قبائل کی داد رسی

730

ضم شدہ قبائلی اضلاع کی نصف کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ انضمام کے وقت جو وعدے کیے گئے تھے اور ان کو جو سبز باغ دکھائے گئے تھے وہ سنہرے خواب پچھلے تین سال کے دوران نہ صرف چکنا چور ہو چکے ہیں بلکہ انضمام کے بعد ہر گزرتا دن قبائل کے لیے نہ صرف انتہائی بھاری ثابت ہو رہا ہے بلکہ مسائل میں ہونے والے اضافے سے انہیں اپنا مستقبل روز بروز انتہائی تاریک بھی دکھائی دے رہا ہے۔ دراصل پچھلے تین سال کے دوران بالخصوص اور انضمام سے قبل بالعموم قبائل کو انضمام کے حوالے سے جو خوشنما مناظر دکھائے گئے تھے اور ان کے ساتھ قبائلی اضلاع میں دودھ اور شہد کے نہریں بہانے کے جو وعدے کیے گئے تھے ان میں اسے اب تک ایک بھی وعدہ وفا نہیں ہو سکا ہے جس سے قبائل بالخصوص یہاں کے نوجوانوں میں اضطراب اور بے چینی کا بڑھنا ایک فطری امر ہے۔ انضمام کے وقت قبائل کے ساتھ سب سے بڑا وعدہ یہاں ایک بڑے اقتصادی انقلاب کا کیا گیا تھا جس کے مطابق قبائلی اضلاع کو ہر سال تعمیر وترقی کے لیے دس سال تک سو ارب روپے کی فراہمی کا وعدہ سر فہرست تھا لیکن اب تین سال بعد حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ انکشاف حیران کن ہے کہ سالانہ سوا ارب روپے کی فراہمی میں تین صوبے یعنی پنجاب، سندھ اور بلوچستان رکاوٹ ہیں۔ اگر اس حکومتی موقف کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ اس اختلاف کو ختم کرانا آخر کس کی ذمے داری ہے۔ کیا حکومتی حلقے اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں کہ وفاقی حکومت ریاستی سطح پر ہونے والے کسی بھی فیصلے پر عمل درآمد کی نہ صرف ذمے دار ہے بلکہ اس حوالے سے دیگر وفاقی یونٹوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا بھی وفاقی حکوت کی قانونی اور آئینی ذمے داری ہے۔
حکومتی حلقوں کے جانب سے یہ موقف اپنانا کہ تین صوبے قبائلی اضلاع کو وعدہ شدہ سو ارب روپے کی ادائیگی میں رکاوٹ ہیں میں اس لیے وزن نہیں ہے کہ سندھ کے سوا باقی دو صوبوں پنجاب اور بلوچستان میں تو حکمران پی ٹی آئی کی مخلوط حکومتیں ہیں کیا وفاقی حکومت اس انتہائی اہم قومی معاملے پر ان صوبوں کو اعتماد میں نہیں لے سکتی۔ واضح رہے کہ اس بات کا انکشاف صوبائی وزیر انور زیب خان نے گزشتہ دنوں میڈیا کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کیا تھا کہ قبائلی اضلاع کو وعدے کے مطابق سوا ارب روپے سالانہ کے فنڈز دینے کی راہ میں تین صوبے رکاوٹ ہیں جو این ایف سی ایوارڈ میں انضمام کی آئینی ترمیم کے تحت قبائل کی تعمیر وترقی کے لیے تین فی صد حصہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں جس کا خمیازہ بیچارے قبائل کو بے پناہ مسائل اور مشکلات کی صورت میں برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ قبائل جو پہلے ہی سے بے پناہ مسائل اور اقتصادی بد حالی سے دو چار تھے ان کے ساتھ پچھلی دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تحت جو ظالمانہ سلوک روا رکھا گیا اس کے نتیجے میں پوری قبائلی پٹی شدید دبائو اور اضطراب سے دوچار ہے۔ ان بیس سال میں ایک پوری نسل جوانی کی دہلیز میں قدم رکھ چکی ہے یہ وہ نسل ہے جس نے اپنے گھروں، حجروں، مساجد اور تعلیمی اداروں سے دور رہ کر خانہ بدوشی اور انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزاری ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو نہ صرف تعلیم سے دور رہ کر جوان ہوئی ہے بلکہ اس کے مزاج میں ایک عجیب قسم کی کرختگی اور ناراضی کے عنصر کو بھی ہر کوئی دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے۔ دراصل قبائل کی زندگی کے یہ گزشتہ بیس سال وہ تلخ ایام ہیں جن کا مداوا شاید زندگی بھر نہیں ہوسکے گا۔
انضمام کے وقت قبائل کے ساتھ کیے جانے والے وعدوں کی تکیل میں تاخیر اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سوتیلے سلوک کی وجہ سے قبائل میں جو لاوا پک رہا ہے اس کی ایک معمولی جھلک گزشتہ دنوں انضمام کے تین سال مکمل ہونے کی مناسبت سے جمرود ضلع خیبر میں یوم سیاہ کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ تاریخی باب خیبر پر یوم احتجاج کے موقع پر مقررین کا انضمام کے خلاف نعرے لگانا اور حکومت سے انضمام کا فیصلہ واپس لینے کے مطالبے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ قبائل میں انضمام کے وقت ان سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری نہ ہونے پر کتنا اشتعال اور مایوسی پائی جاتی ہے۔ یہ بات بجا ہے کہ انضمام کے اثرات بتدریج سامنے آئیںگے اور بحیثیت مجموعی اس کا زیادہ تر فائدہ آنے والی نسلوں کے حصہ میں آئے گا لیکن ایک اوسط درجے کی عقل رکھنے والا شخص بھی اس حقیقت کو جان سکتا ہے قبائل پچھلی سات دہائیوں کے دوران جن مصائب اور مشکلات سے دوچار رہے ہیں اور ان کے ساتھ قیام پاکستان کے وقت بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے جو وعدے کیے تھے اور قیام پاکستان کے بعد قبائل نے پاکستان کے تحفظ اور مغربی سرحدوں کے دفاع میں جو کردار ادا کیا ہے اس کا نتیجہ قبائل کو زندگی کے مختلف شعبوں میں سہولتوں اور مراعات کی شکل میں سامنے آنا چاہیے تھا لیکن اب وفاق اور دیگر تین صوبوں کی جانب سے قبائل کو این ایف سی ایوارڈ میں وعدہ شدہ تین فی صد حصے کی ادائیگی میں جس لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے اس سے نہ صرف قبائل کے زخموں پر نمک پاشی ہو رہی ہے بلکہ اس غیر مفاہمانہ بلکہ منتقمانہ رویے سے قبائل کے احساسات بھی بری طرح مجروح ہورہے ہیں لہٰذا توقع ہے کہ وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتیں بشمول ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز قبائل کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے نہ صرف ان کی داد رسی کریں گے بلکہ آنے والے بجٹ میں قبائلی علاقوں کی فلاح و ترقی کے لیے وعدے کے مطابق طے شدہ حصہ بھی مختص کرنے میں کسی بخل سے کام نہیں لیں گے۔