جنگ ِخندق کا منظر…

356

جنگ خندق خطرات اور ہولناکی کے نقطہ نظر سے بڑی سخت جنگ تھی۔ اسی جنگ کے بارے میں قرآن نے کہا ہے کہ آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے۔ پورا ایک مہینہ اہلِ مدینہ پر اتنا بھاری تھا کہ اس کا ایک ایک لمحہ پہاڑ معلوم ہوتا تھا۔ کئی اہل ِایمان شہید ہوگئے تھے۔ بھوک اور فقر و فاقے کے ساتھ موسم کی شدت و حدت نے مشکلات کو دوچند کر دیا تھا۔ باہر کی جانب پورا عرب اُمڈ آیا تھا اور مدینے کے اندر بنو قریظہ مار آستین بنے خباثت اور شیطنیت پر تلے کھڑے تھے۔ یہ سارے حالات قرآن کی سورہ الاحزاب‘ حدیث کے تمام مجموعوں اور سیرت کی کتب میں تفصیلاً بیان ہوئے ہیں۔
اتنے بڑے معرکے میں یہ بات تعجب انگیز ہے کہ فریقین کا جانی نقصان بہت کم ہوا۔ مسلمانوں میں سے آٹھ صحابہ نے جام شہادت نوش کیا۔ جبکہ کافروں میں سے چار جنگجو واصل جہنم ہوئے۔ دراصل خندق نے ایسا معجزہ کر دکھایا کہ اتنی بڑی جنگ کے باوجود انسانی جانوں کی حفاظت کا ایک بہترین انتظام میسر آگیا۔
مسلمانوں کے تمام شہدا انصار میں سے تھے۔ اتفاق سے اس جنگ میں کسی مہاجر صحابی کی قسمت میں شہادت کا رُتبہ نہیں لکھا گیا۔ انصار میں سے جو لوگ شہید ہوئے‘ ان میں سب سے مشہور شخصیت سیدنا سعد بن معاذؓ کی تھی۔
سیدنا سعد بن معاذؓ: آپ قبیلہ اوس کے سردار اور بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے۔ مصعب بن عمیرؓ کی کوششوں سے مسلمان ہوئے اور قبول اسلام سے پہلے اپنے سارے قبیلے کے مرد وزن کو جمع کرکے ان سے پوچھا: ’’میرے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ انہوں نے یک زبان ہو کر جواب دیا: آپ ہمارے سردار ہیں، ہمارے سردار کے بیٹے ہیں، ہم سب سے زیادہ سمجھدار اور ذہین ہیں‘‘۔
سیدنا سعدؓ نے فرمایا: ’’اگر میرے بارے میں تمہارا یہ خیال ہے تو پھر سن لو کہ میں اسلام میں داخل ہو چکا ہوں۔ جب تک تم بھی اللہ کی وحدانیت اور محمدؐ کی رسالت پر ایمان نہیں لاؤ گے، میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔
سیدنا سعدؓ قبیلہ اوس کے درمیان اتنے معزز و محترم اور قابل اعتماد تھے کہ ان کی بات سن کر پورے کا پورا قبیلہ اوس اسلام میں داخل ہوگیا۔ سعد بن معاذؓ نے اپنے اثر ورسوخ کو دعوت اسلام کے لیے وقف کر دیا۔ سیدنا مصعب بن عمیرؓ کو انہوں نے قبول اسلام کے بعد اپنا مہمان بنا لیا تھا اور ان کا گھر مدینہ میں اسلام کا مرکز بن گیا۔ سعدؓ کا تذکرہ غزوہ بدر اور غزوہ احد دونوں جنگوں میں آتا ہے۔ ان کے کارنامے نبی پاکؐ اور تمام صحابہ نے دیکھے تھے اور ان کی تحسین فرمائی تھی۔ جنگ خندق میں بھی انہوں نے اپنے شایان شان حصہ لیا۔
