افغانستان! امریکی مداخلت کا تسلسل – مسعود ابدالی

644

افغانستان سے نیٹو افواج کی واپسی جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے کابل ائرپورٹ کا انتظام اشرف غنی انتظامیہ کے حوالے کرکے امریکی پرچم لپیٹ دیا گیا۔ عسکری ذرائع کے مطابق افغانستان میں تمام فوجی اڈے بند کرکے ساری کی ساری نفری واپسی کے لیے بگرام بلا لی گئی ہے۔ کابل سے 45 کلومیٹر شمال میں بگرام (صوبہ پروان) کے قریب واقع یہ ہوائی مستقر امریکہ کی مدد سے 1950ء میں تعمیر ہوا۔ سرد جنگ کے اُس دور میں افغانستان امریکہ کا اتحادی تھا۔ تعمیر کے بعد یہاں پہلی پرواز امریکہ سے آئی، جس پر صدر آئزن ہاور سوار تھے۔ نائن الیون کے بعد اس کا انتظام امریکی فضائیہ نے سبنھال لیا اور اس کی حفاظت کے لیے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل نصب کیے گئے۔ بگرام میں جنگی قیدیوں کے لیے ایک جیل بھی بنائی گئی تھی جسے عقوبت کدہ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ اسی جیل میں پاکستان سے اغوا کی جانے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی رکھی گئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کو تفتیش کے دوران اس بہیمانہ انداز میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ ان کی چیخوں سے سارا جیل خانہ گونجتا تھا۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق دیوپیکر مال بردار طیاروں میں حساس عسکری سامان کی واپسی یکم مئی سے جاری ہے، اور روزانہ تین سے پانچ طیارے سامان ڈھو رہے ہیں۔ اس ہوائی اڈے کی قباحت یہ ہے کہ یہاں ایک ہی رن وے ایسا ہے جس پر سے بڑے طیارے اڑان بھر سکتے ہیں۔ سپاہیوں کے انخلا کے لیے مشہورِ زمانہ عقابِ اسود(Black Hawk) ہیلی کاپٹر استعمال ہورہے ہیں۔ افغانستان میں غیر ملکی فوج کی کُل نفری کتنی ہے اس کے بارے میں حقیقی اعداد و شمار تک رسائی ممکن نہیں، لیکن کہا جارہا ہے کہ صدر جوبائیڈن کی جانب سے انخلا کے حتمی اعلان سے پہلے 2500 امریکی اور نیٹو کے 7000 سپاہی سارے افغانستان میں مختلف فوجی اڈوں پر تعینات تھے۔ باوردی اہلکاروں کے ساتھ 17000 سویلین بھی امریکی فوجی کمان کی زیرنگرانی مختلف اداروں میں کام کررہے تھے۔ سویلین ٹھیکیداروں میں 6 ہزار تو امریکی شہری ہیں جو فوج کے ساتھ واپس جارہے ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والے 10ہزار افغان شہریوں کا ہے۔ ان افراد کو ڈر ہے کہ انھیں غدار قرار دے کر انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جائے گا۔ چنانچہ یہ لوگ اہلِ خانہ سمیت امریکہ جانے پر اصرار کررہے ہیں۔ امریکی حکومت کے لیے تیس چالیس ہزار افراد کو امریکی شہریت دینا اتنا آسان نہیں۔ دوسرے غیر ملکیوں میں زیادہ تر مصری فوج کے جلاد ہیں جنھیں القاعدہ اور دوسرے عرب چھاپہ ماروں سے تفتیش اور لب کشائی کے لیے یہاں لایا گیا تھا۔

آسٹریلیا کے 80 سپاہیوں کا انخلا 28مئی کو مکمل ہوگیا، جس کے بعد کابل میں آسٹریلیا کا سفارت خانہ بند کردیا گیا ہے۔ آسٹریلوی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ سفارت خانے کی بندش عارضی ہے، اور صورت حال واضح ہوتے ہی معمول کی سفارتی سرگرمیاں بحال کردی جائیں گی۔

