مولانا وحید الدین خاں

2112

ہر بڑے آدمی کو اس کے مقدر کے چند چھوٹے لوگ ضرور دیے جاتے ہیں۔ یہ چھوٹے لوگ دو کام دل لگا کر کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ بڑے لوگوں کو ان کی سطح پر جا کر سمجھنے کے بجائے وہ انہیں اپنی سطح پر لا کر سمجھتے ہیں۔ دوسرا کام وہ یہ کرتے ہیں کہ اپنے قد کا موازنہ بڑے لوگوں کے قد کے ساتھ کرتے رہتے ہیں۔ وہ ساری زندگی یہ دیکھنے میں صرف کردیتے ہیں کہ ان کا قد بڑے آدمی کے قد سے کتنا چھوٹا یا بڑا ہے۔ مولانا مودودی کے بڑا آدمی ہونے میں کوئی کلام ہی نہیں۔ مولانا کو ان کے حصے کے جو چھوٹے لوگ فراہم کیے گئے تھے ان میں سے ایک کا نام مولانا وحید الدین خاں تھا۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مولانا وحید الدین خاں نے تعبیر کی غلطی کے عنوان سے مولانا پر جو کتاب لکھی وہ کوئی علمی کام ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ تعبیر کی غلطی اس بات کا اشتہار ہے کہ اب مولانا وحید الدین خاں کا قد مولانا مودودی کے قد سے بڑھ گیا ہے۔ اس لیے کہ مولانا وحید الدین نے اس کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ مولانا مودودی کی پوری تعبیرِ دین ہی غلط ہے۔ خیر یہ تو ایک طویل جملہ معترضہ تھا۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ مولانا وحید الدین خاں گزشتہ دنوں قبل دارفانی سے کوچ کرکے اپنے رب کے پاس حاضر ہوگئے ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم مولانا پر کالم نہیں لکھیں گے مگر اخبارات میں مولانا وحید الدین خاں کا اتنا ذکر ہوا کہ ہم کالم لکھنے پر مجبور ہوگئے۔ مولانا وحید الدین خاں پر کالم لکھنے والے لوگوں کی اکثریت نے انہیں ایک عبقری ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ کتنے ’’روشن خیال‘‘ تھے۔ مولانا کے خیالات کتنے ’’روشن خیالی‘‘ میں ڈوبے ہوئے تھے یا وہ کتنے اشتعال انگیز تھے اس کی چند جھلکیاں معروف بھارتی صحافی افتخار گیلانی نے اپنے کالم میں پیش کی ہیں۔ مکتوب دہلی کے عنوان سے ان کا یہ کالم ایک پاکستانی اخبار میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتا ہے۔ افتخار گیلانی نے اپنے کالم میں مولانا کے حوالے سے کیا انکشافات کیے ہیں انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ افتخار گیلانی نے لکھا:۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار درس کے دوران انہوں نے سیدنا عمر کے زمانے میں ہوئی فتوحات پر نکتہ چینی کی۔ ان کا استدلال تھا کہ ان فتوحات کی وجہ سے دعوت کا کام دب گیا۔ اسی طرح ان کی دلیل تھی صلاح الدین ایوبی اور صلیبی جنگوں کی وجہ سے یورپ میں اسلام کے دعوتی پیغام کو زک پہنچا۔ عراق اور افغانستان میں امریکا کی جنگ کو وہ خدائی آپریشن کا نام دیتے تھے۔ ہندو مسلم فسادات پر وہ مسلمانوں کو ظالم قرار دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ فسادات کی ابتدا مسلمان کرتے ہیں۔ میں نے ایک بار ان سے پوچھا کہ یہ نتیجہ انہوں نے کہاں سے اخذ کیا ہے؟ کیوں کہ اس دوران مجھے کئی بار فسادات کی کوریج کرنے کا موقع ملا تھا اور پایا کہ جانی اور مالی نقصان مسلمانوں ہی کا ہوتا ہے۔ آخر اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کے لیے کیوں کوئی آگ میں اپنا سر دے گا؟ ان کا موقف تھا کہ بابری مسجد سے مسلمانوں کو دستبردار ہونا چاہیے، اب تو اس جگہ پر رام مندر کی تعمیر ہورہی ہے۔ کیا اس سے قوم پرست ہندوئوں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت میں کمی واقع ہوئی ہے؟ وہ تو اب دیگر مساجد کو مندر بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
