تقسیم اسکوائر مسجد ۔ صدر اِردوا ن کا بڑا کارنامہ یہ سب اللہ کی عنایت ہے، اُس نے چاہا تو یہ مسجد تاقیامت قائم رہے گی‘ ترک صدر

306

ترک صدر رجب اِردوان نے استنبول میں تاریخی تقسیم اسکوائر پر واقع مسجد کا افتتاح کردیا- مسجد کی تعمیر کا آغاز 2017ء میں ہوا تھا، مگر یہ منصوبہ دہائیوں تک عدالتی جنگ اور عوامی بحث و مباحثے کا محور رہا۔ مسجد کے افتتاح کے موقع پر عوام کی بڑی تعداد موجود تھی جبکہ مسجد میں 4 ہزار افراد کی گنجائش موجود ہے۔ تقسیم مسجد اور اس کا 30 فٹ بلند گنبد علامتی طور ترک جمہوریہ کی یادگار ہے، جس کی بنیاد مصطفی کمال اتاترک نے رکھی تھی۔ افتتاح کہ موقع پر صدر رجب طیب اِردوان کا کہنا تھا کہ تقسیم مسجد اب استنبول کی شناخت کا اہم حصہ ہے۔ یہ سب اللہ کی عنایت ہے،اگر اس نے چاہا تو یہ مسجد تاقیامت موجود رہے گی- مسجد کی تعمیر مخالفین پر ہماری واضح فتح کی دلیل ہے۔ اب اس منصوبے کو کوئی روک نہیں سکتا-
تاریخی اور سیاحتی شہر استنبول جس طرح ترکی کے دل کی حیثیت رکھتا ہے، بالکل اسی طرح ’’ تقسیم اسکوائر‘‘ (قدیم دور میں اس علاقے سے پینے کے پانی کی تقسیم کی جاتی تھی) کو استنبول میں یہی حیثیت حاصل ہے۔ استنبول میں جدید ترکی کے اس جھومر کو اس وقت گہن لگ جاتا جب ہزاروں کی تعداد میں عام مسلمان اس مرکزی علاقے میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے جمع ہو تے اور سڑکوں اور گلیوں میں اخبارات بچھا کر نماز جمعہ ادا کیا کرتے تھے مگر سیکولر حکومتوں کے کانوں پرجوں تک نہ رینگتی اور اس مسئلے کو جان بوجھ کر نظر انداز کردیا جاتا تاکہ مذہبی رجحان رکھنے والے افراد کو جدید جمہوریہ ترکی کے اس جدید علاقے سے دور رکھا جاسکے اوریہ تمام حکومتیں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنے زیر اثر سیکولر عدلیہ کا سہارا لینے سے گریز نہ کرتیں۔
تقسیم اسکوائر اس وقت سے مسجد سے محروم تھا جب 20 ویں صدی سے تعلق رکھنے والی ایک قدیم مسجداپنی خستہ حالت کی بدولت مسمار کردی گئی، لیکن برسر اقتدار آنے والی دائیں بازو کی تمام سیاسی جماعتوں کی سر توڑ کوشش کے باوجود یہاں پرکوئی مسجد تعمیر نہ کی جاسکی۔ اس سلسلے میں سب سے اہم قدم یک جماعتی نظام کے خاتمے کے فوراً بعد ڈیموکریٹ پارٹی نے 1955 میں اٹھایا اور تقسیم اسکوائر میں مسجد کی تعمیر کے لیے’’تقسیم مسجد ٹرسٹ‘‘ قائم کرنے کا فیصلہ کیا لیکن ملک میں 1960 کے مارشل لا نے اس منصوبے کو کالعدم قرار دے دیا۔
تاہم 1965 میں سلیمان دیمرل کی جسٹس پارٹی نے نئے سرے سے اس مسجد کی تعمیرکے لیے قدم اٹھایالیکن اُ س وقت کی سیکولر ری پبلکن پیپلز پارٹی ( CHP)کی استنبول بلدیہ نے اس منصوبے کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کینسل کردیا۔ 1977میں سلیمان دیمرل کے دوبارہ برسراقتدار آنے پر نئے سرے سے اس مسجد کا پلان تیار کرتے ہوئے منظوری کے لیے پیش کیا گیا لیکن CHPنے اپنی سیکولر پالیسی کی بنیاد پراسے ایک بار پھر مسترد کردیا۔
ستمبر 1980 میں ترکی میں نیشنلسٹ فرنٹ (دائیں بازوکی جماعتوں کے سیاسی اتحاد) نے مشترکہ طور پر اس مسجد کی تعمیر کے حق میں مہم شروع کی لیکن 12 ستمبر 1980کے مارشل لانے مسجد کی تعمیر سے متعلق مہم پر پابندی عائد کردی۔ 1983 میں مسجد کی تعمیر کے لیے عدلیہ سے رجوع کیا گیا لیکن ترکی کی اعلیٰ عدلیہ’’ کونسل آف اسٹیٹ‘‘ نے مقدمے ہی کو خارج کردیا۔
