پانی کا مسئلہ حل کیوں نہیں ہوتا؟

204

وفاق اور سندھ کے درمیان پانی کے مسئلے پر تنازع جاری تھا کہ بلوچستان نے سندھ پر دعویٰ کر دیا کہ وہ بلوچستان کے حصے کے پانی پر ڈاکا ڈال رہا ہے ۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اس سے ایک روز قبل کہا تھا کہ وفاق سندھ کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی جیسا سلوک نہ کرے ۔ پانی کی تقسیم سے متعلق ادارے ارساکا کہنا ہے کہ ہم نے سندھ کو اس کے حصے کا پانی دے دیا ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی کیا ہے۔ پھر بھی شکوے شکایات رہ جاتے ہیں لیکن جو انداز اختیار کیا گیا ہے وہ نہایت نا مناسب ہے ۔ سندھ حکومت محض صوبے کی حکومت ہے مالک نہیں آج وہ ہے کل کوئی اور حکمران ہو گا لیکن موجودہ حکمران گروہ کے نزدیک سندھ اس کی ملکیت ہے۔ اس کے وزراء کا انداز بھی ایسا ہی ہے جبکہ بلوچستان حکومت کے ترجمان نے بھی خبر میں تو جگہ بنا لی لیکن یہ انداز گفتگو مناسب نہیں کہ ہمارے پانی پر ڈاکا مارا جا رہا ہے ۔ یہ شکوہ کافی تھا کہ بلوچستان کو اس کے مقررہ حصے سے44فیصد کم پانی ملا ہے ۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ یہی صورتحال رہی تو نصیر آباد ڈویژن میں زراعت تباہ ہو جائے گی ۔لیکن یہ سارے مسائل پھر بھی ارسا میں حل ہونے چاہیے تھے ۔ جہاں تک سندھ کو پانی کم ملنے کا تعلق ہے تو اس کا شکوہ بھی وہیں حل ہونا چاہیے ۔ اگر1991ء کے معاہدے پر مسلسل اعتراضات ہیں تو پھر ارسا کا کیا فائدہ ۔ آبی ماہرین نے ٹیلی میٹری سسٹم نصب کرنے کی تجویز دی تھی ، ارسا میں اس پر بات ہونی چاہیے تاکہ پانی کے بہائو اور حجم کے مطابق سالانہ بنیاد پر فیصلے کیے جاتے رہیں ۔ پانی کے معاملے میں حقیقت تو یہ ہے کہ پانی ضرورت کے وقت نہیں ہوتا اور جب بے تحاشا ہوتا ہے تو اس وقت ضرورت نہیں ہوتی ۔ اس مسئلے کو حل تو حکمرانوں خصوصاً وفاق کو کرنا ہے لیکن صوبوں کا معاملہ بھی ٹھیک تو نہیں جب سیلاب آتا ہے تو شکایت کرنے والے صوبوں کے حکمران اس وقت اس پانی کو ذخیرہ کرنے کا کوئی نظام کیوں نہیں بنا لیتے ۔ یہ ٹیلی میٹری سسٹم کب نصب ہو گا ؟ اس بارے میں بھی خاموشی ہے ۔ ایک بات جو آنکھوں دیکھی ہے اور دنیا جانتی ہے کہ پانی کی قلت کا شکوہ کرنے والے صوبے سندھ کے حکمرانوںکے گنے ، گندم اور دیگر کھیتوں میں کبھی پانی کم ہوا ہو تو وہ بھی بتائیں بلکہ سندھ میں تو چھوٹا کاشتکار اور عام زمیندار خود شکوہ کرتا ہے کہ بڑوں نے پانی کا رُخ ہی موڑ لیا ۔ یہی معاملہ پنجاب میں بھی ہے ۔ جب حکمرانوںمیں زمیندار، وڈیرے اور جاگیر دار ہوں گے تو مسائل صرف ان کے حل ہوں گے ۔ جب نواز شریف حکمران تھے تو ان کے خاندان کے کاروبار کے مطابق قوانین بنتے اور فیصلے ہوتے تھے ۔ سندھ کے آبی ذخائر اور راستوں کا معائنہ کیا جائے تو پتا چلے گا کہ کس وزیر نے نہر سے اپنے گھر تک نالی نکالی ہوئی ہے اور کہاں سے پانی کا رخ ہی تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ یہ زیادتی کا شکوہ کرنے والے اپنے عوام کے ساتھ خود بھی تو زیادتی کرتے ہیں اگر یہ حکمران اپنے چھوٹے کاشتکاروں اور عوام کو ان کا پانی دے دیں گے تو مرکز سے اپنا پانی وصول کرنا آسان ہو جائے گا ۔ کب تک سندھ کارڈ کھیلیں گے ؟