ہنری کسنجر کی اسرائیل کے خاتمہ کی پیش گوئی

1179

اسرائیل سے جاری اخبارات یروشلم پوسٹ اور ہیریٹز (haaretz news) نے 2012ء میں اُس وقت کے سیکرٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر سے سوال کیا تھا کہ کیا انہوں نے یہ کہا تھا کہ: ’’اسرائیل دس برسوں میں ختم ہو جائے گا‘‘۔ یہ سوال نیویارک ٹائمز کے 2012ء کی ایک رپورٹ چھپنے بعد کیا گیا جس میں سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ ’’امریکا میں اسرائیل کی حمایت ختم ہوتی جا رہی ہے اور آئندہ دس سال میں اسرائیل کا وجود ختم ہو جائے گا‘‘۔ ہنری کسنجر کے تجزیے پر اسرائیلی حکام شدید پریشان ہوئے تھے اور آج ایک مرتبہ اسرائیلی اخبارات میں یہی سوال دوبارہ زیر ِ بحث کہ ہنری کسنجر نے 2012ء میں جو پیشین گوئی کی تھی وہ درست ہو رہی ہے۔ ہنری کسنجر خود ایک امریکن یہودی ہیں اور امریکی خارجہ پالیسی کے حوالے سے ان کی بہت خدمات ہیں۔ ایک یہودی ہوتے ہوئے بھی وہ اسرائیل پر ایک آزاد اور منصفانہ موقف کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ گزشتہ سال صدر ٹرمپ نے انہیں امریکا کی دفاعی کمیٹی سے اس لیے فارغ کر دیا تھا کہ وہ ٹرمپ کی جانب سے عرب اسرائیل امن معاہدے کے مخالف تھے۔
ہنری کسنجر امریکا کے دو بار سیکرٹری آف اسٹیٹ کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ یہودی ہونے کے ناتے وہ امریکا اسرائیل تعلقات کے اسرار و رموز سے بھی بخوبی آگاہ ہیں اس لیے انہوں نے اسرائیل کے مستقبل کے حوالے سے جس رائے کا اظہار کیا ہے‘ وہ اس لیے بھی مستند قرار دی جا سکتی ہے کہ یہ ان کی سفارت کاری کے دوران حاصل ہونیوالے تجربات کا نچوڑ ہے۔ یقینا امریکی سیاست میں ہنری کسنجر کے کردار کو پیش نظر رکھ کر ہی اسرائیل کے بارے میں ان کی رائے کو مستند سمجھا جاتا ہے۔ اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ امریکی خارجہ امور میں ہمیشہ اسرائیل کی خاص جگہ رہی ہے اور اسے امریکا میں مقیم طاقتور یہودی لابی کی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔
آج بھی یہی صورتحال ہے کہ اسرائیل کا فلسطینی مسلمانوں پر شدید بمباری اور بہیمانہ تشدد اور ان مظالم پر امریکا کی شرمناک خاموشی‘ ماضی میں اسرائیل کا یو این کے ایٹمی انسپکٹرز کو دھمکیاں اور اپنے ایٹمی پروگرام کے معائنے، سی ٹی بی ٹی اور دیگر ایٹمی سیکورٹی کے معاہدوں پر دستخط سے انکار ایک بگڑے ہوئے بچے کی طرح اسرائیل کا عالمی سطح پر ہر ناجائز کام کے لیے امریکی سہارا‘ ہر جگہ وہ اسرائیل کے لیے ایک سہولت کار ثابت ہوتا رہا ہے‘ اب معلوم ہوتا ہے کہ شاید امریکا خود اسرائیل اور اس کے نخروںسے تنگ آچکا ہے۔ آخر وہی رویہ جو اسرائیل اپنے ایٹمی پروگرام کے لیے اپناتا ہے‘ اسی پر تو عالمی سطح پر امریکا کا ایران سے سخت اختلاف ہے اسی تناظر میں معلوم ہوتا ہے کہ امریکا جلد ہی اپنے بچے جمورے کو ریٹائر کرنے کا خفیہ ارادہ رکھتا ہے۔
واشنگٹن انتظامیہ اور امریکی پالیسی ساز اداروں میں موجود یہودی لابی کے لیے اسرائیل کے مفادات کا تحفظ بھی مشکل ہو گا کیونکہ علاقائی اور عالمی امن کو اسرائیل کی شرانگیز سوچ ہی سے خطرات لاحق ہیں۔ اس تناظر میں اسرائیل ہی اصل فساد کی جڑ ہے جس نے مشرق وسطیٰ میں اپنی ہٹ دھرمی کی بنیاد پر آج تک امن کی فضا قائم نہیں ہونے دی اور 1978ء کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے تحت فلسطین کی آزاد ریاست تسلیم کیے جانے کے باوجود یہودی لابی نے آج تک نہ صرف واشنگٹن انتظامیہ کو اس کا باضابطہ اعلان نہیں کرنے دیا بلکہ امریکی سرپرستی میں فلسطینیوں پر مظالم کی بھی انتہاء کر رکھی ہے۔