برطانیہ کے فوجیوں کی واپسی بھی تقریباً مکمل ہوچکی ہے۔ اس کے 750 عسکری ماہرین کابل اکیڈمی میں سرکاری فوجوں کو تربیت دے رہے تھے۔ خیال ہے کہ جون کے پہلے ہفتے تک برطانیہ کے تمام سپاہی وطن واپس چلے جائیں گے۔

گزشتہ کچھ ہفتوں سے امریکی فوج کی واپسی میں تیزی آگئی ہے اور فوجی حکام کا کہنا ہے کہ جولائی کے آغاز تک انخلا مکمل ہونے کا امکان ہے۔ نیٹو فوجیوں کی واپسی بھی خاصی تیز ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وسط جولائی تک تمام کی تمام غیر ملکی سپاہ افغانستان سے چلی جائیں گی۔

افغان طالبان انخلا میں تاخیر سے خوش تو نہیں، لیکن اب تک ان کی جانب سے واپس ہوتی نیٹو افواج کے خلاف پُرتشدد پیش قدی کی کوئی اطلاع نہیں ملی، بلکہ واپسی کے لیے فوجی اثاثوں کی دوسرے اڈوں سے بگرام منتقلی کے دوران تحفظ فراہم کیا گیا۔ قطر معاہدے کے تحت یکم مئی تک تمام غیر ملکی افواج کو نکلنا تھا اور صدر بائیڈن کی جانب سے انخلا 11 ستمبر تک مکمل کرنے کے اعلان پر اپنے ردعمل میں طالبان نے کہا تھا کہ ”ہم پورے اخلاص کے ساتھ قطر معاہدے پر عمل کررہے ہیں، اور اگر امریکہ نے وعدے کی پاس داری نہ کی تو تمام نقصانات کا ذمے دار وہ خود ہوگا“۔ تاہم طالبان کی جانب سے برداشت و متانت کا اظہار کیا جارہا ہے جو افغان امن کے لیے خوش آئند ہے۔

تاخیر کے باوجود انخلا کی رفتار اطمینان بخش ہے اور بظاہر لگتا ہے کہ طالبان نے افغان ملّت کے وسیع تر مفاد میں امریکہ کی وعدہ خلافی کو ”بہ کراہت“ قبول کرلیا ہے۔ لیکن چچا سام، فوجوں کی واپسی کے بعد افغانستان پر نظر رکھنے کے جو جتن کررہے ہیں اُس پر طالبان نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔

طالبان کے اضطراب کا سبب وہ خبر ہے جس کے مطابق افغانستان پر نظر رکھنے کے لیے پاکستان اپنے چند یا کم از کم ایک فضائی اڈہ امریکہ کو دینے پر تیار ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام آباد اور واشنگٹن سے متضاد اشارے مل رہے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 11 مئی کو اسلام آباد میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے بہت ہی غیر مبہم انداز میں کہا تھا کہ ”ہم امن کی کوششوں میں امریکہ کے ساتھ ہیں، لیکن اپنی سرزمین پر غیر ملکی بوٹ لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“

تاہم گزشتہ ہفتے امریکی سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے عسکری خدمات کے سامنے سماعت کے دوران جب سینیٹر جومنشن نے سوال کیا کہ پاکستانی فوج اور خاص طور سے پاکستانی خفیہ ایجنسی افغان امن میں کیا تعاون کررہی ہے؟ تو امریکہ کے نائب وزیردفاع برائے ہندوبحرالکاہل ڈیوڈ ہیلوی (David Helvey) نے کہا کہ ”افغان امن کے لیے پاکستان کا کردار بہت کلیدی نوعیت کا ہے۔ وہ امن کوششوں میں ہم سے تعاون کررہا ہے، اور پاکستان نے افغانستان میں ہماری فوج کی مدد کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔“ ہفتہ 22 مئی کو نیویارک میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ”پاکستان، افغانستان کے معاملے پر امریکہ سے وسیع البنیاد تزویراتی (strategic) تعاون کا خواہش مند ہے۔“