خندق کی کھدائی سے لے کر دشمن کے مقابلے پر ڈٹ جانے تک اور احزاب کے مقابلے میں جرأت مندانہ اور حکیمانہ مشورہ دینے سے لے کر بنو قریظہ کے متعلق فیصلہ دینے تک ہر مقام پر وہ ممتاز اور منفرد نظر آتے ہیں۔ سعد جیسے سپوت واقعتاً مائیں کبھی کبھی ہی جنا کرتی ہیں۔ جب سعدؓ زرہ پہنے خندق کی طرف روانہ ہوئے تو آپ کی والدہ نے بنو حارثہ کی حویلی میں سے جہاں مسلمان خواتین جمع تھیں‘ انہیں دیکھا۔ ان کی زرہ چھوٹی تھی، جس میں سے ان کا ہاتھ باہر نکلا ہوا تھا۔ سعدؓ کی حقیقی والدہ کبثہؓ اور روحانی والدہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ دونوں نے انہیں دیکھا۔ سعدؓ اس وقت رجزیہ شعر پڑھتے ہوئے جا رہے تھے۔
لبث قلیلاً یشہد الہیجا حمل
لاباس بالموت اذا حان الاجل
(ترجمہ )’’ذرا سا انتظار کرو‘ ابھی جنگ بھی حملے کا منظر دیکھ کر (اش اش کر اٹھے گی) موت سے کیا ڈرنا؟ موت تو اپنے وقت پر آ کر رہتی ہے‘‘۔
ان کی والدہ نے آواز دے کر کہا: ’’بیٹے تم نے بڑی دیر کر دی ہے۔ جلد میدان جنگ میں پہنچو‘‘۔ ام المومنین نے فرمایا: ’’ام سعد‘ کاش سعد کی زرہ طویل ہوتی، اس کا ہاتھ زرہ سے باہر نکلا ہوا تھا‘‘۔ سعدؓ جب میدان میں پہنچے تو ایک مشرک ابن العرقہ نے تیر مارا جو ان کے ننگے ہاتھ میں پیوست ہوگیا۔ اس سے ہاتھ کی رگ ہفت اندام کٹ گئی۔ سعدؓ کی شہادت بالآخر اسی زخم کی وجہ سے ہوئی۔
زخم لگنے کے بعد نبی اکرمؐ نے سعدؓ کے لیے مسجد نبوی کے صحن میں ایک خیمہ نصب کرا دیا۔ نبیؐ خود صبح شام ان کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے۔ ایک صحابیہ سیدہ رفیدہؓ کو جو قبیلہ اسلم سے تعلق رکھتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی اور علاج میں ماہر تھیں‘ سیدنا سعدؓ کی دیکھ بھال اور علاج کے لیے مامور فرما دیا تھا۔ زخم سے خون بند نہیں ہوتا تھا جس پر آپؐ نے خود سعدؓ کے زخم کو داغ دیا۔ داغے جانے کے بعد اگرچہ خون تو بند ہوگیا، مگر ہاتھ سوج گیا۔ جس کی وجہ سے سعدؓ کو خاصی تکلیف محسوس ہوتی تھی۔
تکلیف کے ان دنوں میں بھی سیدنا سعدؓ کا حوصلہ کبھی پست نہیں ہوا۔ اپنے زخم کی شدت کو دیکھ کر انہیں تقریباً یقین ہو گیا تھا کہ وہ اس زخم سے جانبر نہیں ہو سکیں گے۔ ایک روز انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی ‘ جس کے ایک ایک لفظ میں ان کی اسلام کے ساتھ وابستگی اور تعلق باللہ نمایاں طور پر جھلک رہا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’اے اللہ! اگر قریش سے مزید کچھ جنگیں ہونا باقی ہیں تو مجھے بھی مزید مہلت دے دے۔ میں ان لوگوں سے لڑنے کی تمنا رکھتا ہوں، جنہوں نے تیرے سچے رسولؐ کو ایذائیں پہنچائیں، ان کو جھٹلایا اور پھر ان کے گھر سے انھیں نکال دیا۔ اگر ان لڑائیوں کا خاتمہ ہوگیا ہے تو پھر مجھے شہادت عطا فرما دے۔ ہاں میری یہ التجا ہے کہ بنو قریظہ کے معاملے میں میرا دل ٹھنڈا ہو جانے تک مجھے زندگی کی مہلت عطا فرما دے‘‘۔
