کمرشل بینک اور سرکاری کھاتے – میاں منیر احمد

441

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے گزشتہ برس کمرشل بینکوں میں موجود وفاقی حکومت کے تمام اکائونٹس بند کرنے کا سرکلر جاری کیا گیا تھا، جس کا مقصد تمام سرکاری محکموں کے پیسے کو مرکزی بینک کے سنگل ٹریژری اکاؤنٹ میں رکھنا تھا۔ اب مرکزی بینک کی جانب سے رواں سال اپریل میں جاری کیے گئے ایک اور نوٹیفکیشن میں تمام کمرشل بینکوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تمام سرکاری محکموں کے اکاؤنٹس اور ان میں موجود رقم نئے مالی سال سے پہلے پہلے اسٹیٹ بینک میں جمع کروا دیں۔ نوٹیفکیشن کے مطابق کسی بھی سرکاری محکمے کا نجی بینک میں نیا اکاؤنٹ نہیں کھلے گا اور پرانے اکاؤنٹ فوری بند کیے جائیں گے۔ بینک میں موجود سول آرمڈ فورسز کی رقوم مرکزی بینک کے حوالے نہ کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔ نیشنل بینک سول آرمڈ فورسز کی رقوم اپنے پاس رکھنے کا خواہش مند ہے اور اس معاملے پر اسٹیٹ بینک سے استثنیٰ چاہتا ہے، تاہم ابھی تک اسٹیٹ بینک نے کوئی حتمی جواب نہیں دیا۔

کمرشل بینکوں سے اربوں روپے کی سرکاری رقوم مرکزی بینک کو منتقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے، تاہم بہت سے اداروں کو اس پر تحفظات بھی ہیں۔ اس سرکلر کے تحت اب کچھ ضروری فنڈز بھی مرکزی بینک کا حصہ بن جائیں گے، جس کی ٹرانزیکشن براستہ خزانہ ڈویژن ہوگی۔ یہ بہت مشکل ہے، ہوسکتا ہے کہ حکومت سے استثنیٰ لے لیا جائے، کیونکہ بعض فنڈز کی ٹرانزیکشن اعلانیہ نہیں ہوسکتی، اس ضمن میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں، جن کا جواب جاننے کی کوشش کی ہے۔

سب سے پہلا سوال کہ حکومت کی نئی مانیٹری پالیسی کیا ہے؟ اسٹیٹ بینک نے وزارتِ خزانہ کے ایک فیصلے کی روشنی میں یہ قدم اٹھایا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق اس نئی پالیسی کے تحت وفاقی اداروں کے بعد تمام صوبائی محکموں کو بھی اپنے اکاؤنٹس اسٹیٹ بینک منتقل کرنے کا پابند کیا جائے گا۔ فنانس ڈویژن نے اس حوالے سے ضابطۂ کار بھی جاری کیا ہے جو سنگل ٹریژری رول 2020 کے تحت ہے۔ گزشتہ برس بجٹ کے وقت یہ بات سامنے آئی تھی کہ سرکاری محکمے عوام کے لیے استعمال ہونے والی کثیر رقم کمرشل بینکوں میں جمع کیے ہوئے ہیں جس کو بنیادی طور پر ایک مرکزی اکاؤنٹ میں ہونا چاہیے۔

دوسرا سوال کہ مرکزی اکاؤنٹ کام کیسے کرے گا؟ اسٹیٹ بینک کے مطابق سرکاری محکمے اپنی رقم کے حصول کے لیے وزارتِ خزانہ کے سیکریٹری ڈائریکٹ ڈیبٹ سے رجوع کریں گے، جن کی ایڈوائس اور دو مجاز افسران کے دستخطوں والا لیٹر اسٹیٹ بینک میں جمع کرواکر رقم نکلوا لی جائے گی۔ وزارتِ خزانہ اسٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر اس امر کو یقینی بنائے گی کہ اس سارے عمل میں کوئی تاخیر نہ ہو۔

