آخری معرکے کی تیاری؟؟

704

آرمی چیف جنرل باجوہ اور وزیر ِ اعظم عمران خان کے سعودی عرب پہنچنے کے چند گھنٹوں بعد ہی اسرائیل نے فلسطینیوں پر عین مغرب کی نماز کے دوران مسجد ِ اقصیٰ میں نمازیوں اور فلسطینیوں کے گھروں پر حملہ کر دیا جس میں نصف درجن سے زائد افراد شہید اور تین درجن افراد شدید زخمی ہیں اور چار دن گزرنے کے باوجود فلسطینی اپنے ہی گھروں میں قید ہیں اور فلسطینی علاقوں میں مسلح یہودی گھوم رہے اور ہر جگہ فلسطینیوں کو گولی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس حملے نے پاکستان سمیت پورے عالم ِ اسلام کو یہ پیغام دیا ہے کہ اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ دنیا بھر کے اسلامی ممالک اور مسلمانوں نے اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے، ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اسرائیل، فلسطین اور دیگر مسلمان ممالک کے خلاف دہشت گردوں کا اڈہ ہے۔ لیکن سب مضبوط اعلان اقوام متحدہ نے کیا، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ’’یروشلم اور فلسطینی علاقے اسرائیل کے نہیں ہیں اس لیے اسرائیل یہاں سے فوری طور پر نکل جائے۔ اقوامِ متحدہ کہنا ہے اسرائیل نے 502خاندانوں کو فلسطین میں اسلحہ سمیت فلسطینی علاقے میں رہائش کے لیے بھیجا ہے یہ بھارتی آرایس ایس نما یہودی فلسطینیوں کے گھروں پر اسلحے کے زور پر قبضہ کر رہے ہیں اور اسرائیلی افواج ان کی مدد کر ر ہی ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے اسرائیل سے کہا ہے وہ اپنی افواج کو فلسطین سے نکا لے‘‘۔ اس کے علاوہ ترکی، ایران، قطر بحرین سخت ردِعمل اظہار کیا ہے لیکن سعودی عرب نے بھی پاکستان کے طرح سخت بیان سے دور رہنے کی کوشش جاری رکھی۔
فلسطین پر اسرائیل کی جانب سے جاری مظالم کے خلاف مسلم حکومتوں کی خاموشی ظلم اور دہشت گردی میں اسرائیل کی حمایت سے کم نہیں ہے۔ 70برس قبل فلسطین میں ظالم سرمایہ دارانہ نظام کی پالیسیوں نے فلسطینیوں کو آبائی وطن اور آبائی سرزمین سے منقطع کر کے اس میں ایک دہشت گرد حکومت اور اجنبی یہودیوں کو جگہ دی ہے۔ فلسطینیوں نے صہیونی دشمن حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے تحریک 70برس سے شروع کر رکھی ہے اور اب بھی جاری ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے 1946ء میں کہا تھا کہ صہیونی حکومت کے قیام کی خیالی منطق کمزور اور بے بنیاد ہے؟ یورپیوں کا دعویٰ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں پر ظلم کیا گیا تھا، لہٰذا مغربی ایشیاء میں کسی قوم کو بے گھر کرکے یہودیوں کا بدلہ لیا جانا چاہیے۔ یہی وہ منطق ہے جس پر مغربی حکومتوں نے صہیونی حکومت کی بھرپور اور بے دریغ حمایت کی ہے اور یہ مضحکہ خیز اور سفاک کہانی ستر برسوں سے جاری ہے اور بعض اوقات ایک اور صفحہ کا اس میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
غاصب صہیونی حکومت کا مقابلہ صرف فلسطینیوں کی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ بیت المقدس کی آزادی میں اپنا کردار ادا کریں اور اس سلسلے میں فلسطینیوں کی بھر پور حمایت کریں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اگرچہ غاصب صہیونی حکومت 1948 میں قائم ہوئی تھی، لیکن اس اسلامی خطے پر قبضے کی تیاریاں 1920ء سال قبل شروع ہوئی تھیں۔ اس دوران میں مغربی طاقتیں قوم پرستی اور سیکولرازم کی حکمرانی، سامراج طاقتوں اور مغرب کے حمایت یافتہ ممالک کو اقتدار میں لانے کے لیے اسلامی ممالک میں مداخلت کرتی تھیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امت ِ مسلمہ میں تفرقہ اور اختلاف کی وجہ سے فلسطین کا المیہ رونما ہوا اور عالمی سامراجی طاقتوں نے دنیائے اسلام پر کاری ضرب لگائی ہے۔ مسلم ممالک کے اتحاد سے امریکا اور مغربی ممالک خائف ہیں اگر مسلم ممالک متحدہ ہوجائیں اور فلسطین کی آزادی کو اپنا نصب العین بنالیں تو فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اب فلسطین کا مسئلہ بھی فیصلہ کن مرحلے میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں استقامت اور پائیداری کا سلسلہ پوری قوت کے ساتھ جاری ہے لیکن اس کے ضروری ہے کہ تمام مسلمان اور مسلم ممالک فلسطینی مجاہدین کی بھر پور حمایت کا سلسلہ جاری رکھیں۔ فلسطین کے مظلوم عوام کی فتح پر یقین ہے اور اللہ تعالی فلسطینیوں کو کامیابی اور فتح نصیب کرے گا۔
