میانمر : فوجی بغاوت نے نظام تباہ ، تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ جاری

321
میانمر میں فوجی بغاوت کے خلاف شہری احتجاج کررہے ہیں۔چھوٹی تصویر میں بدھ مت کے لوگ بھی مظاہروں میں شریک ہیں

نیپیداؤ (انٹرنیشنل ڈیسک) میانمر میں یکم فروری کو ہونے والی فوجی بغاوت کے باعث ملک بھر میں سرکاری اداروں کا نظام تباہ ہوگیا۔ خبررساں اداروں کے مطابق سرکاری ریلوے کے ملازمین ہڑتال پر ہیں، جس کے باعث باغی فوج کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی ٹرینوں کو وقت پر چلانے کے قابل بھی نہیں ہوسکی ۔ فوج کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک کی ابتدا کرنے والے طبی عملے نے سرکاری طبی سہولیات کی فراہمی بند کردی ہے ،جب کہ سرکاری اور نجی بینکوں کے ملازمین کام پر نہیں آرہے ۔ یونیورسٹیاں اور دیگر تعلیمی ادارے مزاحمت کی آماج گاہ بن گئے ہیںَ ۔ چند ہفتوں کے دوران میں اساتذہ، طلبہ اور والدین نے سرکاری اسکولوں کا بائیکاٹ کیا ہے ، جس سے ابتدائی اور ثانوی تعلیم کا نظام تباہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اقتدار سنبھالنے کے 100 روز بعد میانمر کے حکمران جرنیل محض ملک کو کنٹرول کا دکھاوا کر رہے ہیں۔یہ دعوے آزاد میڈیا کو بند کرکے اور طاقت کے استعمال سے بڑے مظاہروں کو کچلنے کے ذریعے قائم ہیں۔ مقامی تنظیموں کے اعداد و شمار کے مطابق سیکورٹی فورسز کی جانب سے اب تک 750 سے زائد مظاہرین اور راہگیر ہلاک کیے جاچکے ہیں۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل باچلیٹ نے میانمر کی صورتحال کو سنگین قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ میانمر کی معیشت، تعلیم اور صحت کے انفرااسٹرکچر کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے ، جس سے میانمر کے لاکھوں باشندے معاش، بنیادی ضروریات سے محروم ہو رہے ہیں ، جبکہ غذائی تحفظ کو بھی سنگین خدشات ہیں۔