشاف ہوا ہو۔ پاکستان کی سب سے بڑی این جی او دینی مدارس ہیں اور وہاں حکومت کی سوچ سے بہت زیادہ بچوں کو ہر طرح کی سہولت دی جارہی ہیں لیکن دین کے دشمنوں اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ان دینی مدارس کو اپنا مد ِمقابل سمجھتی ہے۔ اسلام نے دنیا بھر کے انسانوں کو سمجھایا کہ کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت کو زوال سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔ بچوں کو ظلم و تشدد سے بچانے کے لیے بچوں کو بھی ظالموں سے ہوشیار کرنا ضروری ہے۔ معاشرے کے ہر فرد کو چاہیے کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرے کیونکہ بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔
کینیڈا کے وزیرِ داخلہ کیرولن بینیٹ نے کہا کہ رہائشی اسکول نوآبادیاتی پالیسی کا ’ایک شرمناک‘ حصہ ہے۔ یہ درست نہیں ہے آج کی نام نہاد ترقی یافتہ دنیا میں بھی بچوں پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے اور یہ سب کچھ عیسائیت کی تاریخ کا شرمناک باب تھا اور اب بھی جاری ہے۔