قیامت جوہم پہ گزر گئی

306

معزز قارئین کرام ایک طویل وقفے کے بعد زیر نظر کالم کے ذریعے نہ صرف آپ سے ٹوٹا ہو رابطہ ایک بار پھر جوڑنے کی کوشش کر رہا ہوں بلکہ آپ سے رجوع کرنے اور اس ٹوٹے ہوئے تعلق کی بحالی پر طبیعت کی آمدگی کا سہرا بھی آپ سمیت ان دیگر بہی خواہوں اور ہمدردوں کے سر ہے جو مجھ ناچیز سے مسلسل رابطہ رکھ کر اگر ایک جانب میرا دکھ درد بانٹنے میں معاون بنے تو دوسری طرف یہ ان ہی دوستوں کی محبت اور شفقت کا ثمر ہے کہ آج تقریباً دو ماہ کے صبر آزما تعطل کے بعد یہ ٹوٹے پھوٹے اور منتشر الفاظ اس کالم کے توسط سے آ پ کی خدمت میں پیش کرنے کے قابل ہوا ہوں۔ دراصل یہ گزشتہ 26فروری جمعتہ المبارک کا بابرکت دن تھا جب میں حسب معمول ایک مصروف ترین دن گزار کر تھکا ہارا گھر لوٹا تھا۔
رات کا کھانا معمول کے مطابق بچوں کے ساتھ مل کر کھایا۔ دستر خوان پر ہی بچوں سے ان کی مصروفیات مثلاً ہوم ورک، آمدہ امتحانات کی تیاری اور خاص کر نماز جمعتہ المبارک اور سورۃ الکہف کی تلاوت کے بارے میں استفسار کے بعد جب میں روٹین سے ہٹ کر اپنے بیڈ پر نیم دراز ہوا تو تھوڑی ہی دیر بعد میری سترہ سالہ بڑی بیٹی مشکات جو فرنٹیئر یوتھ اکیڈمی حیات آباد پشاور میں میٹرک کی طالبہ تھی میرے سر پر آن کھڑی ہوئی اور اپنے مخصوص انداز میں مجھے فوراً بستر سے نکل کر باہر صحن میں واک کا حکم دینے لگی۔ میں نے اس کی منت سماجت کرتے ہوئے یہ کہہ کر آج کی واک سے جان چھڑانے کی کوشش کی کہ بیٹا آج میں بہت تھکا ہوا ہوں اور کل چھٹی ہونے کے باوجود میں نے علی الصباح گھر سے بعض ضروری کاموں کے لیے نکلنا ہے اس لیے آج مجھے واک سے چھٹی دے دو، میں نے جان چھڑانے کے لیے اس سے یہاں تک کہا کہ کل چونکہ چھٹی ہے لہٰذا میں جلد واپس لوٹ کر دوپہر میں ایک ڈیڑھ گھنٹے آرام کے بعد رات کو ڈبل واک کر لوںگا لیکن ہر کسی خاص کر مجھ سے اپنی بات منوانے میں چونکہ اس کا ثانی نہیں تھا اس لیے بالآخر مجھے ہتھیار ڈال کر اس کے ساتھ واک کے لیے نکلنا پڑا، چونکہ میں یہ واک محض اس کی خواہش اور دبائو پر کر رہا تھا اس لیے ٹہلتے ہوئے میری رفتار وہ نہ تھی جو عموماً ہوتی تھی، ایک دو مواقع پر اس نے مجھے نہ صرف ٹوکا کہ ابو واک اس طرح تھوڑی کی جاتی ہے جس طرح آپ کر رہے ہیں بلکہ وہ باقاعدہ ہاتھ سے پکڑ کر مجھے جلدی جلدی قدم اٹھانے پر مجبور بھی کرتی رہی۔ ایک موقع پر جب اس کی والدہ نے کچن سے فراغت کے بعد واک میں ہمیں جوائن کیا تو اس نے میری حالت دیکھ کر مشکات سے کہا کہ بیٹی اس بیچارے پر رحم کرتے ہوئے آج کی واک سے اسے معافی دے دو لیکن وہ بھلا کب کسی کو خاطر میں لانے والی تھی اس نے تو چند دنوں سے مجھ پر شام کی واک لازمی کرنے کا حکم جاری کررکھا تھا جس پر وہ اپنی زندگی کی آخری رات تک قائم رہی۔
