فلسطینیوں کا قتل عام۔!دنیا خاموش تماشائی

473

سرینگر کشمیر

جہاں اسلامی دنیا عید کی خوشیوں میں مگن تھی وہیں دوسری جانب دنیا کا ایک مظلوم ترین خطہ فلسطین میں لوگ اسرائیلی حملے میں شہید ہوئے بچوں، بزرگوں اور خواتین کے کفن اور دفن کے انتظام میں مصروف تھے۔ ہم آج اپنے گھروں میں اس وبائی بیماری کے باوجود اپنے بچوں اور والدین کے ساتھ عید منا رہے ہیں اور فلسطینی اپنے بچوں کی جدائی کے غم میں ماتم کناں ہیں اس ماہ رمضان اور عید کے ان متبرک ایام میں بھی اس صہیونی ریاست کی قابض فوج نے فلسطینیوں کو نہیں بخشا بلکہ ظلم و درندگی کے عالمی ریکارڈ اپنے کھاتے میں درج کر دیے ہیں۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ گزشتہ ہفتے یعنی 10؍ مئی جمعتہ الوداع کے دن مغرب کی ناجائز ریاست اسرائیل نے قبلہ اول مسجد اقصیٰ پر وحشیانہ طریقے سے حملہ کر دیا۔ سماجی رابطہ کی ویب گاہوں پہ اسرائیلی فوجوں کی مسجد اقصیٰ میں نمازیوں کو براہ راست نشانہ بنانے کے مناظر سے دل دہل جاتا ہے۔ درجنوں مظاہرین کو زخمی کرنے کے بعد اسرائیلی فوجی ملت کے سرفروشوں کو مسجد سے نکالنے میں نامراد ہو کر واپس لوٹ گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ قابض فوجیوں اور فلسطینیوںکے درمیان ہونے والی جھڑپیں اس تشدد کا تسلسل ہیں جو مشرقی بیت المقدس کے علاقے ’’شیخ جراح‘‘ میں کئی دن سے جاری ہے۔ ’’شیخ جراح‘‘ میں آباد فلسطینی خاندانوں کو یہودی آبادکاروں کی جانب سے جبری بے دخلی کا سامنا ہے اور اسی وجہ سے علاقے میں حالات کشیدہ ہیں۔ اسرائیل کی عدالت عظمیٰ شیخ جراح میں ایک یہودی آباد کار تنظیم کے حق میں اب مسلمانوں کی بے دخلی کے حکم کے خلاف 70؍سے زیادہ افراد کی اپیل پر پیر کے روز سماعت کرنے والی تھی۔ لیکن اس تازہ جھڑپ کی وجہ سے یہ سماعت ملتوی کر دی گئی۔ اخباری خبروں کے مطابق اس سماعت کے ایک دن پہلے ہی فلسطینی نوجوان پاس ہی میں ایک عمارت میں اینٹوں اور پتھروں سے اس فیصلے کے خلاف مزاحمت کے لیے پناہ لیے ہوئے تھے۔ جس کے بعد یہ سماعت بھی اسرائیلی عدالت کو ملتوی کرنی پڑی۔ اسی کو بنیاد بنا کر اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے اندر گُھس کے اسٹین گرنیڈ اور آنسو گیس کے گولے داغ کر درجنوں فلسطینیوں کو بُری طرح سے زخمی کر دیا، بلکہ مسجد اقصیٰ میں آتشزدگی، نماز پڑھ رہے مسلمانوں کو قابض فوجیوں نے حصار میں لے کر فائرنگ شروع کر دی اور ہزاروں کو زخمی کر دیا۔ لیکن اس درندگی کے باوجود بھی اسرائیلی فوج مسجد اقصیٰ کو احتجاجی نمازیوں کو خالی کرانے میں ناکام ہوگئی اس ناکامی کے بعد اسرائیلی فوج نے صرف ایک دن میں 50؍سے زائد افراد کو گرفتار کیا جس کی تعداد اب ہزاروں میں ہو گئی ہے۔ اس وحشت ناک حملے کے بعد جب حماس نے قابض فوجیوں پر راکٹ سے حملے کر کے اُن کو ظلم سے روکنے کی کوشش کی اس وقت اسرائیلی پارلیمنٹ میں ایک اجلاس چل رہا تھا تو وہ بھاگے بھاگے زیر زمین کمپاونڈ میں چھپ گئے، حماس کے مطابق اس میں کوئی نقصان اسرائیل کا نہیں ہوا اس حملہ کا مقصد صرف اسرائیلی فوج کو مسجد اقصیٰ پر درندگی سے روکنا تھا۔ اس کے جواب میں اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں پر بمباری شروع کردی جس کے سبب ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق 100؍کے قریب فراد شہید ہوگئے ان شہدا میں بچوں کے ساتھ ساتھ القاسم کمانڈر بھی شامل ہیں۔ اس وحشت ناک اور درندگی سے بھر پور حملے کے دوران مسجد اقصیٰ کے اسپیکر سے ایک نوجوان نے روتے ہوئے پکارا کہ ’’ہماری مساجد کو مسمار کیا جا رہا ہے، ہماری عزتوں کو داغدار کیا جارہا ہے، صلاح الدین کہاں ہے؟ صلاح الدین کہاں ہے؟ یا اللہ گواہ رہنا ان قابضین کو ہماری لاشوں کے اوپر سے گُزر کر مسجد میں جانا ہوگا۔ یا اللہ یہ اُن کی ہے یا ہماری؟ اقصیٰ ہماری ہے یہ اُن کی نہیں ہو سکتی‘‘۔ یعنی اُس دن سے لیکر تادم تحریر اسرائیل نے فلسطینیوں پر بم اور بارود کی جیسے برسات کر دی ہو جس کے سبب وہاں کی مساجد اور فلک بوس عمارتیں زمین بوس ہو رہی ہیں وہیں ہر دن ہزاروں زخمی اور درجنوں فلسطینی شہادت کا جام پی رہے ہیں۔
کہتے ہیں کہ یہ حملہ ٹھیک 1969ء کے طرز پر ہوا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جس وقت مسجد اقصیٰ کے اندر آگ لگائی گئی تھی۔ لیکن اس حملے کے بعد تمام مسلم ممالک اکھٹے ہوگئے تھے۔ اُس وقت ایک یہودی جس کا تعلق آسٹریلیا سے تھا نے مسجد کے اندر آگ لگا دی تھی وہ آگ تین گھنٹے تک لگی رہی جس کے سبب قبلے کی طرف کا حصہ خاکستر ہوگیا تھا اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا جو منبر تھا جو بیت المقدس فتح کرنے کے بعد یہاں رکھا تھا وہ بھی اس کے اندر جل گیا تھا۔ اس منبر کی حیثیت اس لیے اہم تھی کہ صلاح الدین نے بیت المقدس کی فتح کے لیے 16؍ جنگیں لڑیں تھیں۔ آج بھی اُسی طرح کی خبریں مسجد اقصیٰ سے آ رہی ہیں۔ یہ ساری صورتحال جو آج امت مسلمہ کے ساتھ پیش آ رہی ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ازل سے ہی یہود و ہنود کا مقصد ہی یہ رہا ہے کہ ملت اسلامہ کو تہہ تیغ کیا جائے ان کے مقدس مقامات کی بے حُرمتی کی جائے، ان کی بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں کو تار تار کیا جائے، ان کے بُزرگوں اور جوانوں کو موت کے گھاٹ اُتار کر دنیا میں جشن منایا جائے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ دنیا کے 57؍اسلامی ممالک اس سارے ظلم و جبر کے خلاف عملی اقدام کرنے میں بے بس و لاچار نظر آ رہے ہیں۔ مسلمانوں کی پونے دو ارب کی آبادی اس سرزمین پہ مغرب کی ناجائز اولاد کے خلاف محض بیانات کے علاوہ کوئی عملی قدم اُٹھانے کے قاصر ہے۔ ایک ارب اسی کروڑ مسلمانوں کی آبادی کے ممالک اس وقت محض 90؍لاکھ بزدل قاتلوں کے جبڑوں میں پھنس چُکی ہے لیکن داد دینی چاہے فلیسطینی عوام کی جو ان ظالموں کے خلاف جذبہ جہاد سے سر شار مزاحمت کر رہی ہے ایک خاتون نے الجزیرہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے گھر کے دو افراد شہید ہو گئے ہیں لیکن مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے ہم اس قربانی کو معمولی مانتے ہیں۔
لیکن دنیا کے عظیم ترین وسائل وذرائع سے لیس، دنیا کو سب سے زیادہ تیل فراہم کرنے والے اسلامی ممالک، دنیا کی بہترین فوج رکھنے والے اسلامی ممالک اس وقت ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے مظلوم فلسطینیوں کے قتل عام کا نظارہ کر رہے ہیں۔ فلسطینی بچے اور بیٹیاں کٹ مر رہی رہی ہیں اور ملت اسلامیہ کے حکمران رقص و سرود کی محفلوں میں مست و مگن ہیں۔ ان کی غیرت ہی مرگئی ہے آج سارے مسلم رہنمائوں کو ایک پلیٹ فارم پہ سارے اپنے ذاتی اختلافات کو بھلا کے اس درندہ صفت قاتل اسرائیل کے خلاف صف آرا ہونا چاہیے۔ اس قابض پر ایسی کارروائی ہونی چاہیے تھی کہ دوبارہ وہ اس طرح کی بزدلانہ حرکت کا سوچیں بھی نہیں۔ لیکن افسوس سب اپنی اپنی عیش پرستی کی زندگی میں گُم ہو گئے ہیں اور دنیا میں ملت اسلامیہ کے مظلوم تہیہ تیغ کیے جا رہے ہیں۔ دنیائے مسلم کے ان ہی مفاد پرست حکمرانوں کی خاموشی مسلمانوں کے قتل عام اور ہمارے مقدس مقامات کی بے حُرمتی کی وجہ بنتی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں ساری ملت اسلامیہ اس کی سزا بھگت رہی ہے۔ ایک حدیث کے مطابق ’’جو بھی مسلمان آدمی کسی مسلمان آدمی کو ایسے مقام پر بے یار و مدد گار چھوڑتا ہے جہاں اُس کی حرمت پامال اور اُس کی آبرو کو نقصان کیا جاتا ہو اللہ اسے اس مقام پر بے یار و مدد گار چھوڑے گا جہاں وہ چاہ رہا ہو کہ اس کی نصرت ہو اور جو بھی مسلمان آدمی کسی مسلمان کی اس مقام پر نصرت کرتا ہے جہاں اس کی آبرو کا نقصان کیا جاتا اور اُس کی حُرمت پامال کی جاتی ہو، اللہ ضرور اس کی نصرت اس مقام فرمائے گا جہاں وہ چاہ رہا ہو کہ اس کی نصرت ہو۔‘‘(سنن ابی داوئود)
اسرائیل کے اس بزدلانہ حملے کے بعد ساری دنیا کے مسلم حکمران محض ایک ٹویٹ اور مذمتی بیان کے علاوہ کوئی لائحہ عمل دینے میں ناکام رہے ہیں۔ مسلمانوں کو ایک اللہ کے بھروسے ان ظالموں کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو جانا چاہیے۔ جس طرح سے عرب ممالک نے 1969ء میں اسرائیل کا مسجد اقصیٰ پر حملے کے بعد تیل بند کر دیا تھا بالکل اُسی طرح سے آج بھی عربوں کو ان کا تیل بند کر دینا چاہیے تب جا کے ان ظالموں کے ہوش ٹھکانے آسکتے ہیں۔ یہ جو عالمی ادارے بنے ہوئے ہیں یہ اصل میں کفن چوروں کے گروہ ہیں۔ او آئی سی نے بھی انتہائی مایوس کر دیا ہے۔ مسلمانوں کی یہ تنظیم ایسا لگ رہا ہے جیسے یو این او اور امریکا کی کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے
اسی طرح سے او آئی سی عربوں کی غلامی میں ہی رہنا چاہتی ہے۔ عربوں کے مفاد سے باہر یہ تنظیم کچھ سوچنا بھی نہیں چاہتی۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر آج 57؍ اسلامی ممالک اسرائیل کو یک جا ہوکر ناجائز ریاست تسلیم کر کے ان کے ساتھ سارے روابطہ منقطع کر کے اس کے خلاف ایک آخری کارروائی کرکے ملت کے اس مظلوم ترین خطہ کو پنجہ یہود سے آزاد کروا دیتی۔ لیکن ابھی تک ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آرہا ہے بلکہ ایسا لگ رہا ہے یہ سارے ان درد انگیز حالات کا نظارہ کر کے راحت محسوس کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جلد سے جلد او آئی سی کو ایک اجلاس طلب کر کے ان کے خلاف عملی طور میدان میں آ جانا چاہیے اس وقت مسلم دنیا کے چار ممالک ہیں جو اس میں پہل لے کے اس دہشت گرد ریاست کو دہشت گردی اور ظلم سے باز رکھنے میں کامیاب ہو سکتی ہے وہ ممالک، ایران، سعودی عرب، ترکی اور پاکستان ہیں۔ اگر یہ ممالک اپنے سارے اختلاف بھلا کے مخلصانہ طریقے سے اس اہم وقت پر سامنے آتے ہیں تو میں یہ بات وثوق سے کہتا ہوں اسرائیل اپنی ان دہشت گردانہ کارروائیوں سے باز آ سکتا ہے نہیں تو وہ وقت دور نہیں جب ہمیں فلسطین کی عوام کو برما کے مہاجرین کی طرح دنیا میں در در کی ٹھوکریں کھاتے دیکھنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فلسطین کے مظلوموں کی مدد فرمائے آمین۔