آخر اسرائیل نے اس قدر شدت اور تیزی فلسطینیوں پر حملے کیوں شروع کردیے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے ہیکلِ سلمانی کی تعمیر اور مسجد ِاقصیٰ کو توڑنے کے لیے ہوم ورک مکمل کر لیا ہے۔ 1992ء میں ٹائم میگز ین کی ٹائٹل اسٹوری کا عنوان “1992 only Aspen” اس میں پوری تاریخ نتھی کی گئی تھی۔ 1492ء میں غرناطہ کا سقوط ہوا تھا اور 1992ء اس سقوط کو پورے 500 برس ہوگئے تھے اسی لیے ٹائم میگزین کی اس اسٹوری میں بتایا گیا تھا کہ اسپین میں مسلمانوں کی شکست کے 500 سال مکمل ہوئے ہیں اور اسی لیے 1992ء میں اولمپکس بھی اسپین میں رکھا گیا اور عالم عرب و اسرائیل درمیان براہ راست مذاکرات اسپین کے شہر میڈرڈ میں ہوئے جس کے بعد یہ طے ہو گیا تھا کہ عالم اسلام میں عرب فلسطین کے بجائے اب اسرائیل کے ساتھ ہیں اور فلسطین میڈرڈ مذکرات گردوغبار میں کہیںگم کر دیا گیا ہے۔ میڈرڈ میں عرب اسرائیل دنیا کی واحد بڑی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تاکہ مسلمانوں بتایا جائے کہ جس طرح 1492ء میں مسلمانوں کا اسپین میں قبرستان میں بنایا گیا تھا اگر اسرائیل کو تسلیم نہ کیا تو ایسا ہی قبرستان عربوں کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں بنا کرگریٹر اسرائیل کے قیام کو یقینی بنایا جائے گا۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ مسیحا آئے گا اور یروشلم ان کی سلطنت کا پایہ تخت ہوگا اور ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جب تک ہیکل سلیمانی تعمیر نہیں ہوتا مسیحا نہیں آئے گا۔ اب جیسا کہ حالات سے ظاہر ہے کہ یہود نے ایک اپنا ورلڈ آرڈر تخلیق کیا ہوا ہے جس کے دائرے میں ساری دنیا کی سیاست اس وقت ان کی منشا و مرضی کے مطابق گھوم رہی ہے۔ سابق صدر رونالڈ ریگن نے ایک گرجے میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’میرا عقیدہ ہے کہ آخری بڑی جنگ، آرما گیڈون، یروشلم میں لڑی جائے گی جس میں کم ازکم 24کروڑ فوج مشرق سے مسلمانوں کی آئے گی اور کروڑوں فوج مغرب سے عیسائیوں کی آئے گی اور آخر کار یسوع مسیح آکر فتح حاصل کریں گے اور دنیا میں ایک خدائی حکومت قائم کریں گے‘‘۔ صدر ریگن ہر ہفتے ایک یہودی صعومہ میں عبادت کے لیے حاضری دیا کرتے تھے جہاں اسرائیل کے لیے مزید زمین کے حصول کے لیے دعا کی جاتی تھی اور اب یہی زمین فلسطین میں حاصل کی جا رہی ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم میں کم از کم 10 وعدے کیے تھے ان میں سے مسلمانوں کی بربادی اور اسرائیل کی بہبود کے سوا انہوں نے کسی وعدے کی تکمیل نہیں کی۔ امریکی سفارت خانہ اسرائیل سے تل ابیب منتقل کرنے کا حکم دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ’’میں نے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اپنا وعدہ پورا کردیا ہے‘‘۔ ان تمام تفصیلات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ 1948ء سے لے کر تاحال امریکا اسرائیل کا معاون و مددگار اور مسلمانوں کا اولین دشمن رہا ہے۔ بہتر ہوتا کہ عالم اسلام یہ بات سمجھ لیتا کہ گریٹر اسرائیل اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر میں صہیونی کسی بھی طرح کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ عرب ممالک سے امن معاہدے بھی اسی مذموم منصوبے کی تکمل کے لیے ہے۔ اب اس بھری دنیا میں فلسطینی اور کشمیری عالمی ورلڈ آرڈرکی نظر ِ بد کے نرغے میں اور اللہ کے سوا ان کا کوئی مدد گار نہیں ہے۔