جب حقیقت دوگز قبر کی مٹی ہے پھر یہ کھیل تماشا کیوں ؟

301

زندگی پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں سے بھری وہ راہ گزر ہے جہاں سے ہمیں دامن بچا بچا کے گزرنا ہوتا ہے۔ زندگی کی حقیقت ایک زرد پتے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ خدائے بزرگ و برتر نے دنیا کی زندگی کو امتحان گاہ یا میدان عمل کے
طور پہ ہمیں نوازا ہے۔ اس دنیا میں پائی جانے والی ہر شے کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے۔ اسی مقصد کے تحت نظام کائنات کا پہیہ چل رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ تو ہماری عبادتوں اور ریاضتوں سے بے نیاز ہے پھر بھلا اس زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ اس زندگی کی بنیاد ہی رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ قوانین خداوندی پر عمل پیرا ہونا، پیکر عجز ورضا، دنیا کی زندگی تو آخرت کی تیاری کے لیے ہے حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے۔ کہ اس دنیا میں ایسے رہو جیسے کہ کوئی سرائے ہے اور تم مسافر۔
سو دنیا ایک مسافر خانہ ہے۔ اور ہم مسافر ہیں۔ جو ایک متعین مدت کے لیے یہاں قیام پزیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اشرف المخلوقات کا
درجہ دیا ہے۔ تو اس درجے کو نبھانا سب سے اہم ہے۔ زندگی کی حقیقت روپے پیسے بلند عمارات کھڑی کر لینے، نت نئے ملبوسات پہن لینے سے منسوب نہیں ہے ہماری زندگی اللہ کی رضا سے منسوب ہے۔ ہماری زندگی ان اعمال کے ساتھ منسوب ہے جو ہم اس عارضی دنیا میں کریں اور اس کا بدلہ ابدی دنیا میں پائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: بے شک دنیا کی زندگی فریب اور دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ سو دنیاوی زندگی کی حقیقت نظر کا دھوکا ہے۔ جتنی جلدی اس دھوکے سے نکلا جائے اتنا ہی ہمارے لیے بہتر ہے۔ انسان کی بنیاد مٹی ہے اور آخر کار اسے مٹی ہی ہو جانا ہے۔ چنانچہ ہماری زندگی کی حقیقت دوگز قبر کی مٹی ہے اور ہمارے اعمال ہیں جن کی بدولت یا تو ہم اسے جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا بنا سکتے ہیں یا پھر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ! تو کوشش کیجیے اس دور ِ پرفتن میں خود کو اعمال صالح کے ساتھ جوڑے رکھیں تاکہ ہماری اصل اور ابدی زندگی کی حقیقت جنت کے باغ ہوں