واشنگٹن کے صحافتی ذرائع بہت وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ فوجی انخلا کے دوران پسپا ہوتی نیٹو فوج کے تحفظ اور اس کے بعد ”دہشت گرد“ سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے شمسی فضائی مستقر ایک بار پھر امریکہ کو دیا جارہا ہے۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملے میں تعاون کے لیے مکران کے ضلع واشک کے قریب شمسی ہوائی اڈہ امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا۔ یہ اڈہ ہلمند، قندھار اور شمالی وزیرستان پر ڈرون حملوں کے لیے استعمال ہوتا رہا۔ شمسی کے علاوہ جیکب آباد کے قریب شہباز کا فضائی اڈہ بھی امریکیوں کے استعمال میں تھا جسے 2009ء میں بند کردیا گیا تھا۔ مہمند ایجنسی میں سلالہ چوکی پر امریکی حملے کے بعد نومبر 2011ء میں شمسی ہوائی اڈہ بند کردینے کے علاوہ پاکستان کے فضائی اور زمینی راستوں تک امریکیوں کی رسائی بھی مسدود کردی گئی تھی۔

پاکستان کے ایوانِ بالا (سینیٹ) میں فلسطین اسرائیل تنازعے پر بحث کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک بار پھر اعلان کیا کہ ”امریکہ کو افغانستان کی سرزمین پر ڈرون آپریشنز کے لیے نہ تو پاکستان کی جانب سے کوئی فوجی اڈہ دیا جارہا ہے اور نہ کوئی ایئر بیس“۔ شاہ صاحب کا کہنا تھا کہ ”یہ ماضی کی بات تھی، اب ماضی کو بھول جائیں“۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے جذباتی انداز میں کہا ”یہ ایوان اور پاکستانی قوم میری گواہی یاد رکھے کہ عمران خان کی قیادت میں اس ملک میں امریکہ کے لیے کوئی فوجی اڈہ مختص نہیں ہوگا۔“

پیر 23 مئی کو پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چودھری نے امریکہ کو کوئی اڈہ دینے سے متعلق خبروں کی ایک بار پھر سختی سے تردید کی، لیکن یہ بات کہہ کر معاملے کو مشکوک بنادیا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان 2001ء میں ہونے والے معاہدے ”ایر لائنز آف کمیونی کیشن (اے ایل او سی)“ اور ”گراؤنڈ لائن آف کمیونی کیشن (جی ایل او سی)“ موجود ہیں اور دونوں ممالک ان کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ جب چودھری صاحب سے پوچھا گیا کہ اے ایل او سی اور جی ایل او سی کے تحت کس نوعیت کا تعاون کیا جاتا ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں وہ مزید کچھ نہیں کہہ سکتے۔

بلوچستان کے ضلع نصیر آباد میں پاک فضائیہ ایک ہوائی اڈہ تعمیر کررہی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اڈہ امریکہ کے لیے بنایا جارہا ہے۔ فضائیہ کے ترجمان نے بی بی سی سے باتیں کرتے ہوئے اس بات کی تو تصدیق کی کہ بلوچستان میں نئے فضائی اڈے کی تجویز زیرغور ہے لیکن کہا کہ اس حوالے سے اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ نصیر آباد مشرقی بلوچستان میں سندھ کی سرحد پر ہے، لہٰذا اس کا افغانستان کے لیے استعمال مناسب نظر نہیں آتا۔ تیسری دنیا میں حساس معاہدوں کی تفصیلات کمی کمین عوام سے خفیہ رکھی جاتی ہیں، چنانچہ ان کی تفصیلات جاننے کے لیے عرق ریزی وقت کا زیاں ہوگا۔

