’’ریاست مدینہ کا حقیقی تصور‘‘

689

ریاست مدینہ کا نام سنتے ہی انسان ایک خاص کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے کیونکہ مدینۃ النبی ہر مسلمان کی امیدوں کا مرکز و محور ہے۔ مدینہ کا دنیا کی تاریخ میں ایک خاص مقام اور مرتبہ ہے کیونکہ جب مکہ والوں کے دل سخت ہوگئے تو اللہ تعالیٰ کی ذات نے آپؐ کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ یثرب کہلانے والا مدینۃ النبی کہلانے لگا، یہ مدینہ کے رہنے والے انصار ہی تھے کہ جنہوں نے انسانی تاریخ میں اخوت و بھائی چارے کی وہ مثالیں قائم کیں کہ آج تک دنیا کی تاریخ میں ایسی بے نظیر مثالوں کا ملنا محال ہے۔ مواخات مدینہ کے ماڈل نے ایک ایسی ریاست اور بستی کی مثال قائم کی کہ جسے سن کر دنیا ورطۂ حیرت میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ ایک انسان اپنے دوسرے بھائی کے لیے اس حد تک ایثارو قربانی کر سکتا ہے؟ فتح مکہ کے بعد ریاست مدینہ عملی طور پر اپنے پورے جوبن پر معرض وجود میں آ چکی تھی اور پھر آنے والے ہر لمحے اور ماہ و سال اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے چلے گئے۔ ریاست مدینہ کا تصور بہت ہی مسحور کر دینے والا تصور ہے جو انسانی تاریخ کو صدیوں پیچھے لے جاتا ہے جہاں پر کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کسی عجمی کو عربی اور کسی عربی کو عجمی پر کچھ بھی فوقیت نہیں، بلکہ بلال ؓو صہیبؓ، طلحہؓ اور زبیرؓ ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ریاست مدینہ کا والی کہتا ہے کہ اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ بھی جرم کرے گی (جس کا تصور کرنا بھی محال ہے) تو اس کو بھی سزا ملے گی کیونکہ تم سے پہلی قومیں اسی لیے برباد ہوئیں کہ جب ان کا کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو وہ سزا سے بچ جاتا جب کہ عام آدمی کے لیے اس سے بچنا مشکل ہوتا۔ ریاست مدینہ میں نیکی کرنا آسان اور برائی کرنا مشکل تھا اسی لیے ریاست مدینہ میں جرائم ختم ہوگئے۔ ریاست مدینہ کا والی مسجد نبوی میں امامت کرواتا۔ مسجد نبوی ہی پارلیمنٹ کا کردار ادا کرتی ہے یہیں سے محاذ جنگ کے لیے لیے قافلوں کو روانہ کیا جاتا، یہیں پر غیر ملکی وفود بھی تشریف لاتے اور سید المدینہ ؐ ان کا استقبال کرتے۔ نو مسلم لوگوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام ہوتا تو خود معلم کائناتؐ بطور استاد اور مدرس ان کا تزکیہ نفس فرماتے۔ یہیں پر نبیوں کے سردارؐ نے اصحاب صفہ ؓ کے نام سے پہلی درسگاہ بھی قائم کی اور خودآپ ؐ اس کے معلم اور استاد بھی تھے۔ یہیں پر امام الانبیاء ؐ لوگوں کے درمیان نمازوں کے اوقات میں موجود ہوتے۔ یہیں پر عدالت بھی لگتی اور فیصلے بھی صادر فرمائے جاتے ہیں۔ یہیں پر بیت المال کا حساب کتاب بھی پیش ہوتا اور یہیں پر مال غنیمت بھی تقسیم کیا جاتا۔
مسجد نبوی کے ساتھ ملحقہ گھر میں آقا دوجہاںؐ قیام پزیر ہوتے۔ افضل البشرؐ اپنے تمام کام اپنے ہاتھوں سے خود سر انجام دیتے اور آپ کے وزراء اور مشیران بھی آپؐ کی اطاعت کو باعث فخر سمجھتے۔ عرب و عجم کے سردار ؐ کی زندگی تمام انسانیت کے لیے باعث تقلیدبھی ہے اور باعث رحمت بھی۔مدینہ کی بستی میں اگر کوئی بیمار پڑ جاتا تو اس کی تیمارداری کے لیے خود بنفس نفیس چل کر جاتے۔الغرض! ایک ایسی ریاست، ایک ایسی بستی، ایک ایسی دنیا کہ جس کا تصور کرکے انسان ایک خاص کیفیت میں کھو جاتا ہے۔ اس ہستی سے محبت اور اطاعت ہمارے ایمان کا ایسا حصہ ہے کہ جس کے وجود کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ الغرض! کون سی ایسی خصوصیت تھی کہ جو ریاست مدینہ کے ماڈل میں موجود نہ تھی۔ نبیوں کے سردار ؐ کے وصال کے بعد آپ کے اصحابؓ نے اپنے کردار و عمل سے اس بستی کو چار چاند لگا دیے۔ آپ میرا ساتھ دیں تو آئیے ذرا صدیوں کا سفر طے کرتے ہیں اور تصور کرتے ہیں کہ 22 لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی ریاست مدینہ کا خلیفہ پیوند لگے کپڑوں میں ملبوس ہے اور اسی ریاست مدینہ کا سربراہ کہتا ہے کہ میرا وظیفہ بھی اتنا ہی ہو گا جتنی کہ ایک مزدور کی اجرت۔ ذرا چشم تصور سے مدینہ کو دیکھیں کہ جہاں فاتح شام و فلسطین اور فاتح قیصر وکسریٰ کیسی زندگی بسر کرتے تھے؟ آئیں !تصور کریں کہ ریاست مدینہ میں جہاں طلحہ ؓو زبیرؓ ہوں گے جہاں سعدؓو وقاصؓ ہوں گے جہاں حسنؓ و حسین ؓہوں گے وہ بستی کتنی خوبصورت ہوگی وہاں کیسا پاکیزہ ماحول ہوگا اور آج صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہوا انسان بھی اسی کو آئیڈیلائز کرتا ہے وہیں سے حرارت اور توانائی لیتا ہے اور ویسی ہی ایک بستی بسانا چاہتا ہے۔
پاکستان دنیا کا پہلا ملک تھا کہ جوکسی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا اور وہ نظریہ، نظریہ ریاست مدینہ کا قیام تھا لیکن شومئی قسمت کے وہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ چند سال قبل ایک شخص نے نعرہ لگایا کہ وہ ریاست مدینہ کی طرز پر پاکستان کو نئے سرے سے تعمیر کرے گا تو پاکستان کے کروڑوں لوگوں کی آنکھوں میں امید اور یقین کے دیپ جلنے لگے۔حتیٰ کہ ہمارے ملک کے ایک بہت ہی مشہور و معروف مبلغ تو یہاں تک کہہ گئے کہ چلو یار صدیوں بعد ہی سہی لیکن کسی نے ریاست مدینہ کی طرز پر پاکستان کو بنانے کا خواب تو دیکھا، لاکھوں لوگوں نے جھولیاں بھر بھر کر دعائیں بھی دیں، مال و متاع بھی پیش کیا اور بہت سارے نوجوانوں نے اپنی آنکھوں میں ایسے خواب بُنے کہ اب ایک ایسی ریاست وجود میں آئے گی کہ جہاں انصاف کا بول بالا ہو گا، جہاں دو نہیں صرف ایک پاکستان ہوگا، جہاں پر غریب کا بچہ بھی اسکول جائے گا، جہاں ریاست مدینہ کی طرز پر عدالتیں انصاف مہیا کریں گی، جہاں پارلیمنٹ کو ریاست مدینہ کی طرز پر چلایا جائے گا، جہاں پر سود کا خاتمہ ہوگا اور تجارت اور کاروبار کا چلن عام ہوگا، جہاں پر امیر و غریب کی تفریق ختم ہوجائے گی اور ہر ایک کو یکساں مواقع فراہم ہوں گے، جہاں کا والی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کو ہمیشہ کے لیے دیس نکالا دے دے گا، جہاں پر گرین پاسپورٹ کی عزت ہوگی، جہاں پر میرٹ کا بول بالا ہو گا، جہاں پر ریاست مدینہ کی طرح امن و امان اور نیکی کا چلن ہو گا، جہاں پر ریاست مدینہ کی طرح کے وزراء اور مشیران ہوں گے، جہاں پر ریاست مدینہ کی طرح احتساب ہوگا، جہاں پر ریاست مدینہ کی طرح وزیراعظم ہاؤس اورگورنرہائوس کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کر دیا جائے گا، جہاں کا والی ریاست مدینہ کی طرح سادہ زندگی بسر کرے گا اور ایک مختصر مگر قابل اور باصلاحیت ٹیم کے ساتھ ملک کی معیشت وسیاست کو چار چاند لگادے گا، جہاں آکر لوگ رہنا پسند کریں گے، جہاں لوگ دور دراز ملکوں سے اپنا سرمایہ لے کر آئیں گے، جہاں پر شوگر مافیا، آٹا مافیا، لینڈ مافیا اور دیگر مافیاز کے خلاف بلا تفریق رنگ و نسل احتساب ہوگا، جہاں پر زینب اور فاطمہ کی عزتیں محفوظ ہوںگی، جہاں کا کسان خوشحال زندگی بسر کرے گا اور جہاں کوئی پیٹ کے ہاتھوں مجبور ہو کر خودکشی نہیں کرے گا۔ ابو بکرؓ و عمرؓ کی طرح والی ریاست رات کو سڑکوں اور وادیوں کا گشت کرے گا کہ جہاں ملاوٹ سے پاک ضروریات زندگی سب کو مہیا ہوںگی۔ یہ اور اس طرح کے ہزاروں خواب اور وعدے وعید کرکے ایک شخص ریاست مدینہ کے نام پر لوگوں کو ورغلانے لگا اور پاکستان کے معصوم اور بھولے بھالے عوام کہ جو پچھلے ستر سال سے کسی مسیحا کے انتظار میں تھے ان کی آنکھیں امید کے چراغوں سے چمک اٹھیں۔ مائوں نے اپنے جگرگوشوں کے سہانے مستقبل کے سپنے بننے شروع کر دیے، بہنوں کی آنکھوں میں بھائیوں کے لیے بے روزگاری کی جگہ باوقار روزگار کے خواب جگمگانے لگے۔
لیکن!
