ایک وہ وقت تھا

424

برطانیہ میں برٹش فلم انسٹیٹیوٹ (BFI) کا شعبہ نیشنل آرکائیو ARCHIVE یہ دنیا کا سب سے بڑا فلم آرکائیو ہے جو نیشنل فلم لائبریری کے نام سے 1935ء میں قائم ہوا تھا۔ 1992ء تک یہ نیشنل فلم آرکائیو بھی رہا لیکن پھر بعد میں 2006ء میں اسے نیشنل آرکائیو بنادیا گیا۔ اب اس آرکائیو میں دنیا بھر کی تاریخی اور نایاب فلمیں جن میں اب ٹی وی کی دستاویزی فلمیں اور دیگر پروگرام شامل ہیں یہ بھاری تعداد میں یہاں موجود ہیں۔ BFI کی فلمیں اب انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں جو کہ دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس آرکائیو میں قیام پاکستان کے بارے میں بھی نایاب فلمیں اور دستاویزات کی تفصیل بھی موجود ہے۔ قیام پاکستان کے بعد یکم فروری 1961ء کو برطانوی ملکہ الزبتھ دوم اور ان کے شوہر ڈیوک آف ایڈنبرا پرنس فلپ نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا۔ قیام پاکستان کے بعد یہ کسی برطانوی حکمران کا پہلا دورئہ پاکستان تھا اس دورے کے بعد ملکہ برطانیہ بھارت کے دورے پر روانہ ہوئیں۔ یہ دورہ تاریخی اور یادگار تھا اس دورے کی مکمل فلم BFI کے پاس محفوظ ہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد نومبر 1966ء میں صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے برطانیہ کا سرکاری دورہ کیا اس دورے کی دعوت خصوصی طور پر ملکہ برطانیہ نے دی تھی۔ اس تاریخی دورے کی مکمل فلم اب BFI نے انٹرنیٹ پر ریلیز کردی ہے۔ اس فلم کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی میں پاکستان کی دنیا میں کیا اہمیت تھی اور پھر مملکت پاکستان کے سربراہ کو کس قدر عزت و احترام اور بھرپور پروٹوکول فراہم کیا گیا تھا۔ لندن میں ملکہ برطانیہ اپنے شوہر کے ہمراہ خود فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا پرتپاک استقبال کرتی ہیں۔ برٹش فوج کے جوان صدر پاکستان کو سلامی پیش کرتے ہیں اور گارڈ آف آنرز پیش کیا جاتا ہے۔ لندن کے علاوہ صدر پاکستان کو اسکاٹ لینڈ کا دورہ کروایا جاتا ہے۔ برطانیہ کی ملکہ کی سرکاری ٹرین کے ذریعے وہ سفر کرتے ہیں گلاسکو، مانچسٹر اور دیگر شہروں کے علاوہ انتہائی اہم مقامات پر صدر پاکستان کو برطانوی فوجی حکام دورہ کرواتے ہیں۔ لندن کی اہم شاہراہوں کو پاکستان اور برطانوی جھنڈوں سے سجایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم اپنے شوہر ڈیوک آف ایڈنبرا پرنس فلپ کے ہمراہ شاہی بگھی میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کو لے کر لندن کی اہم شاہراہوں سے گزرتی ہیں۔ ویسٹ منسٹر اسکوائر سے گزر کر ٹریفلگر اسکوائر اور پھر برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ ڈائوننگ اسٹریٹ سے ہو کر بکگھم پیلس جاتی ہیں۔ پیلس میں صدر پاکستان کے اعزاز میں ملکہ برطانیہ عشائیہ دیتی ہیں، اس کے علاوہ لندن کے گلڈ ہال میں بھی استقبالیہ تقریب ہوتی ہے، لندن کی سڑکوں پر دونوں جانب تارکین پاکستان کے علاوہ برطانوی شہریوں کی بہت بڑی تعداد برطانوی اور پاکستانی پرچم تھامے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا استقبال کرتی ہے۔ گو کہ صدر پاکستان فوجی جرنیل تھے اور وہ مارشل لا کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے اس کے بعد وہ صدر مملکت بنے۔ مغربی ممالک میں صدر پاکستان کو جو عزت و احترام ملا اس کی اصل وجہ ان کی وہ قومی خدمات تھیں جس کے تحت پاکستان نے اس پورے دور میں ریکارڈ ترقی کی، پاکستان کا ہر شعبہ ترقی کی راہ پر گامزن تھا، سیاسی طور پر یقینا کرپشن تھی، مگر قومی ادارے اس قدر نہ تو غیر فعال تھے اور نہ ہی بدعنوانی کا کوئی عنصر منظر عام پر آیا تھا۔ 1968ء میں صدر ایوب خان کے عہد اقتدار کے 9 سال مکمل ہوئے تو پورے ملک میں جشن عشرئہ اصلاحات منایا گیا۔ اس موقع پر بینکاری، زراعت، آبپاشی، ریلوے، جہاز رانی، صنعت و حرفت، سیاحت و ثقافت، آئین اور نظم و نسق کے جملہ شعبوں میں تعمیر و ترقی کے تفصیلی نقوش پورے ملک میں اجاگر کیے گئے۔ اس سلسلے میں ایک خصوصی ٹرین بھی چلائی گئی تھی جو پورے ملک میں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے عوام کو آگاہی فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوئی۔ اس پورے
