اسرائیل کی جارحیت

251

جاوید اقبال

رمضان المبارک میں قیام الیل کے دوران اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں پر دھاوا بول دیا، مسجد کی بے حرمتی کی، نمازیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا، ربڑ کی گولیوں اور اسٹین گرنیڈ سے فلسطینی بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کو زخمی کیا، اور ایسا زخمی کیا کہ بینائی سے محروم کردیا۔ مسجد اقصیٰ کے باب سلسلہ کو تالے لگائے، مسجد کے لائوڈ اسپیکر کے تار کاٹ دیے، مسجد کے اندر گھس کہ نمازیوں کو وحشیانہ طور پر گھسیٹا، دو سو سے زائد لوگوں کو زخمی اور دو کو شہید کردیا۔ یہ معاملہ پچھلے 10 دنوں سے جاری ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف پچھلے دس روز سے اسرائیل نے کریک ڈائون کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا۔ جس کا مقصد شیخ جراح کے محلے میں فلسطینیوں کے گھروں، دکانوں اور کاروبار پر قبضہ کرنا ہے۔ اس علاقے میں فلسطینی خاندان پچھلے ستر اسّی سالوں سے رہائش پذیر ہیں۔ لیکن اب دس دن قبل اسرائیلی سپریم کورٹ اور یہودی آباد کار ایسوسی ایشن کے درمیان ایک مقدمے کی سماعت کے بعد فلسطینیوں سے اس جگہ کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ مقدمہ فلسطینی خاندانوں کے خلاف طویل عرصے سے جاری ہے جس کے باعث فلسطینیوں کو اپنے ہی گھر سے بے دخل کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے۔ شیخ جراح کا محلہ دمشق دروازے کے قریب اور پرانے یروشلم کی دیواروں کے بالکل باہر واقع ہے۔ اس علاقے میں فلسطینیوں کے ہوٹل، ریستوران، مکانات اور رہائشی عمارتیں شامل ہیں۔ اب اسرائیل عدالتی فیصلوں کے ذریعے اس سارے علاقے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تا کہ مشرقی یروشلم میں اسرائیلی آباد کاروں کی تعداد بڑھائی جاسکے۔ خاص طور پر اس وجہ سے کہ فلسطینی چاہتے ہیں کہ مشرقی یروشلم اْن کی آئندہ ریاست کا دارالحکومت بن جائے، دنیا کے بیشتر ممالک اور اقوام متحدہ کی قراردادیں اسرائیلی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیتی ہیں۔ اس وقت بھی اقوام متحدہ اسرائیل سے کہہ رہا ہے کہ اْسے کسی بھی قسم کی فلسطینی بے دخلی کے اقدامات کا ارادہ ملتوی کردینا چاہیے۔ جی ہاں صرف ملتوی۔۔۔ لیکن اسرائیل نے یہ دھیمی دھیمی تنبیہ بھلا کہاں سنی ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم نے عالمی برادری کو فلسطینیوں کے حقوق کے فوری اقدامات کرنے کے لیے کہا ہے۔ ترکی کے صدر نے بھی اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ اسلامی تعاون تنظیم اور تمام متعلقہ اداروں کو فوری کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کچھ دیگر اسلامی ممالک نے بھی اسرائیل کی مذمت بھی کی ہے۔ سعودی عرب، مصر اور دوسرے خلیجی بادشاہت والے ممالک اشارہ دے رہے ہیں کہ فلسطین کو الگ ملک بنانے کا مطالبہ اب ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے اور وہ مستقبل میں ایسا ہونے کا امکان بھی نہیں دیکھ رہے ہیں۔ سعودی ولی عہد تو صاف صاف فلسطینیوں سے کہہ چکے ہیں کہ فلسطینیوں کو اسرائیل اور امریکا کی طرف سے دی جانے والی امن کی تجاویز قبول کرنا چاہیے ورنہ انہیں خاموش رہنا چاہیے۔سابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ایسے حوصلہ افزا حالات میں پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ وہ مغربی کنارے کا ایک تہائی حصہ اسرائیل میں ضم کردیں گے۔ وہ اس کام کو تاخیر کی نذر اس لیے کرتے رہے کہ عرب ممالک ایک کے بعد ایک اسرائیل کو تسلیم کررہے تھے۔ شیخ جراح میں فلسطینیوں کو اپنے کاروبار اور گھروں سے بے دخل کرنے کا مقصد فلسطینی آبادی کے گھروں اور جائدادوں پر قبضہ ہے۔ تا کہ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے قریب سے فلسطینیوں کو نکال دیا جائے۔ کسی ہنستے بستے خاندان کے گھر کو مسمار کردینا، گھر کے سامان کو تباہ کرنا اور گھر والوں کو بے گھر کرنا دنیا میں کہیں بھی ایک بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے، لیکن اسرائیل میں یہ اتنا ہی آسان اور سہل ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ مجرم بھی بے گھر اور در بدر کیے جانے والے خاندان کو ہی ٹھیرایا جاتا ہے۔ اکثر تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ گھر کے لوگوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ یہی شیخ جراح کی بستی میں کیا گیا۔ وہاں کے ایک رہائشی 76 سالہ بوڑھے نبیل، ان کی اہلیہ اور بچے ان درجنوں فلسطینیوں میں شامل ہیں جن کے متعلق اسرائیلی عدالت نے فیصلہ سنایا ہے کہ اْن کے گھر یہودی آباد کاروں کی اراضی پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ حالاں کہ نبیل اور دیگر فلسطینی اْس قصبہ میں 70 سال سے رہائش پذیر ہیں۔ دراصل یہ مقدمات مشرقی یروشلم میں آبادکاروں کی تعداد بڑھانے کے منصوبے کے لیے ایک حکمت عملی کے طور پر چلائے جارہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں حماس کے سیاسی شعبے کے سینئر رکن ڈاکٹر محمود الزھار کا مشورہ نہایت بروقت اور صائب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عالم اسلام بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کو غاصب یہودیوں کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے باقاعدہ فوج تشکیل دے۔ بیت المقدس کو قابض دشمن کے قبضے سے آزاد کرنے کا واحد راستہ عرب اور اسلامی دنیا کی مشترکہ فوج کی تشکیل ہے۔ محمود الزھار کے اس مشورے پر تمام اسلامی ممالک کے حکمران کان دھریں تا کہ مسجد اقصیٰ آزاد ہو۔ اس کا اعلان
ہی اسرائیل کے لیے ایک اہم پیغام ہوگا۔ اور غزہ پر یہودی حملوں کو ناکام بنانے کے لیے قبلہ اوّل کی طرف رخت سفر باندھیں۔یہودی کتوں نے انبیا کی سرزمین کو مقتل بنادیاکیونکہ جگہ جگہ لاشیں بکھری پڑی ہیں،میرے مسلمان بہن بھائیوں کے گھر اجڑ گئے، ہمارے معصوم بچوں پر کتے چھوڑے جارہے ہیں،بے بسی برس رہی ہے،انسانیت ترس رہی ہے، ہرطرف آگ اور خون کا کھیل ہے،ہمارے آباؤاجداد نیبھی جنگیں کی تھیں مگر بچوں، عورتوں اور بزرگوں کا احترام ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھا تھا مگر ان یہودی کتوں کو تو جنگوں کے اصول بھی یاد نہیں۔