مسجد اقصیٰ کی پکار

305

رمضان المبارک میں قیام الیل کے دوران اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں پر دھاوا بول دیا، مسجد کی بے حرمتی کی، نمازیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا، ربڑ کی گولیوں اور اسٹین گرینڈ سے فلسطینی بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کو زخمی کیا، اور ایسا زخمی کیا کہ بینائی سے محروم کردیا۔ مسجد اقصیٰ کے باب سلسلہ کو تالے لگائے، مسجد کے لائوڈ اسپیکر کے تار کاٹ دیے، مسجد کے اندر گھس کہ نمازیوں کو وحشیانہ طور پر گھسیٹا، دو سو سے زائد لوگوں کو زخمی اور دو کو شہید کردیا۔ یہ معاملہ پچھلے 10 دنوں سے جاری ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف پچھلے دس روز سے اسرائیل نے کریک ڈائون کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا۔ جس کا مقصد شیخ جراح کے محلے میں فلسطینیوں کے گھروں، دکانوں اور کاروبار پر قبضہ کرنا ہے۔ اس علاقے میں فلسطینی خاندان پچھلے ستر اسّی سالوں سے رہائش پذیر ہیں۔ لیکن اب دس دن قبل اسرائیلی سپریم کورٹ اور یہودی آباد کار ایسوسی ایشن کے درمیان ایک مقدمے کی سماعت کے بعد فلسطینیوں سے اس جگہ کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ مقدمہ فلسطینی خاندانوں کے خلاف طویل عرصے سے جاری ہے جس کے باعث فلسطینیوں کو اپنے ہی گھر سے بے دخل کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے۔ شیخ جراح کا محلہ دمشق دروازے کے قریب اور پرانے یروشلم کی دیواروں کے بالکل باہر واقع ہے۔ اس علاقے میں فلسطینیوں کے ہوٹل، ریستوران، مکانات اور رہائشی عمارتیں شامل ہیں۔ اب اسرائیل عدالتی فیصلوں کے ذریعے اس سارے علاقے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تا کہ مشرقی یروشلم میں اسرائیلی آباد کاروں کی تعداد بڑھائی جاسکے۔ خاص طور پر اس وجہ سے کہ فلسطینی چاہتے ہیں کہ مشرقی یروشلم اُن کی آئندہ ریاست کا دارالحکومت بن جائے، دنیا کے بیشتر ممالک اور اقوام متحدہ کی قراردادیں اسرائیلی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیتی ہیں۔ اس وقت بھی اقوام متحدہ اسرائیل سے کہہ رہا ہے کہ اُسے کسی بھی قسم کی فلسطینی بے دخلی کے اقدامات کا ارادہ ملتوی کردینا چاہیے۔ جی ہاں صرف ملتوی… لیکن اسرائیل نے یہ دھیمی دھیمی تنبیہ بھلا کہاں سنی ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم نے عالمی برادری کو فلسطینیوں کے حقوق کے فوری اقدامات کرنے کے لیے کہا ہے۔ ترکی کے صدر نے بھی اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ اسلامی تعاون تنظیم اور تمام متعلقہ اداروں کو فوری کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کچھ دیگر اسلامی ممالک نے بھی اسرائیل کی مذمت کی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بیانات اور مطالبات مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر تشدد روکنے میں اثر انداز ہوں گے؟ سچ یہ ہے کہ اسرائیل کو صرف طاقت کی زبان سے بات سمجھائی جاسکتی ہے۔ مسلم اُمہ کا اتحاد پورے زور سے اپنی بات منواسکتا ہے۔ لیکن افسوس کہ معاملہ یہ ہے کہ مسلم ممالک اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی دوڑ میں لگے ہیں۔ سعودی عرب، مصر اور دوسرے خلیجی بادشاہت والے ممالک اشارہ دے رہے ہیں کہ فلسطین کو الگ ملک بنانے کا مطالبہ اب ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے اور وہ مستقبل میں ایسا ہونے کا امکان بھی نہیں دیکھ رہے ہیں۔ سعودی ولی عہد تو صاف صاف فلسطینیوں سے کہہ چکے ہیں کہ فلسطینیوں کو اسرائیل اور امریکا کی طرف سے دی جانے والی امن کی تجاویز قبول کرنا چاہیے ورنہ انہیں خاموش رہنا چاہیے۔
سابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ایسے حوصلہ افزا حالات میں پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ وہ مغربی کنارے کا ایک تہائی حصہ اسرائیل میں ضم کردیں گے۔ وہ اس کام کو تاخیر کی نذر اس لیے کرتے رہے کہ عرب ممالک ایک کے بعد ایک اسرائیل کو تسلیم کررہے تھے۔ شیخ جراح میں فلسطینیوں کو اپنے کاروبار اور گھروں سے بے دخل کرنے کا مقصد فلسطینی آبادی کے گھروں اور جائدادوں پر قبضہ ہے۔ تا کہ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے قریب سے فلسطینیوں کو نکال دیا جائے۔ کسی ہنستے بستے خاندان کے گھر کو مسمار کردینا، گھر کے سامان کو تباہ کرنا اور گھر والوں کو بے گھر کرنا دنیا میں کہیں بھی ایک بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے، لیکن اسرائیل میں یہ اتنا ہی آسان اور سہل ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ مجرم بھی بے گھر اور بے در کیے جانے والے خاندان کو ہی ٹھیرایا جاتا ہے۔ اکثر تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ گھر کے لوگوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ یہی شیخ جراح کی بستی میں کیا گیا۔ وہاں کے ایک رہائشی 76 سالہ بوڑھے نبیل، ان کی اہلیہ اور بچے ان درجنوں فلسطینیوں میں شامل ہیں جن کے متعلق اسرائیلی عدالت نے فیصلہ سنایا ہے کہ اُن کے گھر یہودی آباد کاروں کی اراضی پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ حالاں کہ نبیل اور دیگر فلسطینی اُس قصبہ میں 70 سال سے رہائش پذیر ہیں۔ دراصل یہ مقدمات مشرقی یروشلم میں آبادکاروں کی تعداد بڑھانے کے منصوبے کے لیے ایک حکمت عملی کے طور پر چلائے جارہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں حماس کے سیاسی شعبے کے سینئر رکن ڈاکٹر محمود الزھار کا مشورہ نہایت بروقت اور صائب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عالم اسلام بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کو غاصب یہودیوں کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے باقاعدہ فوج تشکیل دے۔ بیت المقدس کو قابض دشمن کے قبضے سے آزاد کرنے کا واحد راستہ عرب اور اسلامی دنیا کی مشترکہ فوج کی تشکیل ہے۔ محمود الزھار کے اس مشورے پر تمام اسلامی ممالک کے حکمران کان دھریں تا کہ مسجد اقصیٰ آزاد ہو۔ اس کا اعلان ہی اسرائیل کے لیے ایک اہم پیغام ہوگا۔ یوں تو سچ یہ ہے کہ بارود کی پرتشدد فضا میں فلسطینیوں کی نماز عشق کی ادائیگی اور مسجد اقصیٰ کے امام کے اس بیان میں بھی اسرائیل کے لیے پیغام ہے کہ فلسطینی شہری مسجد اقصیٰ میں اعتکاف کا سلسلہ جاری رکھیں اور مسجد پر یہودی حملوں کو ناکام بنانے کے لیے قبلہ اوّل کی طرف رخت سفر باندھیں۔