دور کو 10 سالہ دور ترقی کا نام دیا گیا تھا، اصل حقیقت بھی یہ ہے کہ اس دور میں یقینا ریکارڈ سطح کی ترقی ہوئی اور ملک میں صنعتی پہیہ رواں دواں تھا۔ بیرون ملک پاکستان کو زرعی اور صنعتی شعبے میں اُبھرتا ہوا ملک قرار دیا جانے لگا تھا۔ پی آئی اے ہی کی مثال لے لیں متحدہ عرب امارات اور مالٹا کی ائرلائنز کو بنانے میں پی آئی اے کا کلیدی کردار تھا اس دور میں 22 خاندانوں کا تذکرہ ضرور ہوتا تھا مگر پھر بھی قومی دولت کم از کم محفوظ ہاتھوں میں تھی، کرپشن برائے نام تھی، بدترین خاندانی آمریت کا کوئی تصور بھی نہ تھا، نسل در نسل حصولِ اقتدار کی ہوس بھی نہ تھی، سیاسی جماعتوں میں آپس کے اختلافات ضرور پائے جاتے تھے لیکن سیاست میں عزت و احترام اپنی جگہ برقرار ہوا کرتا تھا، سیاستدانوں پر مالی کرپشن کے الزامات نہ ہونے کے برابر تھے، لوٹ مار اور اقربا پروری کا کوئی وجود نہ تھا، لیکن اس کے باوجود ایوب خان کے مارشل لا کے نفاذ کے تھوڑے عرصے بعد سیاست دانوں کو بے اثر کرنے اور انہیں عوامی نمائندگی سے محروم کرنے کی غرض سے دو قوانین نافذ ہوئے، ان میں پہلا قانون پوڈو (پبلک آفسز ڈس کوالیفکیشن آرڈر) اور دوسرا قانون ایبڈو (الیکٹوباڈیز ڈس کوالیفکیشن آرڈر) کہلایا، پوڈو کا قانون تو چند ماہ بعد ہی غیر موثر ہوگیا مگر ایبڈو زیادہ موثر اور زیادہ جامع ہونے کی وجہ سے زیادہ سخت جان ثابت ہوا، ایبڈو کا قانون 7 اگست 1959ء کو نافذ ہوا مگر اس کا اطلاق ان تمام افراد پر ہوتا تھا جو 14 اگست 1947ء کے بعد کسی بھی سیاسی عہدے پر فائز رہے ہوں یا کسی بھی منتخب اسمبلی کے رکن بنے ہوں، اس طرح ایبڈو کا قانون 31 دسمبر 1966ء کو اپنی مدت پوری کرکے ختم ہوگیا اس پورے عمل میں دلچسپ امر یہ ہے کہ جن تمام سیاستدانوں پر پابندی عائد ہوئی ان پر کسی بھی قسم کے نہ تو مالی بے ضابطگیوں کے الزام تھے نہ ہی وہ کسی قسم کی دوسری کرپشن میں ملوث تھے، قومی خزانے میں خیانت کا کوئی تصور بھی نہ تھا، لیکن اب صورتِ حال مختلف ہے، ملک میں جمہوریت تو ہے جیسی بھی ہے
دوسری جانب خود سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ خاندانی آمریت ہر سیاسی جماعت میں موجود ہے اور پھر ساتھ ہی جن سیاسی جماعتوں نے ماضی میں حکمرانی کی ہے وہ پوری طرح کرپشن میں ملوث ہیں یعنی دو سابقہ حکمران جماعتوں کے قائدین جو خاندانی آمریت سے پہچانے جاتے ہیں وہ ہر طرح سے مالی بدعنوانیوں میں ملوث پائے گئے ہیں، پوری دنیا جانتی ہے مغربی اخبارات میں ان کی لوٹ مار اور قومی خزانے میں خیانت کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹس اور پورے پورے صفحے کے فیچر شائع ہوچکے ہیں۔ بینظیر بھٹو سے شروع ہوجائیں، میاں نواز شریف، یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف اور آصف علی زرداری یہ سب سرکاری دورے پر برطانیہ آتے رہے ہیں، محض دو تین گھنٹوںو پر محیط ملاقات برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ 10 ڈائوننگ اسٹریٹ پر برطانوی وزیراعظم سے کرتے رہے ہیں۔ شاید ہی کبھی کسی کو اعلیٰ سطح کا پروٹوکول برطانوی حکومت نے دیا ہو۔ بینظیر بھٹو کو ضرور بکھگم پیلس ملکہ برطانیہ نے چائے پر بلایا تھا باقی کسی بھی وزیراعظم کو نہ تو اعلیٰ سطح کا پروٹوکول دیا گیا اور نہ ہی ان کے سرکاری دوروں کی کوئی اہمیت ہی ہوتی تھی کیوں کہ برطانوی حکومت اور برطانوی ادارے یہ جانتے ہیں کہ ان کی جائدادیں اور اثاثے برطانیہ میں ہیں اور یہ ان سرکاری دوروں کو اپنے نجی مالی امور کی غرض سے سفارتی ذرائع استعمال کرکے ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف اب لندن میں موجود ہیں، تین مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں، وہ اپنے سمدھی اسحاق ڈار اور اپنے صاحبزادوں کے ہمراہ BFI کی وہ فلم ضرور دیکھیں کہ جس میں پاکستان کے سابق صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دورۂ برطانیہ کے بارے میں مکمل تفصیل موجود ہے، گو کہ یہ 1966ء کی دہائی کی بات ہے اس پر غور کریں کہ ایک وہ وقت تھا کہ دنیا پاکستان کو اور ان کے سربراہ کو اتنی عزت دیتی تھی، آج آپ برطانیہ میں برطانوی حکومت کے رحم و کرم پر ہیں کیا آپ نے کبھی سوچا کہ اپنی دولت کا کچھ حصہ کورونا کے مریضوں کے لیے وقف کردیں۔