ممتاز دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کا خیال ہے کہ اے ایل او سی اور جی ایل او سی معاہدوں کے تحت امریکی پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود استعمال کرسکیں گے مگر اڈے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس ضمن میں تازہ ترین خبر یہ ہے کہ واشنگٹن، افغانستان کے شمالی پڑوسیوں ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان سے بھی رابطے میں ہے۔

گزشتہ دنوں ایسوسی ایٹڈ پریس نے امریکہ کی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل فرینک میکنزی کی گفتگو شائع کی، جس میں جنرل صاحب نے کہا کہ ”ہم افغانستان کے پڑوسی ملکوں سے فضائی حدود کے استعمال اور فوجیوں کی تعیناتی کے لیے مذاکرات کررہے ہیں مگر اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا“۔ جنرل صاحب کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے 24 مئی کو امریکی وزارتِ دفاع کے ترجمان نے کہا کہ افغانستان میں فوجی مشن مکمل ہوجانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم علاقہ چھوڑ رہے ہیں۔

اکتوبر سے شروع ہونے والے نئے مالی سال کے لیے بائیڈن انتظامیہ نے جو میزانیہ کانگریس کو بھجوایا ہے اُس میں افغانستان کے جنگی اخراجات (war cost) کے لیے 13 ارب ڈالر مختص کیے گئے ہیں، گزشتہ برس اس مد میں 8ارب 90 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے تھے۔ عسکری تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ 2021ء کے مقابلے میں اٖضافی چار ارب ڈالر انخلا کے اخراجات کے لیے رکھے گئے ہیں۔ بجٹ میں افغان فوج کو 3 ارب 30 کروڑ ڈالر دینے کی سفارش کی گئی ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے افغانستان میں انسدادِ دہشت کے خلاف مہم کے لیے 36 کروڑ ڈالر کا مطالبہ کیاہے۔

روزنامہ جنگ کے مطابق امریکی حکومت نے پاکستانی فوج کی تربیت کا پروگرام دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے پاکستان کے لیے ملٹری ایجوکیشن اور ٹریننگ پروگرام منسوخ کردیا تھا، لیکن نئے سال کے لیے اس مد میں 35 لاکھ ڈالر مختص کیے جارہے ہیں۔ پاکستان کی اقتصادی مدد یعنی اکنامک سپورٹ فنڈ کے لیے 4 کروڑ 75 لاکھ ڈالر کی سفارش کی گئی ہے۔ خطے میں منشیات کی روک تھام کے لیے 10 کروڑ 78 لاکھ ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ اس رقم کا بڑا حصہ پاک افغان سرحد کے حفاظتی انتظامات پر خرچ ہوگا۔ انسدادِ منشیات کے لیے مختص رقم سے ساحلِ مکران کے حفاظتی اقدامات کو بہتر بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔ منشیات کی اسمگلنگ کے حوالے سے مکران میں کبھی کوئی بڑی سرگرمی نہیں دیکھی گئی، چنانچہ بجٹ میں اس کا ذکر شکوک و شبہات پیدا کررہا ہے اور نظریہ سازش پر یقین کرنے والوں کا خیال ہے کہ یہ رقم شمسی ہوائی اڈے کو چالو کرنے کے لیے ضروری مرمت، ریڈار کی تنصیب اور تزئین و آرائش پر خرچ ہوگی۔

ان خبروں پر طالبان نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اپنے ابتدائی بیان میں ان کے ترجمان نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ علاقے میں امریکی اڈوں کا قیام تاریخی غلطی ہوگی۔ خطے میں اجنبی فوجیں بے امنی اور جنگ کا اصل سبب ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ہمسایہ ممالک ہم پر حملے کے لیے اپنی زمین اور فضائی حدود استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ طالبان نے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اگر ایسا ہوا تو افغان قوم اس طرح کے گھناؤنے اقدام کے خلاف خاموش نہیں رہے گی اور ذمہ داروں کو نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ غیر ملکی انخلا کے بعد وہ افغان سرزمین دوسروں کی سلامتی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، اور وہ چاہتے ہیں کہ کوئی دوسری سرزمین بھی افغانیوں کے خلاف استعمال نہ ہو۔