اب تیسرا سوال کہ اسٹیٹ بینک کی تمام سرکاری کھاتوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی وجہ کیا ہے؟ بتایا جارہا ہے کہ یہ حکومت کی معاشی حکمت عملی ہے، اور اس کے پیچھے وجہ منافع نہیں بلکہ حکومتی رقوم کی مینجمنٹ کو بہتر کرنا، پیسے کے بہاؤ کو بہتر بنانا اور اس سارے عمل کو شفاف رکھنا مقصد ہوسکتا ہے۔ اسٹیٹ بینک حکام کے مطابق سنگل ٹریژری اکاؤنٹ کا بنیادی مقصد رقم کو باآسانی اور بروقت استعمال کرنا ہے۔ مالی آپریشن کو یقینی بنانے، پرسنل لیجر اکاؤنٹ، اسپیل ڈرائنگ اکاؤنٹس اور ریوالونگ فنڈ اکاؤنٹس کو بند کردیا جائے گا۔ سنگل ٹریژری اکاؤنٹ کا مقصد منافع نہیں بلکہ اس کی معاشی وجوہات ہیں۔ اس اقدام سے مرکزی حکومتی بینک اور ملکی معیشت کو خاطر خواہ فائدہ ہوسکتا ہے۔ پہلا یہ کہ سرکاری پیسے کو ٹریک کرنے میں آسانی ہوگی اور اس میں کوئی قابلِ ذکر کمی یا بیشی حکومتی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہے گی، وہ تمام سرکاری محکمے جن کے کمرشل بینکوں میں خفیہ اکاؤنٹس ہیں، انہیں اب وہ پیسہ سرکاری بینک میں جمع کروانا پڑے گا۔ یہ پالیسی سرکاری اداروں میں پیسے کے غبن اور کرپشن کی روک تھام کے لیے ہے۔ملک کے کمرشل بینکوں میں اگست 2020ء میں صرف وفاقی محکموں کے 1400 ارب روپے موجود تھے، جو بینکنگ ڈپازٹ کا 9 فیصد بنتا ہے، جبکہ صوبائی حکومتوں کے محکموں کی رقوم اس کے علاوہ ہیں۔

چوتھا بڑا سوال یہ کہ اس کا کمرشل بینکوں پر کیا اثر ہوگا؟ اصول یہ ہے کہ حکومت ایسے ہی اپنے پیسے نہیں دے دیتی، بلکہ بولی (bidding) کے عمل سے مختلف کمرشل بینکوں کو یہ پیسے دیے جاتے ہیں۔ بینک کے پاس سرکاری محکموں کے جو پیسے پڑے ہیں یہ نارمل ڈپازٹ ہیں، اور چونکہ یہ مختلف بینکوں میں منقسم ہیں، اس لیے ہر ایک کے حصے میں تھوڑا شیئر ہی آتا ہے۔ بینک کے پاس جو کُل ڈپازٹ ہوتا ہے، اُس میں حکومتی حصہ زیادہ بڑا نہیں ہوتا بلکہ 10، 20 یا 50 ارب روپے کسی کے پاس موجود بھی ہیں تو یہ کُل ڈپازٹ کی بہت کم شرح ہے۔ اس رقم کے نکل جانے سے بینک کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی ٹرانزیکشن کی موومنٹ ہوئی ہے، کسی بھی بینک کو اس سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوگا اور نہ ہی فرق پڑے گا۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں پرائیویٹ/ کمرشل بینکنگ کا شعبہ ملک میں ایک وسیع کاروبار کے طور پر ابھرا ہے، جو سالانہ اندرون اور بیرون ملک اربوں روپے کی گردش اور اس کے نتیجے میں ملکی معیشت کو بہت فائدہ پہنچاتا ہے۔ اس ضمن میں کمرشل بینک ایک بڑے فریق ہیں جن کی ملک گیر برانچوں میں سرکاری محکموں کے اربوں روپے جمع ہیں، اور اس پیسے کی مدد سے وسیع پیمانے پر کاروبار ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں سرکاری پیسہ بینکوں سے نکال لینے کی وجہ سے پرائیویٹ بینکنگ کو نہ صرف ناقابلِِ تلافی نقصان پہنچے گا بلکہ خود حکومت بھی اُس فائدے سے محروم ہوجائے گی جو یہ بینک ٹیکس کی مد میں سرکاری خزانے میں جمع کراتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت پر بھی اس کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ پرائیویٹ بینک اس پالیسی کے نتیجے میں پہنچنے والے نقصان کی صورت میں لامحالہ ڈاؤن سائزنگ کی طرف جائیں گے، اور نتیجتاً ملک میں ہزاروں بینک ملازمین بے روزگار ہوجائیں گے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ سرکاری محکموں کو اپنی رقوم کمرشل بینکوں سے مرکزی بینک منتقل کرنے سے کیا فرق پڑے گا؟ کچھ چھوٹے کمرشل بینک بھی ہیں جن میں اگر حکومتی محکموں کے پیسے ہوں گے اور اگر بینک فراڈ کرے یا دیوالیہ ہوجائے تو یہ (باقی صفحہ 41پر)

