کسی منافق اور مغربی ایجنٹ کو یہ سعادت عطا ہو! ناممکن

705

 

 

اہل عرب سخت جنگجو لوگ تھے۔ ذرا ذرا سی بات پر تلواریں نیاموں سے باہر آجاتی تھیں۔ جنگ ان کی فطرت تھی۔ قبائلی عزت، شان اور مفاد کے لیے جان لینا اور جان دینا ان کے لیے معمولی بات تھی۔ خانہ کعبہ ان کی جائے عبادت، سعادت، حرمت کا مقام اور اسباب زندگی کی بہم رسانی کا بڑا ذریعہ تھا مگر جب ابرھا نے کعبہ پر حملہ کیا تو حیرت انگیز طور پر ان کی یہ جنگجو یانہ صلاحیت اور فطرت غائب ہوگئی۔ انہیں سانپ سونگھ گیا۔ وہ گھروں میں مقید ہوکررہ گئے۔ گھوڑے دوڑانے اور پانی پلانے پر لڑنے جھگڑنے والے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے۔ اس کا جواز دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ ’’اللہ نے ان سے توفیق سلب کرلی۔ کعبہ کا دفاع عظیم شرف ہے اور اللہ نے یہ شرف کسی مشرک کو نہیں دیا‘‘۔
بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے دفاع اور بازیابی کے حوالے سے بھی یہی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک ہیں، لیکن سب غیرت ایمانی سے محروم۔ ہر طرف سکوت اور سناٹا۔ کیوں۔ عین ممکن ہے اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے ان سے بھی توفیق سلب کرلی ہو کیونکہ ان تمام ممالک کی قیادت منافق اور یہود ونصاریٰ کی دوست ہے۔ سب مغرب کے ایجنٹ، یہود ونصاریٰ کی فکر اور تمدن میں رنگے ہوئے۔ ان کے مفادات کے محافظ۔ بیت المقدس جل رہا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے بادشاہ اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں یا اسرائیل کے، سب کو معلوم ہے۔ او آئی سی کیوں خاموش ہے؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ وہ او آئی سی جسے عالم اسلام کی نمائندہ تنظیم باور کرانے پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ جس کے مقابل کوئی تنظیم ڈیزائن کرنا تو ایک طرف اس خیال ہی سے سعودی متعلقہ ملک سے روابط کشیدہ کرلیتے ہیں۔ مصر کا فرعون، اخوان کے معاملے میں حددرجہ حساس، بڑے سے بڑے عالم کو پھانسی پر لٹکانے میں ذرا تامل نہیں۔ مصر کے جمہوریت پسندوں، اسلام پسندوں اور اصول پرست قوتوں سے لڑنے میں انتہائی خونخوار لیکن اسرائیل کے معاملے میں ایک مردہ بلکہ مردے سے بھی بدتر۔ ایرانی قیادت جن کی شناخت ہی مرگ بر امریکا ہے جن کا اصرار ہے وہ اسرائیل کے سب سے بڑے دشمن ہیں، ان کی القدس فورس کہاں پائی جاتی ہے، وہ کن صحرائوں میں گھوڑے دوڑا رہی ہے۔ حالانکہ چند روز پہلے ہی ایرانی قیادت نے یوم القدس منایا ہے۔ سعودی عرب، شام، عراق اور یمن کے حوثی قبائل کی عسکری امداد کرنے، مکہ تک مار کرنے والے میزائل مہیا کرنے میں ایران کی پیش قدمیوں کا کیا کہنے لیکن القدس کی حفاظت کے لیے ایک بلٹ، ایک میزائل اس کے عزائم میں شامل نہیں۔ شام اور عراق میں ایران کی کتنی ہی پراکسیز کام کررہی ہیں، حوثی سعودی عرب پر ایرانی ڈرونز اور میزائل فائر کرسکتے ہیں لیکن اسرائیل کی طرف ایک پٹاخہ بھی چھوڑنا! نا ممکن۔ حزب اللہ کا بڑا شہرہ تھا۔ وہ کس غار میں پڑی سورہی ہے۔ ترکی کے اردوان جو حلق کے پورے زور سے اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجانے، جذباتی بیانات دینے میں بہت متحرک ہیں ان کا کوئی ایک ایکشن بتا دیجیے جس سے اسرائیل کو نقصان اور اہل فلسطین کو فائدہ پہنچا ہو۔ رہی عالم اسلام کی واحد ایٹمی پاور تو یہاں بھی خاموشی یہاں بھی سکوت۔ مسلمانوں کے جان ومال کے مقابل انہیں ڈالر اور ریال عزیز ہیں، اسرائیل کے لیے کوئی مسئلہ پیدا کرنے، اسے چیلنج کرنے سے جن کی فراہمی میں تعطل پیدا ہوسکتا ہے۔ پھر ملک کیسے چلے گا۔ وزیراعظم پہلے ہی فرما چکے ہیں کہ اگر سعودی عرب اور متحدہ امارات مدد کو نہ آتے تو پاکستان ڈیفالٹ ہو چکا تھا۔ سعودی عرب اور امارات دونوں ہی اسرائیل کے دوست ہیں اور دوست کا دوست بھی دوست ہی ہوتا ہے۔
مسلمان وہ یتیم اور یسیر، بن باپ اور بن ماں کے، جن کا کوئی والی وارث نہیں۔ جس کا جو دل چاہے ان کے ساتھ سلوک کرے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اپنے اسفل مفاد کے لیے جوچا ہے مسلمانوںکو ذبح کردے، اس خون کی کوئی قیمت نہیں،کوئی قصاص نہیں، کوئی بدلہ نہیں۔ نریندر مودی کو مسائل کا سامنا ہو، الیکشن جیتنے میں دشواری ہو، کامیابی کی آسان سی راہ ہے کہ پورے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف محاذگرم کردو، مسلمانوں کی بستیوں کو جلادو اور مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کردو، روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کی سرحدوں پر گولے پھینکو، پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ مہم تیزکردو۔ میانمر کی جمہوریت کی دیوی داخلی مسائل کا شکار ہوتو مسلمان آبادی کی زندگی جہنم بنانا اس حدتک کہ میانمر کے مسلمان دنیا کی مظلوم ترین اقلیت بن جائیں۔ میانمر کی سرزمین سے دستبردار ہوکر، اپنے گھربار چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں دربدر پھریں، قتل کیے جائیں، زندہ آگ میں جلائے جائیں، حکومت کو درپیش تمام مسائل حل۔ کسی کو تکلیف نہیں۔ سب گوارا، سب پزیرا کیو نکہ معاملہ مسلمانوں کا ہے۔ نیوورلڈ آڈر قائم کرنا ہوتو پورے مشرق وسطیٰ کو درہم برہم کردو، سیاسی عدم استحکام سے دوچار کرکے تباہی اور بربادی کے راستے پر ڈال دو۔ یہ مغربی دنیا کے خوابوں میں رنگ بھرنے کی بہت معمولی قیمت ہے۔ عراق جیسے خوشحال ملک کو Weapons of Mass Destructionکے جھوٹ کا سہارا لے کر آتش کدہ بنادو، جدید مہلک اسلحے کی جانچ اور استعمال کا میدان بنادو، پابندیوں سے پانچ لاکھ سے زائد بچوں کو موت کے گھاٹ اُتاردو۔ سب قابل قبول ہے کیونکہ مسلمان زد میں آرہے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین پر بغیر کسی ثبوت کے چالیس سے زائد ممالک کے ہمراہ دھاوا بول دینا۔ دس لاکھ سے زائد مسلمانوں کو معذور کرکے موت کے منہ میں بھیج دینا، پاکستان کے حکمرانوں کو ڈرا دھمکا کر ان پر ایک بے چہرہ جنگ مسلط کردینا، بم دھماکوں، ڈرونز حملوں اور دہشت گردی سے اس کی معیشت برباد کردینا، ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو قبر میں اتاردینا لیکن پھر بھی ڈومور، ڈومورکا سلسلہ جاری۔ شام کو عالمی قوتوں کا اکھاڑہ بنادیا گیا۔ امریکا روس برطانیہ ایران سب اپنی تباہ کن قوت کے ساتھ شام کے مسلمانوں پر اس انداز سے حملہ آور کہ سی این این کا نمائندہ بھی چیخ اٹھا ’’میں نے ایسی تباہی ایسی بربادی نہیں دیکھی‘‘۔ لیکن سب لازمی سب ضروری۔ مغرب کے ایجنٹ بشار الاسد کا اقتدار برقرار رہے۔ اس مہینے کے آغاز میں نئی حکومت کی تشکیل دینے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے، دوسال میں چوتھے غیر متناسب عام انتخابات کروانے کے باوجود اتحادی حکومت قائم کرنے میں ناکامی اور صدر ریون ریولن کے کسی دوسرے سیاسی رہنما سے رابطہ کرنے اور بدعنوانی، رشوت، فراڈ اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے جیسے مقدمات کا اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یا ہو کو سامنا ہے، ان سب مسائل اور مشکلات سے بچنے کے لیے اس کے پاس بھی یہی آزمودہ طریقہ ہے کہ فلسطین کو مسلمانوں کے خون کا تالاب بنادو، غزہ پر خوفناک بمباری شروع کردو، بیت المقدس کے تقدس کو پا مال کردو۔ بس پھر سب کچھ ازخود درست، سب معاملات استوار۔ اسرائیل کے عوام، پارلیمنٹ اور پورا مغرب نیتن یا ہو کے شانے سے شانہ ملاکر کھڑا ہوگیا۔ گارجین کے مطابق ’’تشدد کو ہوا دے کر نیتن یا ہو اپنی حکومت کو طول دینے کے ساتھ ساتھ گرفتاری سے بھی بچنے میں کامیاب ہوگیا‘‘۔ بیت المقدس نے دنیا کو بیچ چوراہے پر ننگا کردیا ہے۔
ستاون مسلم ممالک کی افواج آج مسلمانوں پر کیے جانے والے ظلم کا بدلہ لینے کے تصور سے ناآشنا اور غیر متحرک ہیں۔ سات لاکھ بھارتی افواج مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے جان مال اور حرمت کو پامال کررہی ہے کوئی ہے جو پوچھے اہل کشمیر پر کیا بیت رہی ہے؟ بیت المقدس اور مسجد ِ اقصیٰ صرف اہل فلسطین کا معاملہ نہیں ہے، ہر مسلم ملک کا داخلی معاملہ ہے لیکن کسی مسلم ملک کا سربراہ اور فوجی قیادت فلسطین کے مسلمانوں کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں۔ اہل فلسطین کو بھی کسی سے امید نہیں۔ وہ کسی کو نہیں پکارتے، کوئی نعرہ بلند نہیں کرتے۔ سوائے اللہ اکبر کے۔ ہر بربادی، اسرائیل کے ہر حملے کے جواب میں وہ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی کبریائی بلند کرتے ہیں۔ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو بیان کرتے ہیں۔ میرا اللہ اپنے بندوں کو مایوس نہیں کرتا۔ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ جلد ہی اہل فلسطین کی نصرت فرمائیں گے۔ ساتھ ہی میرا رب بہت غیرت مند بھی ہے۔ بیت المقدس کا دفاع اور بازیابی عظیم سعادت ہے اور یہ سعادت اللہ سبحانہٗ تعالیٰ عالم اسلام کے کسی منافق حکمران اور مغرب کے ایجنٹ کو عطا کرنے والے نہیں۔ یہ سعادت صرف سلطان صلاح الدین ایوبی کی مقلد، غیرت ایمانی سے سرشار قیادت کا نصیب ہے۔