افغانستان کے طلوع نیوز نے 22 مئی کو طالبان کا جو دوسرا بیان شائع کیا ہے اس میں طالبان نے خدشہ ظاہر کیا کہ جاسوسی کے لیے امریکہ ڈیورنڈ لائن (پاک افغان سرحد) کے قریب پاکستان کی فضائی حدود اور زمین کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ طلوع کے مطابق طالبان نے کہا کہ ”یہ تو ایسے ہی ہے جیسے بگرام اور شین ڈنڈ پر امریکہ بیٹھا رہے، اور ایسا ہوا تو افغان ملّت مقدس جہاد جاری رکھے گی۔“

علاقے میں امریکی اڈوں کے ممکنہ قیام سے طالبان کے علاوہ چین اور ایران کو بھی تشویش ہے۔ صدر بائیڈن نے حلف اٹھاتے ہی ہندوستان، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان کے مابین ”اتحادِ اربعہ“ یا Quad کا چوٹی اجلاس طلب کیا تھا جس میں آبنائے ملاکا کی کڑی نگرانی پر غور کیا گیا۔ یہ تنگ سی آبی پٹی بحرِ جنوبی چین کو بحر ہند تک رسائی دیتی ہے۔ کورونا کی وجہ سے گزشتہ اجلاس مجازی یا Virtual ہوا تھا اور خبرگرم ہے کہ اِس سال کے آخر تک حقیقی سربراہی اجلاس آسٹریلیا میں ہوگا۔ چین کا خیال ہے کہ کواڈ کا بنیادی ہدف اس کی ناکہ بندی ہے۔

اسی طرح ایران کو بھی علاقے میں چچا سام کی عسکری موجودگی پر اعتراض ہے۔ اس کے جوہری پروگرام پر اسرائیل کا رویہ بے حد جارحانہ ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم نیتن یاہو نے صاف صاف کہا کہ ان کے لیے آیت اللہ (ایران) کا جوہری پروگرام ناقابلِ قبول ہے اور امریکہ ساتھ دے یا نہ دے ایران کو ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے اسرائیل آخری حد تک جانے کو تیار ہے۔ اس تناظر میں ایرانی سرحدوں کے قریب اسرائیل کے سرپرست و اتحادیوں کے اڈے پر تہران کی تشویش بے وجہ نہیں۔

انخلا کے دوران امریکہ اور نیٹو کے لیے زمینی و فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت تو ٹھیک ہے کہ قطر امن معاہدے کے تحت طالبان بھی پسپا ہوتے غنیم کو محفوظ راستہ دے رہے ہیں، لیکن واپسی کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد پڑوس میں امریکی فوج کی تعیناتی، یا افغانستان پر حملے کے لیے سرزمین کے ممکنہ استعمال کو طالبان اپنی پشت میں خنجر زنی سمجھیں گے۔ اس حوالے سے اُن کے تحفظات کا ازالہ ضروری ہے۔ دو ہفتہ پہلے پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے یہ بیان داغا تھا کہ ”اسلام آباد کابل پر طالبان کے دوبارہ قبضے کا حامی نہیں“۔ تختِ کابل پر کون بیٹھے گا، اس فیصلے کا اختیار صرف اور صرف افغان عوام کو ہے، اور ساری دنیا کو یہ فیصلہ کشادہ دلی سے قبول کرنا چاہیے۔ اسلام آباد، واشنگٹن، دلی و برسلز کو اس فکر میں دبلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس قسم کی سفارتی بقراطی طالبان کو مشتعل کرنے کا سبب بنے گی۔

(This article was first published in Friday Special)