روزانہ واک سے فراغت کے بعد میں عموماً چائے کا ایک کپ پی کر اپنے کسی کام میں مصروف ہو جاتا تھا جبکہ وہ اپنے اسکول کے کام اور میڑک کے امتحانات کی تیاری میں جت جاتی تھی۔ اس رات چونکہ مجھے سونے کی جلدی تھی اس لیے میں نے چائے کا کپ مشکات کو دیتے ہوئے کہا کہ آج چونکہ تم نے مجھے واک سے جلدی چھٹی دے دی ہے اس لیے یہ کپ رشوت میں قبول کر لو اس ہنسی مذاق میں میں نیند کی آغوش میں چلا گیا اور وہ اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگئی۔ رات کے آخری پہر کروٹ بدلتے ہوئے جب تھوڑی دیر کے لیے میری آنکھ کھلی تومیں نے دیکھا کہ مشکات معمول کے مطابق کتابوں اور کاپیوں کے درمیان بیٹھ کر پڑھائی میں منہمک تھی۔ مشکات سے آنکھیں چار ہوتے ہی اگر ایک طرف آنکھوں کے اشارے سے اسے رات گئے تک پڑھائی میں مصروف ہونے پر شاباش دی تو دوسری جانب دل ہی دل میں اس بات کا ملول بھی محسوس ہوا کہ اس بیچاری پر امتحان کی تیاری کے لیے اتنا بوجھ ڈال رکھا ہے کہ ساری رات بھی جاگ کر پڑھائی کرتی ہے اور پھر صبح سویرے تیار ہوکر اسے اسکول بھی جانا پڑتا ہے۔
اسی ادھیڑبن میں آنکھ دوبارہ لگنے کے ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد ایک زوردار دھماکے سے میں اچل کر اٹھ بیٹھا، کیا دیکھتا ہوں کہ سارا کمرہ قیامت صغریٰ کا منظر پیش کررہا ہے جس کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، سامنے دیکھا تو مشکات اور میری اہلیہ کے دوپٹوں اور کپڑوں میں بھی آگ لگی ہوئی تھی، اسی اثناء مشکات چیخ و پکار کرتے ہوئے انتہائی حواس باختہ حالت میں کمرے سے باہر کی جانب لپکی، چندثانیے مبہوت رہنے کے بعد میں جوں ہی مشکات کے پیچھے کمرے سے باہر نکلا تو مجھے معاً خیال آیا کہ کمرے میں تو میرے دو دوسرے بچے بارہ سالہ سالار اور آٹھ سالہ عائشہ بھی موجود تھے لہٰذا میں جلتی ہوئی آگ میں کمرے میں دوبارہ داخل ہوا جہاں میں نے دیکھا کہ سالار تو باہر نکل چکا ہے البتہ عائشہ آنکھیں ملتی ہوئی کھڑی رو رہی تھی میں نے اسے گود میں اٹھا کر فوراً صحن میں پہنچایا۔ اس دوران جب میں نے مشکات کو آگ میں جلتے ہوئے دیکھ کر صحن کے ساتھ
ملحق باتھ روم سے بالٹی میں پانی بھر کر اس پر انڈیلا تو میں نے محسوس کیا کہ وہ بری طرح جھلس چکی ہے جس پر میں اپنے ہوش وحواس کھوبیٹھا تھا۔ اہل محلہ اور رشتہ داروں کی مدد سے پہلے خیبر ٹیچنگ اسپتال اور بعد ازاں برن سینٹر حیات آباد منتقلی اور یہاں طبی امداد کے دوران شاید مجھے آرام کا انجکشن لگا دیا گیا تھا لہٰذا جب میری آنکھ کھلی تو میں فیز فور حیات آباد میں واقع اپنے چچا شہریار آفریدی کے گھر بستر پر پڑا تھا جہاں نہ صرف میرے دونوں ہاتھ اور ایک ٹانگ پٹیوں میں بندے ہوئے تھے بلکہ ان سے درد کی شدید ٹیسیں بھی اٹھ رہی تھیں۔ چونکہ مشکات کی چیخ و پکار کا وہ آخری منظر جب میں نے اس پر پانی کی بالٹی انڈیلی تھی بار بار نگاہوں کے سامنے آکر مجھے مسلسل پریشان کر رہاتھا اس لیے میرے بار بارکے استفسار پر بتایا گیا کہ مجھے اور عائشہ کو تو ضروری مرہم پٹی کے بعد اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا ہے البتہ مشکات، میری اہلیہ اور سالار فی الحال اسپتال ہی میں زیر علاج ہیں جہاں نہ صرف ان کی مناسب دیکھ بھال ہورہی ہے بلکہ ان کی حالت بھی خطرے سے باہر ہے۔