طوفان کی اطلاع اور حکومتی پھرتیاں

586

موسمی تغیر کے ساتھ ساتھ بارش، طوفان اور تیز ہوائوں کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ ایک مرتبہ پھر کراچی سمیت پورے سندھ میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ عملے کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں۔ سینٹرل کنٹرول سیل قائم کر دیا گیا ہے، ایک خبر جاری ہوئی ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ نے بند نالے کھولنے کی ہدایت کر دی ہے۔ ماہی گیروں کو سمندر میں نہ جانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

لیکن اگر تھوڑا بہت بھی یادداشت پر زور دیا جائے تو سب کو یاد آجائے گا یہ سب ہدایات، اعلانات اور اقدامات تو گزشتہ سال بھی ہوئے تھے اور اس سے پیوستہ سال بھی لیکن کراچی دونوں سال ڈوبا تھا۔ شہریوں کے ساتھ ظلم پر ظلم ہو رہا ہے لیکن پوچھنے والا کوئی نہیں کیونکہ پوچھنے والے خود ہی یہ ظلم کر رہے ہیں۔

قوم کے ٹیکس کے پیسوں کو اس کے رکھوالے ہی لوٹ رہے ہیں۔ قوم کو دھوکا دینے والے اعلانات ہو رہے ہیں اور اس قدر ڈھٹائی ہے کہ خدا کی پناہ۔ طوفان کی آمد کی اطلاع ہے 18 مئی کی تاریخ دی گئی ہے اور وزیراعلیٰ نالوں کی صفائی کا حکم دے رہے ہیں۔ یہ وزیراعلیٰ کس دنیا میں رہتے ہیں اور ان کے اعلان کو سننے والے بھی کس دنیا میں ہیں کہ جو حکمران پورے 12 سال کے دوران ایک نالا بھی صاف نہ کرسکے۔ شہر کے بہتے گٹر بند نہ کر سکے۔ اندھیری سڑکوں کو روشن نہ کر سکے ان سے یہ توقع ہے کہ وہ 15 تاریخ کو اعلان کریں گے اور 18 سے قبل شہر کے سارے نالے صاف ہو جائیں گے۔ جھوٹے اعلانات کرنے والوں کو بھی شرم نہیں آتی کہ وہ ایسے اعلانات کرتے کیوں ہیںجب تک بلدیاتی مشینری حرکت میں آئے گی عملہ سڑکوں پر پہنچے گا اور نالوں کی صفائی شروع ہو گی اس وقت تک طوفان اور بارش تباہی پھیلا کر جا چکے ہوں گے۔ وزیراعلیٰ نے یا کمشنر نے ہورڈنگز اتارنے کا حکم جاری کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسے ہورڈنگز لگنے کی اجازت کون اور کیوں دیتا ہے جن سے انسانی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے اور جس چیز کو کنٹرول سیل قرار دیا گیا ہے اس قسم کے مذاق پہلے بھی ہوتے رہے ہیں سڑکوں پر جگہ جگہ دو میزیں آٹھ دس کرسیاں اور ایک ٹینٹ لگا کر اس پر کنٹرول روم اور ہیلپ سینٹر کے بینرز آویزاں کر دیے جاتے ہیں لیکن جب بارش کا پہلا چھینٹا پڑتا ہے یہ کنٹرول روم سنسان ہو جاتے ہیں۔ ہیلپ سینٹر کا عملہ خود ہیلپ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔

وزیراعلیٰ نے نالوں کی صفائی کا حکم دیا ہے اس کے لیے فنڈز مختص کیے گئے ہوں گے لیکن کوئی یہ معلوم کر سکتا ہے کہ نالوں کی صفائی اور رین ایمرجنسی کے لیے توگزشتہ سال بھی فنڈز جاری کیے گئے تھے ان فنڈز کا کیا بنا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران آفات اوروبائوں کے منتظر رہتے ہیں جوں ہی آفت آئی۔ وبا کا اعلان ہوا انہوں نے کمائی کا دھندا شروع کر دیا۔

گویا یہ حکمران نہیں بلائیں ہیں جو انسانوں کی لاشوں کو بھی نوچ کر کھا جاتی ہیں۔ جو کام مارچ اپریل میں کرنا تھااور گزشتہ سال کے تجزبے کی روشنی میں سارا سال کرنا تھا 2 دن میں کیسے ہو جائے گا۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی این ڈی ایم اے کس مرض کی دوا ہے۔ سارا سال وہ کیوں سوتے رہے انہوں نے سندھ حکومت اور کراچی کی انتظامیہ کو کیوں متوجہ نہیں کیا کہ نالوں کی جلد از جلد صفائی کی جائے تازہ اطلاعات کے مطابق طوفان بھارتی ریاستوں کے ساحلی علاقوں سے ٹکرا گیا ہے درجنوں ہلاکتیں ہو گئی ہیں بھارتی حکومت نے لاکھوں لوگوں کو منتقل کر دیا ہے۔

پیش گوئی ہے کہ طوفان کی شدت میں اضافہ ہو جائے گا سندھ میں کیا تیاریاں ہیں صرف اخبارات کو اشتہار دے کر ہنگامی رابطہ نمبر فعال کرنے کی اطلاع دی گئی۔ لیکن یہ سب ہی تو لیپا پوتی کہلاتا ہے۔ کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں حکومت کو معلوم ہی نہیں ہے کہ کہاں کہاں نالے بند ہیں۔شہر کے بڑے بڑے نالے بند پڑے ہیں۔ پٹیل پاڑے، صدر، برنس روڈ کے نالوں کا حال برا ہے۔

گلستان جوہر سے پہلوان گوٹھ تک جانے والا نالا تو ٹوٹا پھوٹا پڑا ہے۔ اس کی وجہ سے سڑک کا اتنا زیادہ کٹاؤ ہو گیا ہے کہ دوپہر میں رکشے اور موٹر سائیکلیں نالے میں گر رہی ہیں۔ یہ علاقہ 3 بلدیاتی اداروں کے درمیان تقسیم ہے۔ بلدیہ کراچی، کے ڈی اے اور کنٹونمنٹ بورڈ ٹیکس لینے کے لیے عوام پر تلوار تالے کھڑے رہتے ہیں لیکن اس نالے کی صفائی، مرمت وغیرہ کے بارے میں درجنوں شکایات ہونے کے باوجود کوئی ادارہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ شہر میں درجنوں نالے حفاظتی دیوار کے بغیر کھلے پڑے ہیں۔ بارش کی صورت میں گاڑیوں کا گرنا یقینی ہے۔ یہ سارے کام طوفان کی اطلاع کے انتظار میں نہیں رکنے چاہیے تھے۔

جناب مراد علیشاہ صاحب ہیلپ لائن کے اعلان اوراشتہارات سے کچھ نہیں ہوتا عملی اقدام کریں۔ شہریوں کے فنڈز ان کی فلاح پر خرچ کیے جائیں آنے والے 2 دن نہایت اہم ہیں۔ حکومت اب تو جاگے۔