اسرائیل نے اپنی شدت پسندانہ اور متعصبانہ سوچ کی بنیاد پر لیبیا اور ایران کی ایٹمی تنصیبات پر فضائی حملے کیے اور پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر فضائی حملے کی بھی گھناؤنی سازش تیار کی تھی جو پاک فضائیہ نے بروقت اطلاع ملنے پر مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناکام بنائی۔ سازشی قوم کا جو اپنی برگشتہ ذہنیت کے باعث مسلم دنیا کیخلاف فتنہ فساد برپا رکھنے کے درپے ہے اور امریکا کی عالم اسلام کے ساتھ مستقل دشمنی کی راہ ہموار کر رہی ہے‘ اس کی نہ صرف اگلے دس سال میں بلکہ آج بھی دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔ اگر ایک شر اور فتنے کی جڑ کاٹ کر عالمی اور علاقائی امن کی ضمانت حاصل کی جا سکتی ہے تو اس جڑ کو کاٹنا عالمی برادری کی ذمے داری بنتی ہے۔ اگر ہنری کسنجر نے 2012ء میں کہا تھا کہ آئندہ دس سال کے اندر اندر اسرئیل کا وجود ختم ہو جائے گا تو یہ زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ناقابل یقین قطعاً نہیںاس لیے واشنگٹن انتظامیہ عالمی امن و سلامتی کے درپے یہودی لابی سے جتنی جلد اپنی چھٹکارہ حاصل کرلے اتنا ہی بہتر ہو گا‘ ورنہ یہ لابی اپنے عزائم کی تکمیل کی خاطر امریکا کے ہاتھوں تیسری عالمی جنگ کی نوبت بھی لا سکتی ہے۔
امریکا کو یہ بات آج بھی معلوم ہے کہ فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم نے دل دہلا دیے، غزہ میں صہیونی فضائی حملوں میں شہادتوں کی تعداد 300سے زائد اور ان میں چھوٹے بچوں کی تعداد30اور خواتین 20فی صد ہیں، عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں، ہزاروں خاندان بے گھر ہوگئے۔ اسرائیل کا فلسطینیوں کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال جاری ہے۔ رہائشی علاقوں پر خوفناک بمباری سے فلسطینیوں کی بڑی تعداد شہید ہوگئی، شہدا میں معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ صہیونی فورسز نے بھاری ہتھیاروں سے رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا۔ عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں، ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے۔ نہتے فلسطینی اسرائیلی توپ خانے کے حملوں سے بچنے کے لیے اقوام متحدہ کے اسکول میں پناہ لے رہے ہیں۔ غزہ کے شمال مشرقی علاقوں میں اسرائیلی حملوں کے پیش نظر شہریوں نے نقل مکانی شروع کر دی۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیل نے غزہ کی سرحد پر فوج بھیجنا شروع کر دی ہے اور خبردار کیا ہے کہ وہ زمینی آپریشن شروع کر سکتا ہے۔ لیکن عالمی اخبارات کے مطابق اسرائیل کابینہ اس کی مخالفت کر رہی ہے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کی اپیل کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم نے حملے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ حماس کی جانب سے اسرائیلی شہر اشکلون اور ائر پورٹ سمیت دیگر علاقوں پر مسلسل پر راکٹوں سے دفاع کیا گیا جس میں 6 اسرائیلی اور بھارتی شہری مارا گیا لیکن عالمی اخبارات تعداد بہت زیادہ بتا رہے ہیں۔ اسرائیل میں عرب آباد کاروں اور یہودیوں میں بھی جھڑپیں ہوئیں جس کے بعد 400 سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ اقوام متحدہ نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس اتوار کو طلب کرلیا۔ اسرائیل اور فلسطین کے لیے امریکی مندوب ہادی عمر بھی مصالحت کے لیے تل ابیب پہنچ گئے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیت ہے کہ فلسطینیوں کو تاریخ کے بدترین تشدد کا سامنا ہے لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کہ: ’’راتیں طویل تو ہو سکتی ہیں لیکن نہ ختم ہو نے والی کبھی بھی نہیں‘‘۔