بنو قریظہ نے جو بدعہدی کی تھی، اس کی سزا دینے کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو حکم دیا کہ بنو قریظہ کا معاملہ طے کرنے سے پہلے اپنے ہتھیار نہ کھولیں۔ آپؐ نے اس حکم ربانی کے مطابق‘ بنو قریظہ کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا۔ چند ہی دنوں کے اندر ان لوگوں نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دیے کہ اس قضیے میں سیدنا سعد بن معاذؓ کو حکم مقرر کیا جائے اور وہ جو فیصلہ کریں اسے تسلیم کر لیا جائے۔ زمانہ جاہلیت میں اوس اور قریظہ کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم تھے۔ آپؐ نے یہودیوں کی شرط قبول فرما لی اور سیدنا سعدؓ کو بلا بھیجا۔ جب وہ تشریف لائے اور صورتحال سے واقف ہوئے تو انہوں نے فرمایا: ’’اللہ کے نبی کی موجودگی میں کوئی دوسرا فیصلہ کرے یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ انہوں نے بنوقریظہ کو بھی بلند آواز سے کہا کہ وہ اپنا فیصلہ اللہ کے نبی سے کرائیں، مگر بنوقریظہ کی بدقسمتی کہ وہ اپنی ضد پر قائم رہے اور بار بار یہی کہا کہ ہمارا فیصلہ سعد بن معاذؓ کرے۔ آپؐ نے بھی فرمایا: ’’سعد تم فیصلہ کرو‘‘۔ اس پر انہوں نے فرمایا: ’’میں ان کا فیصلہ تورات کے مطابق کرتا ہوں۔ ان کے لڑنے والے تمام مرد قتل کر دیے جائیں، عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے اور ان کی تمام املاک مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دی جائیں‘‘۔ یہ فیصلہ نافذ ہوا اور غدار اپنے انجام کو پہنچ گئے۔
سیدنا سعدؓ کی دعا قبول ہو چکی تھی۔ بنو قریظہ کے بارے میں ان کا سینہ ٹھنڈا ہو گیا تھا اور قریش آئندہ کسی جنگ میں شریک ہونے کے دم خم سے محروم ہو چکے تھے۔ خود آپؐ نے فرمایا تھا کہ قریش اب کبھی مدینہ پر حملہ نہ کرسکیں گے، بلکہ اب مدینہ کی طرف سے پیش قدمی ہوگی۔ جنگ خندق میں لگنے والے زخم کے نتیجے میں سیدنا سعدؓ شہید ہوگئے۔ ان کے پھولے ہوئے ہاتھ پر بکری کا کھر لگا، جس سے خون کا فوارہ پھوٹ نکلا، اسی سے ان کی شہادت واقع ہوئی۔ ایک روایت کے مطابق‘ آپؐ کو ان کی شہادت سے قبل اطلاع مل گئی‘ جبکہ دوسری روایت کا مفہوم یہ ہے کہ آپؐ کو شہادت کے بعد جبرائیلؑ نے آ کر اس سانحے کی خبر پہنچائی۔ آپؐ نے سیدنا سعدؓ کے بارے میں جو الفاظ کہے‘ وہ محدثین نے یوں روایت کیے ہیں: ’’اے اللہ! سعد نے تیری راہ میں بڑی تکلیفیں اٹھائی ہیں اس نے تیرے دین اور تیرے رسول کی خدمت کا حق ادا کیا ہے۔ اے اللہ! تو اس کے ساتھ ایسا معاملہ کر جیسا تو اپنے مکرم دوستوں کے ساتھ کرتا ہے‘‘۔
سعدؓ کی وفات پر مدینہ میں غم کے بادل چھا گئے تھے۔ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔ ایک روایت کے مطابق‘ عرش عظیم کے حامل فرشتے بھی سیدنا سعدؓ کی وفات پر کانپ گئے تھے۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ فرشتوں کی ایک بڑی جماعت نے بھی جنازے میں شرکت کی۔ سیدنا سعدؓ کی والدہ نے ان کی وفات پر درد انگیز شعر کہے، جنہیں سن کر آپؐ نے فرمایا: ’’بین کرنے والیوں کے بین جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں، مگر ام سعد نے جو کچھ کہا‘ وہ سچ ہے‘‘۔