ستائیس واں سبق: فکرِ آخرت

458

مطالعہ قرآن: ’’اگر تم نے انکار کیا تو اس دن سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا بنا دے گا؟ اور (اس دن) آسمان پھٹ جائے گا، اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ یہ ایک نصیحت ہے، پس جو چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کر لے‘‘۔(المزمل:71-19)
ان آیات میں قیامت کے اس ہولناک دن کا تذکرہ ہے جس کی تفصیل 1441 سال پہلے صادق و مصدوق ؐنے خبر دی کہ میں نے آگ دیکھی ہے دھڑکتی، بھڑکتی، شعلے اگلتی، جسم و جاں سے چمٹ جانیوالی،دنیا کی آگ سے 69 فی صد زیادہ گرم اس جہنم میں داخل ہونے والوں کے لیے آگ کا لباس، آگ کے بستر، آگ کے سائبان، آگ کی بیڑیاں،آگ کی زنجیریں، آگ میں تپائے دھکائے ہوئے لوہے کے کروڑوں ٹن وزنی ہتھوڑے اور گرزہیں، ڈسنے کے لیے اونٹ کے برابر آگ میں پیدا ہونے والے سانپ اور خچروں کے برابر بچھو ہیں، کھانے کے لیے آگ میں پیدا ہونے والا تھوہر کا درخت، پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی، بدبودار زہریلی پیپ اور خون۔ منادی پکار رہا ہے بار بار پکار رہا ہے یہ خبر سچی ہے یا جھوٹی اگر سچی ہے تو جھٹلانے والو سوچو ’’ہلاکت ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے‘‘۔
عقیدہ آخرت: اجزائے ایمان میں عقیدہ آخرت کی حیثیت سب سے اہم وزیادہ ہے کیونکہ مقتضائے ایمان پر عمل کا جذبہ اسی عقیدے کے اثر سے پیدا ہوتا ہے ،آخرت پر ایمان اسلامی عقائد میں وہ بنیادی عقیدہ ہے جس نے دنیا کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور جس نے آسمانی تعلیم پر عمل کرنے والوں کو پہلے اخلاق و اعمال میں اور پھر دنیا کی سیاست میں بھی تمام اقوام عالم کے مقابل امتیازی مقام عطا فرمایا یہ عقیدہ تمام انبیا و ادیان سابقہ میں مشترک اور متفق علیہ چلا آرہا ہے ۔اس کی وجہ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کے سامنے صرف دنیا کی زندگی اور اس کی عیش وعشرت انتہائی مقصود ہے، اسی کی تکلیف کو تکلیف اور راحت کو راحت سمجھتے ہیں اور آخرت کی جزا وسزا کو نہیں مانتے تو انہیں حلال و حرام، جائز و ناجائز سے روکنے والی کوئی چیز باقی نہیں رہتی حکومت کے قوانین انسداد جرائم اور اصلاح اخلاق کے لیے کافی نہیں ہاں وہ صرف عقیدہ آخرت اور خوف خدا ہی ہے جس کی وجہ سے انسان کی ظاہری و باطنی جلوت و خلوت کے اعمال یکساں ہوسکتے ہیں وہ یقین رکھتا ہے کہ مکان کے بند دروازوں اور رات کی تاریکیوں میں کوئی دیکھنے والا مجھے دیکھ رہا ہے، کوئی لکھنے والا میرے اعمال لکھ رہا ہے، یہی وہ عقیدہ تھا جس پر عمل کے نتیجے میں ابتدائے اسلام میں ایسا پاکباز معاشرہ وجود میں آیا کہ جن کی صورت، اعمال و افعال، اخلاق و کردار دیکھ کر لوگ دل وجان سے اسلام کے گرویدہ ہوجاتے تھے سورہ بقرہ میں بِالآ خِرَۃِ کے ساتھ یُومِنُونَ کے بجائے یُوقنُونَ فرمایا کیونکہ ایمان کے مقابل تکذیب ہے اور ایقان کے مقابل شک وتردد ہے۔ مطلب یہ کہ آخرت پر تصدق سے مقصد پورا نہیں ہوتا بلکہ اس کا ایسا یقین ہونا ضروری ہے جیسے کوئی چیز آنکھوں کے سامنے ہو۔اگر کوئی حرام کماتا اور کھاتا ہے، دھوکا دینے میں لگا ہوا ہے، سودی کاروبار کرتا ہے، رشوت لیتا ہے، دوسرے کا مال غصب کرتا ہے۔ وہ ہزار بار ایمان لانے کا اقرار کرے اور ظاہری طور پر اسے مومن کہا بھی جائے، مگر قرآن جس ایقان کا مطالبہ کرتا ہے وہ اسے حاصل نہیں اور وہی انسان کی زندگی میں انقلاب لانے والی چیز ہے جس کا لازمی نتیجہ آخرت میں فلاح کا حصول ہے۔