کشمیری مسلمانوں کے ساتھ تو ان کو خدا واسطے کا بیر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بجائے آزادی کی تحریک کے ان کو اپنے کردار و تبلیغ سے وہاں موجود سات لاکھ بھارتی فوجیوں اور نیم فوجی دستوں تک اسلام کا پیغام پہنچانا چاہیے۔ اس کے باوجود الرسالہ کی سیل سب سے زیادہ کشمیر ہی میں ہوتی تھی۔ کچھ تو لوگ واقعی خریدتے تھے۔ مگر تلاشی آپریشنز کے دوران فوج اور نیم فوجی دستوں کے ساتھ آئے انٹیلی جنس کے افراد اس کو نوجوانوں میں بانٹتے تھے۔ سوپور کی جامع مسجد کے پاس بارڈر سیکورٹی فورس کا بنکر تھا۔ ایک روز نماز جمعہ سے قبل مسجد میں داخل ہونے والوں کو بنکر کا ایک سپاہی الرسالہ اور مولانا کا ایک تحریر کردہ پمفلٹ بانٹ رہا تھا اور تاکید کررہا تھا کہ اس اسلام کو اپنا کر پاکستان والا اسلام ترک کردیں۔ اس سپاہی کے ساتھ بحث کی گنجائش تو نہیں تھی، مگر دہلی واپس آکر میں نے مولانا کے گوش گزار کرلیا۔ ان کا پھر بھی کہنا تھا کہ کشمیریوں نے میر سید علی ہمدانی کے مشن کو فراموش کردیا ہے۔ مولانا نے مسئلہ کشمیر کا صرف ایک ہی حل بتایا کہ کشمیری ’’امن‘‘ کا راستہ اپنائیں، لیکن اس سے پہلے انہیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کی گزشتہ کئی دہائیوں کی جدوجہد غلط تھی۔ رشید صاحب نے مولانا سے عرض کیا کہ امن کی خواہش کشمیریوں سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہوسکتی، لیکن انصاف کے بغیر امن کا قیام کیسے ممکن ہے تو مولانا نے فرمایا کہ انصاف کو امن کے ساتھ جوڑنے والے لوگوں کی یہ ذہنی اختراع ہے‘‘۔
(روزنامہ 92 نیوز۔ 4 مئی 2021ء)
افتخار گیلانی کے کالم کے مذکورہ بالا اقتباسات پڑھ کر معلوم ہوا کہ تعبیر کی غلطی تلاش کرنا مولانا وحید الدین کا ’’شوق‘‘ تھا۔ ان کے اس شوق سے مولانا مودودی کیا سیدنا عمر فاروقؓ بھی نہ بچ سکے۔ تعبیر کی غلطی میں انہوں نے مولانا پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے دین کے بنیادی تصورات یا بنیادی اصطلاحوں کو غلط سمجھا ہے۔ افتخار گیلانی کے مطابق انہوں نے سیدنا عمرؓ پر یہ الزام لگایا کہ ان کی فتوحات سے اسلام کی دعوت کا پہلو دب کر رہ گیا یا پس منظر میں چلا گیا۔ یہ چھوٹا منہ بڑی بات نہیں اس سے بہت آگے کا معاملہ ہے۔ یہ نری جہالت ہے۔ سیدنا عمرؓ کوئی معمولی انسان نہیں، رسول اکرمؐ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتے۔ رسول اکرمؐ نے ایک بار صحابہ سے یہ بھی فرمایا کہ ہر امت کا ایک محدث ہوتا ہے اور میری امت کے محدث سیدنا عمرؓ ہیں۔ صحابہ نے پوچھا کہ محدث کون ہوتا ہے؟ رسول اکرمؐ نے فرمایا محدث وہ آدمی ہوتا ہے جس کی زبان سے فرشتے گفتگو کرتے ہیں۔ سیدنا عمرؓ کی شخصیت کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ کئی مواقع پر وحی سیدنا عمرؓ کی رائے کے مطابق آئی۔ جہاں تک اسلامی تاریخ کا تعلق ہے تو اس پر رسول اکرمؐ کے بعد سب سے زیادہ اثر سیدنا عمرؓ کا ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ عمرؓ سے شیطان گریزاں رہتا ہے۔ عمرؓ جہاں جاتے ہیں شیطان وہاں سے فرار ہوجاتا ہے۔ سیدنا عمرؓ کے بارے میں ایک صحابی رسول کا یہ قول تاریخ کا حصہ چلا آتا ہے کہ علم کے دس حصوں میں سے نو حصے عمرؓ کو عطا کیے گئے۔ سیدنا علیؓ کا یہ قول بھی اہل علم کے حافظے کا حصہ ہے کہ عمرؓ اہل جنت کا چراغ ہیں۔ ان سیدنا عمرؓ کے بارے میں مولانا وحید الدین فرماتے ہیں کہ وہ دین کے مقصد کو سمجھے ہی نہیں۔ سمجھتے تو وہ جہاد کے ذریعے ’’فتوحات‘‘ پر زیادہ توجہ نہ دیتے بلکہ وہ وحید الدین خاں کی خود ساختہ ’’دعوت‘‘ پر توجہ دیتے۔ مولانا وحید الدین جب تک زندہ رہے دعوت، دعوت کرتے رہے مگر وہ اتنی سی بات بھی نہیں جانتے تھے کہ دعوت کی پشت پر اگر ریاست کی طاقت نہ ہو تو دنیا آپ کو ’’دعوت‘‘ کی اجازت بھی نہیں دے گی۔ اس کی سب سے بڑی مثال برصغیر کا معاشرہ ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ برصغیر میں اسلام صوفیا اور علما نے پھیلایا، اس سلسلے میں بادشاہوں کا کوئی کردار نہیں۔ کہنے والے غلط نہیں کہتے مگر اس حیثیت کو ایک لمحے کے لیے بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اگر مسلم ریاست صوفیا اور علما کی پشت پر موجود نہ ہوتی تو ہندو کبھی صوفیا اور علما کو دعوت عام کرنے کی اجازت نہ دیتے۔ ذاکر نائک جدید ہندوستان میں مکالمے کے ذریعے دعوت ہی کو تو آگے بڑھا رہے تھے مگر مودی سرکار نے انہیں ایک حد سے آگے نہ بڑھنے دیا، یہاں تک کہ ڈاکٹر ذاکر نائک کو ہندوستان چھوڑنا پڑ گیا۔ اس لیے اقبال نے کہا ہے کہ عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد۔
مولانا وحید الدین یہ بھی فرماتے تھے کہ صلیبی جنگوں کی وجہ سے یورپ میں اسلام کے دعوتی پیغام کو زک پہنچی۔ یہ بھی ایک جاہلانہ بات ہے۔ اس لیے کہ صلیبی جنگیں صلاح الدین ایوبی نے ایجاد نہیں کی تھیں۔ صلیبی جنگیں عیسائی یورپ کے روحانی پیشوا پوپ اربن دوم نے ایجاد کی تھیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے تو صرف صلیبی جنگوں کا جواب دیا۔ مگر مولانا وحید الدین خاں چاہتے تھے کہ مسلمان ہر حال میں عضو معطل بنے رہیں۔ کوئی ان پر جارحیت مسلط کرتا ہے تو کرتا رہے مسلمانوں کو بس ’’دعوت‘‘ کا کام کرتے رہنا چاہیے۔ مگر جب دشمن آپ کو انسان ہی نہ مانتا ہو اور اس نے آپ پر جنگ مسلط کی ہوئی ہو تو آپ بالآخر جواب دینے پر مجبور ہو ہی جاتے ہیں۔ پوپ اربن نے جب مسلمانوں پر صلیبی جنگیں مسلط کیں تو اس نے صرف مسلمانوں پر عسکری حملہ نہیں کیا۔ اس نے مسلمانوں پر روحانی اور نفسیاتی حملہ بھی کیا۔ اس نے کہا (معاذاللہ) اسلام ایک شیطانی مذہب ہے اور اس کے ماننے والے ایک شیطانی مذہب کے مانے والے ہیں۔ پوپ نے دعویٰ کیا کہ میرے قلب پر یہ بات القا کی گئی ہے کہ عیسائیوں کا فرض ہے کہ وہ شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو صفحۂ ہستی سے مٹادیں۔ اس طرح پوپ نے یورپ میں خود ہی اسلام کی دعوت کا دروازہ بند کردیا۔ آخر عیسائی یورپ اس مذہب کی دعوت کو کیسے قبول کرتا جسے ان کا پوپ ’’شیطانی مذہب‘‘ قرار دے رہا تھا۔ مگر مولانا وحید الدین تاریخ کے پورے تناظر کو سامنے رکھے بغیر گفتگو فرمانے کے عادی تھے۔ حیرت ہے اس کے باوجود لوگ انہیں عالم کہتے ہیں۔
مولانا وحید الدین افغانستان اور عراق میں امریکا کی جارحیت کو ’’خدائی مشن‘‘ قرار دیتے تھے تو کیا مولانا امریکا کو خدا سمجھتے تھے اس لیے کہ افغانستان اور عراق میں امریکا خدا کی طرح ’’Act‘‘ کرتا نظر آرہا تھا۔ ایسا نہیں تھا تو کیا خدا نے مولانا کے کان میں کہہ دیا تھا کہ افغانستان اور عراق میں امریکا جو کچھ کررہا ہے وہ ’’میرا مشن‘‘ ہے؟۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکا نے افغانستان اور عراق میں ننگی جارحیت کا ارتکاب کیا۔ اس جارحیت کی کوئی اخلاقی بنیاد نہیں تھی۔ امریکا آج تک ثابت نہیں کرسکا کہ نائن الیون کے حملوں میں طالبان ملوث تھے، پھر اس نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو طاقت کے زور پر کیوں ختم کیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ طالبان القاعدہ کے پشت پناہ تھے اور نائن الیون میں القاعدہ ملوث تھی۔ مگر امریکا اس سلسلے میں بھی کوئی ٹھوس شہادت پیش کرنے سے قاصر ہے۔ البتہ امریکا میں کروڑوں افراد کا خیال آج بھی یہ ہے کہ نائن الیون کے حملے ’’امریکی اسٹیبلشمنٹ‘‘ کا کارنامہ تھے۔ جہاں تک عراق کا تعلق ہے تو امریکا عراق کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا حامل قرار دیا مگر عراق سے کچھ بھی برآمد نہ ہوسکا۔ اس کے باوجود امریکا نے عراق پر حملہ کرکے وہاں پانچ سال میں چھ لاکھ عراقیوں کو مار ڈالا۔ مگر مولانا کو اس کے باوجود عراق کے خلاف امریکا کی جارحیت ’’خدائی مشن‘‘ نظر آتی تھی۔ تو کیا مولانا وحید الدین خاں امریکی سی آئی اے کے ایجنٹ تھے؟ اس لیے کہ افغانستان اور عراق میں امریکی جارحیت کو صرف سی آئی اے کا ایجنٹ ہی خدائی مشن قرار دے سکتا ہے۔
مولانا وحید الدین خاں کا خیال تھا کہ بھارت کے تمام مسلم کش فسادات کے ذمے دار خود مسلمان ہیں۔ مسلمان بھارت میں ایک اقلیت ہیں اور اگر وہ چاہیں بھی تو انہیں فسادات ’’سُوٹ‘‘ نہیں کرتے۔ اس لیے کہ فسادات میں سارا نقصان مسلمانوں کا ہوتا ہے۔ ہندو ان کا کاروبار تباہ کردیتے ہیں اور بھارت کے قانون نافذ کرنے والے ادارے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو پکڑ کر جیلوں میں ٹھونس دیتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت کے مسلمان کا کوئی پشت پناہ بھی نہیں ہے۔ ان کے لیے نہ امریکا آواز اٹھاتا ہے، نہ یورپ انہیں مظلوم سمجھتا ہے، نہ روس اور چین مسلمانوں کے قتل عام پر کچھ کہتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستان تک اس سلسلے میں خاموش رہتا ہے۔ مگر اس کے باوجود مولانا وحید الدین خاں کا خیال ہے کہ بھارت کے مسلم کش فسادات کے ذمے دار مسلمان ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مولانا نے ایمان اور انصاف کو بیچ کھایا تھا اور وہ را کے ایجنٹ بن گئے تھے؟۔
مولانا وحید الدین خاں کا تجزیہ تھا کہ بھارت کے مسلمانوں کو بابری مسجد سے دستبردار ہوجانا چاہیے اور بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر پر نہ صرف یہ کہ راضی ہوجانا چاہیے بلکہ انہیں اس سلسلے میں ہندو انتہا پسندوں کی مدد بھی کرنی چاہیے۔ بھارت کے ہندو کیا۔ بھارت کی سپریم کورٹ تک بابری مسجد پر ہندوئوں کا دعویٰ ثابت نہیں کرسکی۔ اس کے باوجود مولانا وحید الدین خاں چاہتے تھے کہ بھارت کے مسلمان بابری مسجد سے دستبردار ہوجائیں۔ مولانا کے یہ خیالات اتنے بے رحمانہ ہیں کہ مولانا ہندوئوں سے بڑے ہندو نظر آتے ہیں۔ مولانا کا خیال تھا کہ کشمیریوں کو بھارت سے آزادی کی تحریک چلانے کے بجائے وہاں ’’آئے ہوئے‘‘ فوجیوں تک دین کی ’’دعوت‘‘ پہنچانی چاہیے۔ مولانا کا یہ موقف اتنا احمقانہ ہے کہ خود دعوت کا تصور مذاق بن جاتا ہے۔ مولانا کا خیال تھا کہ امن کو انصاف کے ساتھ جوڑنا ایک خود ساختہ تصور ہے حالاں کہ پوری دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ جہاں ظلم ہوتا ہے وہاں امن نہیں ہوتا۔ امن وہیں ہوتا ہے جہاں انصاف ہوتا ہے۔ مگر مولانا وحید الدین ہندوستان کے ظلم کے بھی عاشق تھے۔ اس کے باوجود بھی وہ ’’مولانا‘‘ کہلاتے ہیں۔ حیرت ہے۔