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے 2002 میں پارلیمنٹ میں کلی اکثریت حاصل کرنے اور حکومت تشکیل دینے کے بعد ایک بار پھر جامع مسجد تقسیم کی تعمیر کی پلاننگ نے سر اٹھانا شروع کردیا تاہم اس وقت وزیر اعظم رجب طیب اِردوان نے ملک کی اقتصادیات کو بہتر بنانے کے بعد تقسیم اسکوائر کی جامع مسجد کی تعمیر اور گیزی پارک میں عثمانی دور کے آرٹلری بیرکس کی تعمیر کے منصوبے کو بیک وقت شروع کرنے کا فیصلہ کیا لیکن گیزی پارک میں درختوں کی کٹائی نے حالات کا رخ تبدیل کرکے رکھ دیا اور گیزی پارک میں اردوان کے خلاف شروع ہونے والے ہنگاموں اور مظاہروں نےکئی ماہ تک استنبول سمیت پورے ترکی کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔
تقسیم اسکوائر کی جامع مسجد کی تعمیرکو اپنی زندگی کو سب سے اہم فیصلہ قرار دینے والے اردوان نے تمام رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے آخر کار 17فروری 2017میں جامع مسجد کا سنگ بنیاد رکھااور گزشتہ جمعہ کے روزاستنبول کی فتح کی 568ویں سالگرہ پراس کا افتتاح کیا۔ صدر اردوان نے اس موقع پرکہا کہ ’’جامع مسجد تقسیم اسکوائر‘‘ ہماری ڈیڑھ سو سالہ جدوجہد کا نتیجہ ہے۔
جامع مسجد تقسیم اسکوائر اب استنبول کی علامتوں میں سے ایک ہے۔ اس مسجد کی تعمیر میں استعمال ہونے والے تمام سازو سامان کا خصوصی طور پر انتخاب کیا گیا ہے۔ یہاں اس علاقے میں ہمیں مسجد کی تعمیر کی اجازت نہ دی گئی بلکہ مرغی کے ڈربے کی مانندایک چھوٹی سی مسجد اور اس کے باہر سڑکوں اور گلیوں میں اخبارات بچھاکر نماز پڑھنے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ 40 اور 50 کی دہائی میں اس مسجد کی تعمیر کے لیے جو قربانیاں دی گئیں ، ان سب سے ہم اچھی طرح آگاہ ہیں۔ ترک قوم ڈیڑھ سو سال بعد اپنے اس خواب کو حقیقت کا روپ اختیار کرتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔
صدر اردوان نے 26سال قبل استنبول تقسیم اسکوائر کی جامع مسجد کے بارے میں جو منصوبہ تیار کیا تھا، اسے معمار شفیق بریکیے اور سلیم دالامان نے حتمی شکل دی جبکہ اس مسجد میں خطاطی کا کام خطاط داؤد بیکتاش اور نقاش آدم طوران نے سرانجام دیا ہے۔ راہداری کے گنبد پر سورۃ اخلاص اور آیت الکرسی اور مین دروازے پر سورۃ النسا ءکی 103ویں آیت کے آخری حصے اور استقلال دروازے پر سورۃ رعد کی 24 ویں آیت کندہ ہے۔
مسجد کے اندرونی حصے پر اﷲ، محمدؐ، ابو بکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓ کے نام جلی حروف میں دلکش انداز میں کندہ ہیں۔ یہ مسجد زیر زمین پانچ اور زمین سے اوپر چار منزلوں یعنی کل نو منزلوں پرمشتمل ہے۔اس مسجد کا کل رقبہ 17ہزار مکعب میٹر کے لگ بھگ ہے۔ مسجد کے مرکزی گنبد جس کی اونچائی 30میٹر ہے کے علاوہ بارہ گنبد اور دو مینارے دور ہی سے اپنی خوبصورتی بکھیرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
اس مسجد میں بیک وقت چار ہزار افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس مسجد میں 12میٹر قطر اور تقریباً 20میٹر بلند 60عدد فانوس آویزاں کیے گئے ہیں جبکہ تین منزلہ کار پارکنگ میں 165گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجائش ہے۔ مسجد میں نمائشی ہال، کانفرنس ہال، لنگر خانہ اور ڈیجیٹل اسلام لائبریری بھی موجود ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی تاریخی عمارت ایا صوفیہ کو بھی ترک حکومت کی جانب سے مسجد میں تبدیل کردیا گیا تھا جو میوزیم اور مسجد ہونے سے پہلے دنیا کا سب سے قدیم چرچ تھا۔ ان اقدامات کے باعث ترکی کے سیکولر حلقوں کی جانب سے صدر اِردوان کو سخت تنقید کا بھی سامنا ہےـ۔