مطالعہ حدیث: سیدنا عَمرو بن العاص اپنی محفلوں میں اکثر فرمایا کرتے تھے ’’معلوم نہیں کہ مرنے والے اپنے آخری وقت کی کیفیت کیوں بیان نہیں کرتے؟ جب ان پر جان کنی کا عالم طاری ہوا تو بیٹے نے کہا: اباجان! اب آپ ہی اپنی کیفیت بیان کردیں آپؓ نے فرمایا بیٹے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے میرا جسم آگ کے تختے پر ہے، سوئی کے ناکے سے سانس آرہا ہے اور ایک پہاڑ میرے سینے پر رکھ دیا گیا ہے‘‘۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’لذات کو ختم کردینے والی چیز کو کثرت سے یاد کرو‘‘۔ (صحابہ کرام فرماتے ہیں) ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ لذَّات کو ختم کردینے والی چیز کیا ہے؟ نبی کریم ؐ نے فرمایا وہ موت ہے ۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: دنیا روز بروز منہ پھیرتی جارہی ہے اور آخرت روز بروز قریب آتی جارہی ہے، اور دنیا و آخرت میں سے ہر ایک کی مستقل اولاد ہے، پس تم آخرت کی اولاد بنو دنیا کی اولاد مت بنو۔
سیرتِ صحابہ: رسول اللہؐ کے خلیفہ بلافصل امیر المؤمنین ابوبکر صدیقؓ آخرت کے بارے میں اتنے فکر مند رہتے تھے کہ فرمایا کرتے کاش میں کسی مومن کے جسم کا بال ہوتا (کہ حساب کتاب سے بچ جاتا)۔ کبھی فرماتے کاش میں کوئی درخت ہوتا جو کاٹ ڈالا جاتا اور لوگ اس کا پھل کھا جاتے۔ کاش میں گھاس ہی ہوتا جسے جانور چر لیتے۔کچھ ایسی ہی کیفیت امیر المومنین عمر بن خطابؓ کی تھی۔ ایک مرتبہ سورۃ الطور کی تلاوت فرما رہے تھے۔ جب اس آیت پر پہنچے اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِع ’’بے شک تیرے رب کا عذاب واقع ہونے والا ہے‘‘۔ تو اتنا روئے کہ شدت گریہ سے بیمار پڑ گئے اور لوگ عیادت کے لیے آتے رہے۔ فرمایا کرتے میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میں اس طرح نجات پا جاؤں کہ نہ اجر ملے اور نہ سزا، (بس برابر برابر پر ہی بات ختم ہو
جائے) امیرالمومنین عثمانؓ کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اتنا روتے کہ ڈاڑھی بھیگ جاتی اور کہا کرتے اگر میں جنت اور جہنم کے درمیان اس حال میں کھڑا ہوں کہ مجھے کچھ علم نہ ہو کس طرف جانے کا حکم ہو گا تو میں اپنا ٹھکانہ جاننے سے پہلے دھول مٹی ہو جانا پسند کروں گا۔امیر المومنین علی بن ابی طالبؓ دنیا کے فتنے سے خوفزدہ رہتے تھے۔ فرمایا کرتے لمبی امیدیں لگانے اور نفس کے پیچھے چلنے سے بچو۔ لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں اور نفس کے پیچھے چلنا حق سے روک دیتا ہے۔ سن لو، یہ دنیا منہ موڑ کر جا رہی ہے اور آخرت چل پڑی ہے اور آ رہی ہے، ان دونوں کے کچھ بیٹے ہیں، پس تم آخرت کے بیٹے بنو، دنیا کے بیٹے مت بننا۔ آج عمل کا وقت ہے کوئی حساب نہیں اور کل حساب ہو گا اور کوئی عمل نہیں۔ابو درداءؓ فرمایا کرتے ’’تھے مجھے قیامت کے دن سب سے زیادہ ڈر اس بات کا ہے کہ مجھے یہ نہ کہہ دیا جائے اے ابو درداء ! یہ تو بتا کہ تو نے جو علم سیکھا تھا اس پر عمل کتنا کیا‘‘؟ اور کہتے اگر تم لوگ جان لو کہ موت کے بعد تمہارا کن چیزوں سے واسطہ پڑنے والا ہے تو نہ مزے سے کھا پی سکو نہ گھروں کے سائے میں داخل ہو بلکہ اپنے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے اور اپنے آپ پر روتے ہوئے بیابانوں کو نکل کھڑے ہو، ہائے کاش میں کوئی درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا اور جانور اسے کھا لیتے۔ابن ابی ملیکہؓ بیان کرتے ہیں’’میں نے تیس صحابہ کرامؓ سے ملاقات کی، وہ سب اپنے اوپر نفاق کے فتنے سے خوفزدہ رہتے تھے کوئی بھی یہ نہیں کہتا تھا کہ میرا ایمان جبرائیل اور میکائیل جیسا ہے‘‘۔ حسن بصری کا قول ہے نفاق سے وہ ڈرے گا جو مومن ہے اور اس سے اطمینان میں وہی ہو گا جو خود منافق ہے۔ (امام ابن القیمؒ کی کتاب الجواب الکافی لمن سال عن الدواء الشافی سے انتخاب)