فلسطینی مزاحمت کے درمیان سیف القدس سے موسوم جنگ کو شروع ہوئے چار دن گذر چکے ہیں۔ اگرچہ اسرائیل نے غزہ شہر کی رہائشی عمارتوں پر جارحانہ حملے کئے ہیں اور ان حملوں میں سو سے زیادہ فلسطینی شہید بھی ہوئے ہیں، تاہم یہ جنگ اسرائیل کے لیے بھی سنگین نتائج کی حامل رہی ہے اور اسرائیل کے لیے خطرے کی گھنٹی شمار ہوتی ہے۔ اس جنگ کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ فلسطینیوں نے غزہ سے مقبوضہ علاقوں پر سینکڑوں راکٹ اور میزائل فائر کیے ہیں۔ جیسا کہ اسرائیل نے بھی اعلان کیا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے تین ابتدائی دنوں میں ڈیڑھ ہزار سے زائد راکٹ اور میزائل غزہ سے مقبوضہ اسرائیلی کے اوپر فائر کئے گئے ہیں۔
مگرہمارے فلسطینی بہن بھائیوں کے گھر مسمار ہوگئے،بہت سے بچے یتیم ہوگئے،بہت سے بچوں کی جان محض مسلمان کے باعث لے لی گئی،بہت سے پھول سے بچوں کے چہروں پر کتے طمانچے مار رہے ہیں، سرزمین فلسطین مسلمان حکمرانوں کی بے غیرتی پر رو رہی ہے،یہ مقتل گاہ مسلمان ملکوں کے بزدل،بے غیرت اور غلام حکمرانوں کے نوحے لکھ رہی ہے۔یروشلم میں میرے بے بس بہن بھائی آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو گولے برستے ہیں،زمیں کو دیکھتے ہیں تو گولیاں اور خون نظر آتا ہے،فضا کا رخ کرتے ہیں تو بارود کی بْو آتی ہے اور جہاں تک پاکستان کے مسلمانوں کا تعلق ہے۔ انہوں نے تو اللہ کے پاس واپس جا کر اس بات کا جواب دہ ہونا ہے کہ آپ کو ایٹمی ہتھیاروں سے مالامال کیا تھا تو ان کا استعمال کس مقصد کے لیے کرنا تھا۔بطور پاکستانی مسلمان ہونے کے ناطے یہ خسارہ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارا انعام بننا چاہیے کہ تم جنت سے نکلو تمہیں ایٹم بم کس مقصد کے لیے دیا گیا تھا۔کیا ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کا مقصد صرف یہی ہے کہ 23 مارچ یا 14 اگست کو نکال کے رونمائی کروا دی جائے اور گنتی کر لی جائے کہ پورے تو ہیں نہ کہیں کوئی غلطی سے استعمال تو نہیں کر لیا۔
میرے لوگوں سے چند سوالات ہیں
جو لوگ کہتے ہیں کہ اسلام امن کا درس دیتا ہے وہ ذرا میرے سوالوں کے جواب تو دیں؟
1 کیا وہ حضرت عمرؓ حضرت عثمانؓ حضرت ابوبکرؓ حضرت علیؓ سے پوچھ سکتے ہیں کہ انہوں نے غزوات میں کیوں حصہ لیا۔ انہوں نے میرے نبیؐ کے بعد جنگ کیوں لڑی جبکہ ہمارا اسلام تو امن کا درس دیتا ہے۔ کیا وہ امام مہدی اور حضرت عیسیٰؑ کے سامنے کھڑے ہوکے کہیں گے اسلام امن کا درس دیتا ہے ہم نہیں لڑ رہے ہیں ہم نے خون خرابہ نہیں کرنا۔
2کدھر ہیں وہ لوگ جو انڈیا میں ہندوؤں کے مرنے پر تو بہت دکھ رنج میں مبتلا ہوئے تھے اب جبکہ فلسطینی مسلمانوں کی باری آئی تو بہت کم اسٹیٹس لگایا
3 کہاں ہے ہمارا آزاد میڈیا
اسلام امن کا درس دیتا ہے یہ کہہ کہ آپ لوگوں کو الجھایا جا رہا ہے کہ آپ لوگ جہاد سے دور ہو جائیں اسلام صرف امن کا درس ہی نہیں دیتا بلکہ اسلام جہاد کا بھی درس دیتا ہے اسلام ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کا بھی درس دیتا ہے۔