یوم مئی اور محنت کشوں کے مسائل

327

رسول اللہ ؐنے فرمایا:- تین آدمیوں کا میں دشمن ہوں، ان میں سے ایک وہ ہے جو مزدور سے کام لے اور مزدوری نہ دے۔ پاکستان اور دنیا کے دوسرے ممالک کے مزدور ’’یوم مئی‘‘ کے موقع پر شکاگو کے محنت کش رہنمائوں اور ان کے ہزاروں جانشینوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے 1886ء میں دنیا کے مختلف ممالک کی مزدور تحریکوں میں انسانیت کی بقاء کے لیے اپنی جانیں قربان کردیں۔ پاکستان میں بھی یہ دن بڑے عزم اور وقار کے ساتھ منایا جاتا ہے اور ملک بھر کی مزدور تنظیمیں اس موقع پر اپنے اس عزم کا اعادہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے جائز حقوق کے تحفظ اور منصفانہ نظام معیشت کی تعمیر کے لیے اپنی تاریخی جدوجہد جاری رکھیں گی۔ مزدور طبقہ دنیا کے ہر ملک میں ایک مؤثر طاقت بن گیا ہے اور صنعتی ترقی کے عمل نے تیسری دنیا میں بھی مزدور تحریک کو مضبوط اور فعال بنادیا ہے۔ اس طبقے نے نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے لیے قومی آزادی کی تحریکوں میں بڑا سرگرم اور قابل فخر کردار ادا کیا ہے اور نوآزاد ملکوں میں مزدور طبقے نے نہ صرف اپنی محنت شاقہ سے معیشت کو ترقی کے تصور سے ہمکنار کیا ہے بلکہ استحصال کرنے والوں اور ظالموں کے خلاف بھی بڑی دلیری اور جرأت مندی کا ثبوت دیا ہے۔ ہمارے اپنے وطن میں بھی مزدوروں نے اپنے کسان بھائیوں اور غریب عوام کے ساتھ مل کر بحالی جمہوریت کی جدوجہد میں قابل فخر کردار ادا کیا ہے اور یہ انہی کی کوشش کا ثمر ہے کہ پاکستان میں عوام کی ایسی نمائندہ حکومت معرض وجود میں آئی ہے جو عوام کو معاشی و معاشرتی عدل سے بہرہ ور کرنے کے عہد پر کاربند ہے۔ یکم مئی جو کہ مزدوروں کا عالمی دن کہلاتا ہے اس کی ابتداء اصل میں اوقات کار میں کمی کی جدوجہد کے لیے 1886ء میں ہوئی تھی۔ یہ تحریک بہت تیزی کیساتھ پوری دنیا کے مزدوروں کی جدوجہد میں عظیم سنگ میل کی حیثیت اختیار کرگئی۔ پہلی مرتبہ محنت کشوں نے سرحدی حدود سے بالا تر ہو کر اسی روز اپنے مشترکہ مطالبات کے لیے اپنی عالمی یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا۔ 1880ء کی دہائی کا عرصہ وہ دور کہلاتا ہے جب یورپ، امریکا، جاپان اور آسٹریلیا میں مزدوروں کی تنظیمیں پورے جوش و خروش کے ساتھ ابھررہی تھیں اور مزدور تحریک عالمی پیمانے پر جدوجہد کی شکل میں سامنے آنے لگی۔ بیشتر ملکوں میں پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر مزدوروں کی ہڑتالیں ہوئیں۔ سب سے پہلی ہڑتال جاپان کے شہر ٹوکیو میں 1882ء میں ٹرام کے مزدوروں نے کی۔ 1885ء میں روس کے سب سے بڑے کارخانے میںہڑتال ہوئی۔ 1886ء میں فرانس کے کوئلے کے کان کنوں نے ہڑتال کی۔ دن میں آٹھ گھنٹے محنت کا تعین سب سے پہلے 1884ء میں نیوزی لینڈ کی نوآبادیاتی کمپنی میں ہوا اور اسی طرح آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریا میں راج مزدوروں کے لیے 8گھنٹے محنت کا تعین ہوا۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ جہدوجہد صنعتی انقلاب کے بعد آجروں اور سرمایہ داروں کے مزدوروں پر کیے جانے والے ظلم کا نتیجہ تھی کیونکہ مزدور طرح طرح کے مصائب کا شکار تھے اور اُن کی کوئی قدر نہ تھی، انہیں ان کے جائز حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا تھا اور اوقات کار نہ ہونے کے سبب مزدوروں سے اٹھارہ گھنٹے تک روزانہ کام لیا جارہا تھا۔ سہولتوں کے فقدان اور طرح طرح
کے مظالم نے مزدوروں کو اپنے حقوق کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔ کچھ مزدوروں نے مل کر اپنے حقوق اور مطالبات کو منوانے کے لیے جدوجہد شروع کردی۔ سرمایہ داروں نے جب یہ دیکھا کہ مزدور متحد ہورہے ہیں تو اُنہوں نے مزدور تحریک کو دبانے کی غرض سے حکومت سے گٹھ جوڑ کرلیا اور سازشوں کے تحت کانوں کے مالکوں نے مزدوروں کی تنظیم کے کارکنوں کو پھانسی دے دی اور ان کی جدوجہد کو ختم کرنے کے لیے ان کے رہنمائوں کو ملک بدر کردیا۔ اس کے باوجود مزدوروں کے حوصلے پست نہ ہوئے۔ یکم مئی 1886ء کو کارکنوں نے شکاگو میں محنت کشوں کے اوقات کار 8 گھنٹے مقرر کرنے کی حمایت میں جدوجہد کا آغاز کیا تو اس جدوجہد کو ناکام بنانے کے لیے نہ صرف تشدد کیاگیا بلکہ آٹھ محنت کش رہنمائوں کو گرفتار کرکے انہیں سزائے موت دینے کا اعلان بھی کیا گیا۔ سزائے موت دینے کا فیصلہ سنائے جانے سے قبل ان 8میں سے ایک مزدور رہنما نے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’یہ لوگ اس لیے جدوجہد کررہے ہیں کہ انہیں آٹھ گھنٹے کام کرنے کی اجرت دی جائے نہ کہ دو گھنٹے کی‘‘ اس آواز کو خاموش کرنے کا یہ ہی طریقہ تھا کہ آواز اُٹھانے والوں کو ہی خاموش کردیا جائے۔ 1886ء میں پہلی مزدور ہڑتال کے وقت امریکا کے مزدور بیروزگاری اور کارخانہ داروں اور کانوں کے مالکان کے مظالم کی وجہ سے سخت بپھرے ہوئے تھے۔ مزدوروں کی تنظیم کو ختم کرنے کے لیے سرمایہ داروں نے انتظامیہ کے ساتھ مل کر ایسے قواعد بنائے کہ مزدوروں کی تنظیم نہ ہوسکے۔ مزدوروں نے ان کالے قوانین کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جلوس نکالا۔ لیکن سرمایہ داروں کے ایجنٹوں نے نہتے

