کراچی: کےالیکٹرک کا پیدا کردہ بجلی بحران، عوام بدحال اور پریشان – اے اے سید

302

کراچی ریاستی سطح پر مستقل نظرانداز ہورہا ہے اور ایک بار پھر انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے، جس کا ایک بڑا سبب کے الیکٹرک ہے جو اِس وقت شہر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا کردار ادا کررہی ہے۔

ملک میں دہشت گردی میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن کراچی میں کے الیکٹرک کی دہشت گردی بجلی کے بدترین بحران کی صورت میں جاری ہے۔

مختلف علاقوں میں بجلی کی اعلانیہ بندش کا دورانیہ10 گھنٹے تک پہنچ گیا ہے جبکہ مستثنیٰ علاقوں میں بھی 3 گھنٹے کے لیے بجلی بند کی جا رہی ہے ، اس وقت لیاری، کورنگی، گڈاپ، کیماڑی، شاہ لطیف ٹاؤن، سرجانی ٹاؤن، بلدیہ ٹاؤن، ملیر لانڈھی ہو … یا گلستان جوہر، ڈیفنس، اسکیم 33 کے علاقے سمیت شہر کے دیگر علاقے … تقریباً پورے شہر میں لوڈشیڈنگ جاری ہے۔

شہر میں بجلی کی طویل بندش کی وجہ سے شہریوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے، شہری گرمی میں بلبلا رہے ہیں۔

حکومت اور نیپرا کا کہیں پتا نہیں ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کے الیکٹرک سستی بجلی پر انحصار کررہی ہے۔ شہر میں 3600میگا واٹ بجلی کی طلب ہے، نیشنل گرڈ سے 1100 میگاواٹ بجلی فراہم کی جارہی ہے، آئی پی پیز سے بھی بجلی مل رہی ہے لیکن کے الیکٹرک شہر میں بلاتعطل بجلی فراہم کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے جبکہ ترجمان کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ شہر میں بجلی کی فراہمی معمول کے مطابق ہے، کچھ علاقوں میں فالٹ کی وجہ سے بجلی بند ہوئی جس کو بحال کردیا گیا ہے۔

یعنی شہر اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے اور کے الیکٹرک کی ڈھٹائی ہے کہ ختم ہوکر نہیں دے رہی ہے اور بات صرف بجلی کے تعطل کی نہیں ہے، اس کے ساتھ شہر کراچی کے لوگوں پر ستم یہ ہے کہ وہ جو بجلی استعمال نہیں کرتے اُس کا بھی بھاری بھرکم بل ادا کرنے پر مجبور ہیں۔

کے الیکٹرک کی ریاست کی سرپرستی میں غنڈہ گردی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے، ایسے میں جب عوام کا غصہ بڑھتا ہے تو اس کو کم کرنے کے لیے ریاست بیانات اور نمائشی اقدامات کے ساتھ حرکت میں آتی ہے، اسی پس منظر اور حقائق کے ساتھ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کراچی میں طویل اور غیر اعلانیہ بجلی کی بندش پر کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) مونس علوی کو گورنر ہاؤس طلب کیا اور خبر کے مطابق برہمی کا اظہار کیا، اور شہریوں کی شکایات کا فوری ازالہ کرنے کی ہدایت کی۔

لیکن ان کی بات کی کیا اوقات! کراچی میں لوگ ہنوز بجلی جانے کی اذیت جھیل رہے ہیں۔ ایسے میں ایک بار پھر جماعت اسلامی نے اپنی پوری قوت کے ساتھ کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج شروع کردیا ہے، اور اس سلسلے میں امیر جماعت اسلامی کراچی نے ایک مفصل اور بھرپور پریس کانفرنس میں نہ صرف کے الیکٹرک کے جرائم بلکہ اس کے سرپرستوں کا پردہ چاک کیا ہے۔

کئی چشم کشا حقائق بیان کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے مطالبہ کیا ہے کہ کے الیکٹرک وفاقی و صوبائی حکومت اور نیپرا کی ملی بھگت سے کراچی کا استحصال فوری بند کرے، کراچی میں لوڈشیڈنگ اور اوور بلنگ فوری ختم کی جائے۔

 تیزمیٹر چیک کرنے کا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے، ذرا سی گرمی بڑھنے پر سسٹم ٹرپ کرجاتا ہے، عوام اپنی شکایتیں لے کر کہاں جائیں؟

حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ کراچی کی صورت حال مجموعی طور پر ابتر ہے، بجلی کی لوڈشیڈنگ کا معاملہ بگڑتا جارہا ہے، صورت حال یہ ہے کہ کراچی کے 70 فیصد علاقوں میں اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، حکومت کی جانب سے کراچی کے شہریوں کو کوئی ریلیف نہیں دیا جارہا، کے الیکٹرک کی نجکاری اس لیے کی گئی تھی کہ لوڈشیڈنگ ختم ہو، لیکن آج کے الیکٹرک نجکاری کے 16 برس بعد بھی بجلی کی پیداوار میں صرف11 فیصد اضافہ کرسکی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ایک پرائیویٹ کمپنی کو 95 ارب کی سبسڈی دیتی ہے، کے الیکٹرک کے اصل ذمہ داران کا ہی نہیں پتا کہ کون اس کا مالک ہے؟ ہم نہیں، عدالتیں کہتی ہیں کہ کیا ملک دشمن عناصر اس کے کرتا دھرتا ہیں؟

کے الیکٹرک ایک مافیا کا کردار ادا کررہی ہے، تمام حکومتیں اس مافیا کے ساتھ ملی ہوئی ہیں، اس کا موجودہ مالک عارف نقوی وزیراعظم کا دوست ہے۔ پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اہلِ کراچی کو صرف لوٹنے میں مصروف ہیں۔

انہوں نے کہاکہ صورت حال یہ ہے کہ ذرا سی بھی گرمی بڑھتی ہے تو لوڈشیڈنگ فری علاقوں میں بھی تین سے چار گھنٹے کی لوڈشیڈنگ شروع ہوجاتی ہے جبکہ دوسرے علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی صورت حال پہلے ہی انتہائی خراب ہے جہاں پر 9سے 10 گھنٹے کی طویل لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ انتہائی سخت گرمی میں طویل دورانیے کی لوڈشیڈنگ نے اہلِ کراچی کو سخت اذیت اور مصیبت سے دوچار کردیا ہے۔

لاک ڈاؤن کے باعث تاجر طبقہ پہلے ہی پریشان ہے، کاروبار ویسے ہی تباہ حال ہے، سخت گرمی میں عوام دن کے وقت گھر سے باہر نکلنے سے گریز کرتے ہیں اور شام ہوتے ہی پولیس سارے کاروباری مراکز بند کروا دیتی ہے۔

حافظ نعیم نے کے الیکٹرک کی انتظامیہ کو متنبہ کیا ہے کہ اگر کراچی میں بدترین لوڈشیڈنگ ختم نہ کی گئی تو شہر بھر میں بھرپور احتجاجی سلسلے کا آغاز کریں گے۔ کے الیکٹرک کراچی کے عوام کے لیے اذیت کا دوسرا نام ہے۔ اس کو اپنا نظام ٹھیک کرنا ہوتا تو پہلے ہی کرچکی ہوتی۔ اس نے 16سال گزر جانے کے باوجود بجلی کی پیداوار میں اضافہ نہیں کیا۔

کے الیکٹرک کے دعووں کے برعکس بن قاسم پلانٹ تھری شروع نہ ہوسکا جبکہ این ٹی ڈی سی سے بغیر کسی معاہدے کے مفت 400 میگا واٹ اضافی بجلی ملنے کے باوجود کراچی میں بجلی کا بحران جاری ہے۔

کے الیکٹرک پرائیویٹ کمپنی ہونے کے باوجود سارا انحصار سرکاری این ٹی ڈی سی سے حاصل کردہ بجلی پر کررہی ہے۔

وفاقی حکومت نے پہلے ہی رواں سال کے الیکٹرک کو نیشنل گرڈ سے ملنے والی بجلی ساڑھے چھ سو میگاواٹ سے بڑھاکر گیارہ سو میگاواٹ کردی ہے، اس کے باوجود کے الیکٹرک اپنے صارفین کو بلاتعطل بجلی فراہم کرنے میں ناکام ہے۔

ہر دن گزرنے کے ساتھ صورت حال خراب ہوتی جارہی ہے۔ کراچی کے عوام بجلی کے بھاری بل، لوڈیڈنگ اورپھرپانی کی کمی کی وجہ سے بپھرے ہوئے ہیں، ان کا غصہ گرمی کی طرح بڑھتا جارہا ہے، لوگ راتوں کو نکل کر احتجاج کررہے ہیں۔

اگران کو کےالیکٹرک اور اس کی دہشت گردی سے نجات نہ ملی تو آئندہ آنے والے دنوں میں شہر کی امن وامان کی صورتِ حال خراب ہونے کا خدشہ موجود ہے۔ اس سے پہلے کہ صورتِ حال سب کے ہاتھ سے نکل جائے ریاست کو سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