سلامتی کونسل سے بے سود مطالبات

424

ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں مسلمان نہایت تکلیف دہ صورتحال میں عیدالفطر منا رہے ہیں، اس وقت انہیں امت مسلمہ کے اعتماد کی ضرورت تھی تاہم دنیا کے ساٹھ ممالک نے ایک ہنگامی کانفرنس میں مطالبہ کیا ہے کہا قوام متحدہ کی سلامتی کونسل فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت پر اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کرے۔ لیکن سلامتی کونسل اقدامات کیوں اور کیسے کرے… اس کو کون سی مجبوری ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف یاس کوئی قدم اٹھائے جس سے سلامتی کونسل کی سلامتی کے ذمے دار ممالک نارض ہو جائیں۔ ان 60 ممالک میں سے کسی ملک نے اس اجلاس کے بعد سے اب تک سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی باضابطہ درخواست نہیں دی۔ کم ازکم اس کی اطلاع سامنے نہیں آئی ہے۔ تین چار روز قبل تیونس نے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرنے اور فلسطین کا مسئلہ حل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن اس پر بھی کوئی کارروائی نظر نہیں آئی۔ سلامتی کونسل کا تو حال یہ ہے کہ 2016ء میں بھی فلسطین مظالم کے خلاف ایک قرارداد منظور کی گئی تھی لیکن اس قرارداد میں کیا کہا گیا تھا؟ قرارداد نمبر 2334 میں 1967ء سے فلسطینیوں کی زمین پر اسرائیلی بستیوں کی تعمیر پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس قرارداد کے حق میں چین، فرانس، روس اور برطانیہ نے تو ووٹ دیا لیکن امریکا اجلاس میں نہیں آیا تھا۔ ویٹو پاور کا حامل ملک نہ آئے تو قرارداد موثر کیسے ہوگی۔ سیکیورٹی کونسل کی اس قرارداد میں بھی یہی کمنٹری کی گئی تھی کہ اسرائیل بستیاں غیر قانونی ہیں۔ دنیا ان پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا۔ یہ مسئلہ حل کیسے ہوگا۔ جن 60 ممالک نے سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کرے ان کو چاہیے کہ عرب لیگ کے اسرائیل بائیکاٹ والی مہم دوبارہ شروع کریں اس مہم کے ذریعے تمام اسلامی ممالک خصوصاً عرب ممالک نے اسرائیلی مصنوعات، اسرائیلی کمپنیوں اور ہر شعبے میں اس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تھا اور یہ بائیکاٹ اس قدر کامیاب تھا کہ امریکا کو اسرائیل بائیکاٹ کے مقابلے میں مہم چلانا پڑی اور مشرق وسطیٰ میں بڑے بڑے ٹھیکے دیتے وقت بین الاقوامی کمپنیوں سے یہ وعدہ لیا جاتا تھا کہ وہ ان کو ٹھیکا اس بنیاد پر دیا جا رہا ہے کہ وہ کسی قسم کی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کریں گی اور ایسا کرنے پر ان کا ٹھیکا منسوخ ہو جائے گا۔ لیکن اب تو الٹی مہم چل رہی ہے۔ فلسطین بائیکاٹ مہم اور معاشی پابندیاں بھی اب مسلمان ملکوں پر ہیں کہ ڈالر چاہییں تو اسرائیل کو تسلیم کرو۔ معاشی مشکلات سے نکلنا ہے تو اسرائیل کی مخالفت ترک کرو۔ البتہ مسلم حکمرانوں کے مقابلے میں اسلامی تحریکوں نے اچھا قدم اٹھایا ہے اور عید الفطر کو یوم فلسطین کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ جماعت اسلامی، اسلامی جمعیت طلبہ اور دیگر مذہبی تنظیموںنے بھی عیدالفطر پر فلسطینیوں سے یکجہتی کا اعلان کیا ہے لیکن اصل کام مسلم حکمرانوں کو کرنا ہے۔