تصور تہوار انسانی فطرت ہے،عیدین اللہ کے حضور سجدہ بندگی و شکر لانے کا نام ہے

485

کراچی

 رپورٹ: قاضی جاوید

تصورِ تہوار انسانی فطرت ہے‘ عیدین اللہ کے حضور سجدئہ بندگی و شکر بجالانے کا نام ہے ‘ اللہ تعالیٰ کی اپنے مقبول بندوں پر اَن گنت نعمتیں اور برکتیں لوٹانے کو عید کہتے ہیں‘ اسلامی عقائد ، خالص دینی فکر اور شرعی مزاج مسلمانوں سے جاہلانہ رسوم کو یکسر ختم کرتا ہے‘ عیدالفطر کو منانے سے قبل روزے اور عیدالاضحی میں قربانی کو اہم قرار دیا گیا ہے۔ان خیالات کا اظہار معروف اسلامی اسکالر مفتی منیب الرحمن، ڈی جے کالج کے سابق پرنسپل اور اسلامی اسکالر پروفیسر حکیم اللہ بیگ چغتائی اور پروفیسر ڈاکٹر عمران خان نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ اسلام میں تہوار کا تصور کیا ہے؟‘‘ مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ خالص اسلامی فکر اور دینی مزاج کے مطابق اسلامی تمدن، معاشرت اور اجتماعی زندگی کا آغاز ہجرت کے بعد مدینہ منوّرہ میں ہوا چنانچہ 02ھ میں عیدین کا مبارک سلسلہ شروع ہوگیا تھا‘ عیدکا لفظ عودسے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں’’لَوٹنا‘‘ہے چونکہ یہ دن مسلمانوں پر بار بار لوٹ کر آتا ہے‘ اس لیے اس کو عید کہتے ہیں۔ ابن العربی نے کہا :’’ اسے عید اس لیے کہتے ہیں کہ یہ دن ہر سال مسرت کے ایک نئے تصور کے ساتھ لوٹ کر آتا ہے‘‘۔ علامہ شامی نے لکھا ہے : ”مسرت اور خوشی کے دن کو عید ’نیک شگون‘ کے طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ دن ہماری زندگی میں بار بار لوٹ کر آئے‘ چونکہ رب تبارک و تعالیٰ اس دن اپنے مقبول بندوں پر اپنی اَن گنت نعمتیں اور برکتیں لوٹاتا ہے‘ اس لیے بھی اسے عیدکہتے ہیں۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل یثرب سال میں 2 دن میلہ لگاتے تھے اور کھیل تماشے کرتے تھے۔ رسول اللہ ؐ نے یہ تہوار منع فرما دیے اور فرمایا:”اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے میں تمہیں2 بہتر دن عطا فرما دیے ہیں‘ یعنی عیدالاضحی اور عیدالفطر‘ (ابودائو)‘‘۔ اس میں اللہ کی حکمت کار فرما تھی۔ دراصل ہر چیز کا ایک مزاج اور پس منظر ہوتا ہے‘ آپ لاکھ کوشش کریں لیکن کسی چیز کو اس کی ماضی کی روایات اور تاریخی پس منظر سے جدا نہیں کرسکتے۔ پس جس چیز کی اساس منکرات و محرمات پر رکھی گئی ہو ‘ اس کی کانٹ چھانٹ اور صورت گری سے خیر پر مبنی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا اور اسلام تو آیا ہی کفر اور بدی کے اثرات کو مٹانے کے لیے ہے‘ معلوم ہوا کہ اسلامی عقائد ، خالص دینی فکر اور شرعی مزاج کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمانوں کا تعلق جاہلانہ رسوم سے یکسر ختم کردیا جائے تاکہ عہد جاہلیت کی تمام علامات سے کٹ کر ان میں صحیح دینی فکر پیدا ہو۔ پروفیسر حکیم اللہ بیگ چغتائی نے کہا کہ ہر قوم اور مذہب کے ماننے والے کسی نہ کسی طرح سال میں چنددن تہوار مناتے ہیں‘ یہ تہوار ان اقوام کی تہذیبی اقدار اور مذہبی روایات کے علمبردار ہوتے ہیں‘ یہ ایک طرح سے اُن کے شعار بن جاتے ہیں ‘ شعار کسی مذہب و ملّت کی امتیازی شناخت اور پہچان کو کہتے ہیں‘ پس اس سے یہ حقیقت ضرور واضح ہوتی ہے کہ تصورِ تہوار یا عیدالاضحی اور عیدالفطر انسانی فطرت کا تقاضا اور انسانیت کی ایک قدرِ مشترک ہے‘سعودی عرب کے قومی دن کو ”عید الوطنی‘‘ کہتے ہیں۔ مسلمان قوم چونکہ اپنے عقائد اور ملی اَقدار کے لحاظ سے دنیا کی تمام اقوام سے منفرد و ممتاز ہے‘ اس لیے ان کا عید منانے کا انداز بھی سب سے نرالا ہے۔ بدن، لباس اور روح کی طہارت، تزکیہ قلب، عجز و انکساری اور خشوع و خضوع کے ساتھ مسلمانوں کا اسلامی اتحاد و اخوت کے جذبے سے سرشار ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدئہ بندگی اور نذرانہ شکر بجالانے کا نام عید ہے‘ اسلام کے دونوں تہوار منانے سے قبل روزے اور قربانی کو اہم قرار دیا گیا ہے‘ عیدالفطر کا مقصد فطرہ کی ادائیگی ہے اور نماز عید سے قبل اس کی ادائیگی کر دی جاتی ہے‘ اس عمل سے غریب کے گھروں میں خوشی کا سماں پیدا ہو جاتا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر عمران خان کا کہنا ہے کہ جس طرح ہر قوم و ملت کی عید اور تہوار اپنا ایک مخصوص مزاج اور پس منظر رکھتے ہیں ‘ اسی طرح اسلام میں عیدین کا بھی ایک ایمان افروز پس منظر ہے‘ رمضان المبارک انتہائی بابرکت مہینہ ہے ‘ یہ ماہِ مقدس اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت و مغفرت اور عنایات و برکات کا خزینہ ہے ‘ اسے ماہ نزول قرآن ہونے کا شرف بھی حاصل ہے‘ اسلامی تاریخ میں حق و باطل کا پہلا فیصلہ کن معرکہ غزوئہ بدر اور پھر فتحِ مکہ بھی اسی مبارک مہینے میں وقوع پذیر ہوئے‘ روزے کی عظیم المرتبت عبادت کی فرضیت کا شرف بھی اسی مہینے کو عطا کیا گیا‘ تراویح کی صورت میں ایک مسنون نماز بھی اس مہینے کی روحانی بہاروں میں ایک اور اضافہ ہے اور سب سے بڑھ کر ہزار مہینوں کی عبادت پر فوقیت رکھنے والی ایک رات‘ ”لیلتہ القدر‘‘ بھی اسی رمضان میں ہے۔ جب مومن اتنی بے پایاں نعمتوں میں ڈوب کر‘ اپنے رب کی رحمتوں سے سرشار ہوکر اپنی نفسانی خواہشات ‘ سِفلی جذبات ‘ جسمانی لذّات ‘ محدود ذاتی مفادات اور گروہی تعصبات کو اپنے رب کی بندگی پر قربان کر کے سرفراز و سربلند ہوتا ہے‘ تو وہ رشکِ ملائکہ بن جاتا ہے ‘ اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے‘ باری تعالیٰ کے کرمِ خاص کا یہ تقاضا بن جاتا ہے کہ وہ پورا مہینہ اپنی بندگی میں سرشار ‘ سراپا تسلیم و اطاعت اور پیکر صبر و رضا رہنے والے بندے کے لیے اِنعام و اِکرام کا ایک دن مقرر فرما دے۔ الغرض ماہِ رمضان کی آخری رات فرمانِ رسول ؐکے مطابق ”انعام کی رات‘‘ ہے اور اللہ کے اس اِنعام واِکرام سے فیض یاب ہونے کے بعد اللہ کا عاجز بندہ سراپا سپاس بن کر شوال المکرم کی پہلی صبح کو یومِ تشکر کے طور پر مناتا ہے۔ بس یہی حقیقت ِ عید اور روحِ عید ہے لیکن اب عید ایک ایسے وقت میں آرہی ہے کہ کورونا وائرس کے خوف نے ساری اقدار کو بدل کر رکھ دیا ہے ‘ سماجی فاصلہ لازمی قرار دیا گیا ہے‘ بظاہر ابھی اس کے خاتمے کی یا خطرے کے ٹل جانے کی قطعی نوید کسی کے پاس نہیں ہے ‘ اس کے لیے ویکسین بنانے کی عالمی سطح پر کوششیں ہورہی ہیں‘ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے وطنِ عزیز‘ تمام بلادِ اسلامیہ اور عالَمِ انسانیت کو اس وبا سے عافیت‘ سلامتی اور پناہ نصیب فرمائے اور اس ابتلا سے نکلنے کے لیے نجات کا راستہ مقدر فرمائے۔