مزدوروں پر حملہ کردیا اور کئی مزدور ہلاک و زخمی ہوگئے۔ زخمی اور ہلاک ہونے والے مزدوروں کی حمایت میں اگلے دن پھر مزدوروں نے جلوس کا پروگرام بنایا اور سب مزدور ایک جگہ پر جمع ہوئے۔ یہ بالکل پرامن تھے لیکن ظالموں کی پیاس ابھی تک نہیں بجھی تھی۔ انہیں ابھی اور معصوم اور نہتے مزدوروں کا خون پینا تھا۔ لہٰذا پولیس اور فوج نے قاتلانہ حملہ کیا جس کے نتیجے میں سڑکیں، دیواریں، نالیاں اور گلیاں محنت کشوں کے خون سے سرخ ہوگئیں۔ ان کا اپنا پرچم مطالبات کا سفید پرچم ان کے سرخ خون سے لال ہوگیا اور اس طرح امریکہ کے مزدوروں نے اپنا خون دے کر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ بربریت کی یہ انتہا محنت کشوں کے حوصلے پست ہونے کی بجائے اور زیادہ بلند ہوئے۔ اُنہوں نے اپنے گریبان چاک کرکے اپنے شہید ساتھیوں کے بہتے خون سے تر کرلیے اور سرخ پرچم بنالیا۔ یہ سرخ پرچم رہتی دنیا تک مزدور جدوجہد کی علامت بن گیا ہے اور جب تک یہ دنیا قائم ہے اس جھنڈے کی سرخی مزدوروں کے خون کی عظمت کو بلند رکھے گی۔ آخر مظلوموں کا خون رنگ لایا اور ظالم ظلم کرتے کرتے عاجز اور بے بس ہوگئے۔ محکوم و مجبور محنت کش ستم سہتے سہتے کامیابی سے سرفراز ہوئے اور مزدوروں کے مطالبات تسلیم کرنے پڑے۔ روزانہ آٹھ گھنٹے اوقات کار مقرر ہوئے اور مزدوروں کے ساتھ آجروں کا غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک ختم ہوا۔ اس طرح شکاگو کے مزدوروں کی قربانی دنیا بھر کے مزدوروں کے حقوق اور عزت نفس کی تحریک مزدور کا آغاز بن گئی۔ پاکستان کے محنت کش مزدور تمام دوسرے طبقوں کی نسبت وطن عزیز کی تعمیر و ترقی کے لیے سب سے زیادہ خدمات انجام دے رہے ہیں پھر بھی وہ اپنے جائز حقوق سے بھی محروم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مزدور کو اپنا دوست کہا مگر افسوس کہ ہمارے حکمرانوں نے مزدور کی عزت کو پامال کردیا۔