پچھلے دو دن میں شیخوپورہ میں ایک باپ میں غربت و افلاس کے ہاتھوں تنگ آکر اپنے تین جگر گوشوں کو نہر کی لہروں کے سپرد کر دیا۔ اسی طرح خیبر پختون خوا میں کہ جہاں ریاست مدینہ جیسی حکومت کو قائم ہوئے آٹھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے ایک باپ نے اپنی پھول جیسی بیٹی کو موت کے گھاٹ اتار دیا کہ اس نے عید پر نئے کپڑوں کا تقاضا کیا تھا۔ ابھی تو موجودہ نام نہاد ریاست مدینہ کے قیام کو صرف تین سال ہی ہوئے ہیں اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ الامان الحفیظ۔ کیا ہم نے سوچا کہ ہمارے ساتھ کیا حادثہ ہوا؟ کہیں پر ہمارے ساتھ ریاست مدینہ کے نام پر کوئی شخص ہاتھ تو نہیں کر گیا؟
کہیںکوئی مداری اپنے کرتب کی بنیاد پر لوگوں کی آنکھوں میں دھول تو نہیں جھونک گیا؟ کیونکہ خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے خون جگر جلانا پڑتا ہے۔ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا پڑتی ہے۔ مدینہ کی ریاست کے لیے ابو بکرؓ، عمر ؓ، عثمانؓ و علی ؓ جیسی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ پچھلے دنوں ایک عام آدمی کے ساتھ ریاست مدینہ کے تصور پر بات ہو رہی تھی تو اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور چند آنسو اس کی سفید ڈاڑھی کو بھگو گئے کہ جب اس نے آسمان کی طرف اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور کہنے لگا کہ یا خدا! جن لوگوں نے ریاست مدینہ کے تصور کو پامال کیا ہے ان کا گھیرا تنگ کر دے کیونکہ انہوں نے تیرے محبوب ؐ کی ریاست کے تصور کو گہنا دیا ہے اور اب تو لوگ بھی کہتے ہیں کہ کیا ایسی ہوتی ہے ریاست مدینہ؟ کہ جس ریاست میں فاطمہ وزینب جیسے پھولوں کے ساتھ پیش آنے والے بہیمانہ سلوک پر قرارداد کی مخالفت کی جاتی ہے؟ کیا ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر کسی اور کے ایجنڈے کی تکمیل تو نہیں کی جارہی؟ آپ اندازہ کریں! کہ ریاست مدینہ میں والی مدینہؐ کی شان میں گستاخی کرنے والے ملک کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے حوالے سے ’’افلاطون‘‘ کی تاریخی گفتگو تو آپ سن ہی چکے ہیں اور اب یورپی یونین کا مطالبہ بھی آپ ملاحظہ کر چکے ہیں۔ ذرا نہیں! بلکہ پورا سوچیے گا کہ ریاست مدینہ کے مسحور کن تصور کو کہ جس کے ذکر سے ہی انسان کی روح سرشار ہو جاتی ہے کہیں ایک منظم اور مربوط اندازمیں اس تصور سے لوگوں کے ذہنوں کو الجھایا تو نہیں جارہا؟ کہ کیا ایسی ہوتی ہے ریاست مدینہ؟ ذرا! رنگ، برادری، خاندان اور نسل کے تعصب سے بالاتر ہوکر سوچیے گا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ بحیثیت مجموعی جو جرم ہم لوگوں نے کیا ہے اس کا ہمیں احساس ہو جائے اور ہم واپس پلٹ آئیں ریاست مدینہ کے کے حقیقی تصور کی طرف۔
آئیے عہد کریں کہ پاکستان کو ایک اسلامی اور فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے ایک تاریخی جدوجہد کریں۔ ایک ایسی جدوجہد جو والی مدینہ ؐ کے نقوش پا کو چھوتی ہوئی اپنی منزل مقصود کو پا لے۔
میرے خمیر میں گوندھی نہیں گئی ہجرت
میں تیرے بعد بھی تیرے نگر میں رہتا ہوں