رقم ڈوبنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ سرکاری محکموں کے پیسے مرکزی بینک میں ہونے سے فراڈ نہیں ہوسکے گا۔ مختلف سرکاری محکمے جن میں این ایچ اے، این ڈی ایم اے، او جی ڈی سی ایل، یا سوئی گیس کمپنیاں ہیں یہ اسٹاک مارکیٹنگ میں سرمایہ کاری کرلیتی ہیں یا اکاؤنٹ فکس کرواکے ذاتی منافع کماتی ہیں۔ اس سے حکومت کی اصل رقم بھی موجود رہتی ہے اور متعلقہ شخصیات منافع بھی کما لیتی ہیں۔ لیکن نئے اقدام سے یہ کام بند ہوجائے گا۔ کچھ کمرشل بینک حکومت کے ساتھ پرائیویسی پالیسی کی وجہ سے ڈیٹا شیئر نہیں کرتے، لیکن اب حکومت کی ان معاملات پر براہِ راست نظر ہوگی۔ نجی بینک آڈٹ نہیں کرواتے جس کی وجہ سے سرکاری محکموں کے ان نجی بینکوں میں پیسے کا بھی آڈٹ نہیں ہوتا۔ لیکن اب تمام فنڈز اسٹیٹ بینک کے ایک اکاؤنٹ میں ہونے کی وجہ سے باآسانی آڈٹ ہوسکے گا۔

ایف بی آر کے چھٹے چیئرمین

حکومت نے پونے تین سال میں 6 چیئرمین ایف بی آر تعینات کیے ہیں۔ جس ڈپارٹمنٹ کے 32 مہینوں میں چھ چیئرمین تعینات ہوں گے وہاں اوسطاً ایک چیئرمین کو کام کرنے کے لیے ساڑھے پانچ ماہ ملے ہوں گے۔ اتنی دیر تو کام اور ذمہ داریاں سمجھنے میں لگ جاتی ہے۔ وہ کب پلاننگ کرے گا، کب انھیں لاگو کرے گا اور کب نتائج دے گا؟ اوسطاً ہر پانچ ماہ بعد ایف بھی آر کی پوری ٹیم میں اکھاڑ پچھاڑ کی گئی، چھٹے چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد ہیں۔ سابق چیئرمین جاوید غنی سو دن گزار کر چلے گئے۔ عاصم احمدکے ذمے آئی ایم ایف کا ٹیکس ٹارگٹ پورا کرنا ہے۔ عاصم احمد کا تعلق ان لینڈ ریونیو ڈپارٹمنٹ سے ہے۔ ممبر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اکیسویں گریڈ کے آفیسر ہیں۔ آئی آر ایس ڈپارٹمنٹ میں سینیارٹی کے اعتبار سے پندرہویں نمبر پر آتے ہیں۔ بہت سے 22 گریڈ کے سینئر آفیسرز کو چھوڑ کر انھیں منتخب کر کے اوپر لایا گیا ہے۔ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے ریونیو ڈاکٹر وقار مسعود خان نے ان کا نام تجویز کیا تھا۔

(This article was first published in Friday Special)