پھر حادثہ، پھر کمیٹی، نتیجہ صفر

329

حادثات عموماً حادثات ہی ہوتے ہیں لیکن ان کی ذمے داری متعلقہ ادارے اپنے اوپر نہ لیں یہ رویہ نہایت خراب بلکہ مجرمانہ ہے اور اس کام میں پاکستان کی تمام ہی حکومتیں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں، شاید کوئی استثنائی واقعہ ہوگیا ہو جس میں کسی حادثے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے کوئی وزیر استعفا دے دیتا ہے ورنہ یہ رویہ بہت پرانا ہے کہ حادثہ سابق انتظامیہ، سابق وزیروں اور سابق حکمرانوں کی وجہ سے ہوا۔

 یہی کام گھوٹکی واقعے میں بھی کیا گیا، پیر کے روز کراچی سے سرگودھا جانے والی ٹرین گھوٹکی کے قریب ٹریک سے اُتر کر سامنے سے آنے والے ٹریک پر جا پڑی ابھی اس کی اطلاع بھی نہ ہونے پائی تھی کہ سامنے سے آنے والی سرسید ایکسپریس اس پر چڑھ دوڑی، حادثے اور اس پر دوسری ٹرین چڑھنے سے ہلاکتوں میں اضافہ بھی ہوگیا۔  ڈھائی گھنٹے تک کوئی ذمے دار جائے حادثہ پر نہیں پہنچا۔

وزیراعظم نے ریلوے حفاظتی نظام میں خرابی کی جامع تحقیقات کا حکم دے دیا ہے لیکن اس پر حکومتی وزرا کا بیان نہایت افسوسناک اور بچکانہ ہے۔  ان سے کہا گیا کہ آپ کے دور میں 8 بڑے حادثات ہوئے ہیں اس پر حکومت کے نمائندوں نے جواب دیا کہ حادثات کا سبب پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی کرپشن ہے۔ یہ بات کہنے والے خود فواد چودھری ہیں جو پچھلے حادثات اور کرپشن کے وقت ان ہی پارٹیوں کا حصہ تھے۔

ان کا سوال ہے کہ سعد رفیق کے گناہ پر وزیراعظم عمران خان اور اعظم سواتی استعفا کیوں دیں، یعنی 60 افراد جان سے چلے گئے اور یہ لوگ اس بحث میں اُلجھے ہوئے ہیں کہ غلطی کس کی ہے۔  ہاں یہ غلطی سعد رفیق کی بھی ہے اور پیپلز پارٹی کے وزیرریلوے کی بھی ہے۔ لیکن آج کل جو وزیر ریلوے اور حکومت ہے آج کے حادثے کی ذمے داری تو اسے ہی قبول کرنی ہوگی لیکن ایسا نہیں ہورہا ہے۔  وزیراعظم نے ایک اور جامع انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔  لیکن یہ تحقیقات کبھی ٹھکانے نہیں لگتیں کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا، کسی کی تحقیقات میں ڈرائیور کو ذمے دار قرار دے دیا جاتا ہے جو مرچکا ہوتا ہے۔

بالکل اسی طرح جس طرح پی آئی اے حادثے میں پائلٹ کو ذمے دار قرار دے دیا جاتا ہے۔  ایک مرتبہ پھر جامع تحقیقات کا نام لیا گیا ہے۔  خواجہ سعد رفیق کے دورِ وزارت میں ایک حادثہ ہوا تو اس طرح کی جامع تحقیقاتی کمیٹی بنی جس کو جے آئی ٹی کہا جاتا ہے اس کا نتیجہ زبردست تھا کہ ٹرین ضرورت سے زیادہ تیز رفتاری سے چل رہی تھی یعنی ڈرائیور ذمے دار نکلا جو مر گیا تھا۔

 ویسے یہ سوال اپنی جگہ کہ پاکستانی ٹرینیں ضرورت کے مطابق رفتارسے بھی چلتی ہیں کہ نہیں ۔  ایک دو افسران کی گوشمالی کرلی گئی۔ طرح طرح کی خبریں آتی رہی ہیں، وائرلیس سسٹم لگے گا، ٹریکر لگے گا، لیکن سرسید ایکسپریس میں وائرلیس نہیں تھا یا ڈرائیور کو ٹریکر کے ذریعے ٹریک پر ٹرین کی بوگیاں نظر نہیں آسکیں۔ دراصل یہ سب ایک حادثے کے وقت کے بیانات ہیں بعد میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔

 خواجہ سعد رفیق ہوں یا کوئی اور یا اعظم سواتی ان سب کے نزدیک انسانی جان کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو خوب بولتے ہیں۔ یہی عمران خان کہا کرتے تھے کہ وزیروں میں غیرت ہو تو حادثے پر استعفا دے دیا کریں، اب ان سے کیا کہا جائے۔ ان کے اپنے دور میں 8 بڑے مہلک حادثات اور مجموعی طور پر 455 حادثات ہوچکے ہیں۔  وزرا کو اب تین سال بعد بھی سعد رفیق کے گناہ کی فکر ہے، تین سال میں ان کے وزرا نے پاکبازی کی مثال قائم کی ہے کیا؟

اس حادثے کے بارے میں تو بہت واضح رپورٹ آگئی ہے کہ سانحے سے تین روز قبل ریلوے افسران نے ٹریک خراب ہونے کی رپورٹ کردی تھی۔  چیف انجینئر کا چار جون کا خط بھی سامنے آگیا جس میں کہا گیا ہے کہ تمام وسائل دے دیے گئے پھر بھی کام کیوں شروع نہیں کیا گیا۔ اس رپورٹ کا جواب وفاقی انسپکٹر نے نہایت نامناسب دیا ہے کہ ڈی ایس سکھر طارق لطیف کا دماغ خراب ہے۔ محکموں میں اس طرح کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے سرکاری محکموں کو گھر کی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔

بہرحال اگر تین دن قبل بھی بتادیا گیا تھا تو یہ کافی تھا۔ وزیر ریلوے کے علم میں یہ بات نہیں تھی تو کیوں نہیں تھی۔ اس کا نظام ہونا چاہیے، اب یہ باتیں پرانی ہوگئیں کہ تحقیقات ہوگی اور نہیں چھوڑیں گے۔ اعظم سواتی نے بھی یہی کہا کہ مافیا کے خلاف خود تحقیقات کروں گا۔ اس جملے سے تو لگتا ہے کہ ریلوے میں موجود مافیا تحقیقات ہی کو رکوا دے گی۔

 دنیا بھر میں ٹرین کا نظام محفوظ اور آرام دہ بنایا جارہا ہے اور پاکستان میں غیر محفوظ اور مشکل بنایا جارہا ہے یہ تو حادثہ تھا ٹرینوں کی حالت دیکھی جائے تو پتا چلے کہ پتا نہیں کہاں سے ڈبے نکال لائے ہیں۔

 شیخ رشید صاحب درجنوں ٹرینیں چلا گئے نئے وزیر نے بند کردیں کسی کام کا کوئی نظام نہیں ہے۔  وزیراعظم عمران خان خود اور ان کی ٹیم اب تو کم از کم اپنی نالائقی کا الزام سابق حکمرانوں پر ڈالنے سے باز آجائیں۔  حیرت ہے سابق حکمرانوں کے گناہوں کی بات کرتے ہیں ان کے گناہ گاروں کو اپنی صفوں بلکہ کابینہ میں جگہ دے رکھی ہے۔  فواد چودھری ہوں یا شاہ محمود قریشی یا کوئی اور جب دوسرے گناہ گاروں کو قبول کیا ہے تو ان کے گناہوں پر استعفے بھی دیں۔