چھبیسواں سبق: حسد

254

مطالعہ قرآن:’’اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگے‘‘۔ (سورہ الفلق: 5)
اللہ نے انسان کی طبیعت میں جہاں بہت ساری اچھائیاں رکھی ہیں وہیں ان میں کچھ کوتاہیاں بھی ہیں۔ لیکن ہم ان کوتاہیوں کو جان سکتے ہیں اور ان کو دور کر سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک حسد ہے۔ سورۃ الفلق میں تیسری چیز جو خصوصیت کے ساتھ ذکر کی گئی ہے وہ حاسد اور حسد ہے۔ یہود اورمنافقین آپؐ کی اور مسلمانوںکی ترقی کو دیکھ کر جلتے تھے اور ظاہری جنگ و قتال میں آپ پر غالب نہیںآسکے تو جادو کے ذریعے اپنی حسد کی آگ کو بجھانا چاہا اور رسول اللہ ؐ کے حاسد دنیا میںبے شمار تھے اس لیے بھی خصوصیت سے پناہ مانگی گئی۔ حسد کہتے ہیں کسی کی نعمت و راحت کو دیکھ کر جلنا اور یہ چاہنا کہ اس سے یہ نعمت زائل ہوجائے، چاہے اس کو بھی حاصل نہ ہو، حسد حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور یہ سب سے پہلا گناہ ہے جو آسمان میںکیا گیا اور سب سے پہلا گناہ ہے جو زمین میں کیا گیا کیونکہ آسمان میں ابلیس نے سیدنا آدمؑ سے حسد کیا اور زمین پر ان کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل سے کیا۔ (قرطبی)۔ حسد سے ملتا جلتا غبطہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کسی کی نعمت کو دیکھ کر یہ تمنا کرنا کہ یہ نعمت مجھے بھی حاصل ہوجائے، یہ جائز ہے بلکہ مستحسن ہے۔یہاں تین چیزوں سے خصوصی پناہ مانگنے کا ذکر ہے مگر پہلی اور تیسری میں تو ایک ایک قید کا ذکر کیا گیا۔ پہلی ’’غَاسِقٍ ‘‘کے ساتھ ’’ِٓاذَا وَقَبَ ‘‘ فرمایا اور تیسری میںحَاسِدٍ کے ساتھ ’’ِاذَا حَسَدَ‘‘ فرمایا اور درمیانی چیز یعنی جادو کرنیوالوں میں کوئی قید ذکر نہیں فرمائی۔ سبب یہ ہے کہ جادو کا ضرر عام ہے اور رات کا ضرر اسی وقت ہوتا ہے جب رات پوری اندھیری ہوجائے۔ اسی طرح حاسد کا حسد جب تک وہ اپنے حسد کی وجہ سے کسی ایذا پہنچانے کا اقدام نہ کرے اس وقت تک تو اس کا نقصان خود اس کی ذات کو پہنچتا ہے کہ دوسرے کی نعمت کو دیکھ کر جلتا کڑھتا ہے۔ البتہ محسود کو اس کا نقصان اس وقت پہنچتا ہے جب وہ مقتضائے حسدپر عمل کرکے ایذا رسانی کی کوشش کرے اس لیے پہلی اور دوسری چیز میںیہ قیدیںلگادی گئیں۔
مطالعہ حدیث: آپؐ نے فرمایا: لوگ اس وقت تک خیر و بھلائی پر رہیں گے جب تک ایک دوسرے سے حسد نہ کریں گے۔ (طبرانی)
سیدنا زبیرؓ کی روایت میں ارشاد نبوی ؐہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اگلی امتوں کی مہلک بیماری یعنی حسد اور بغض تمہاری طرف آرہے ہیں، یہ بالکل صفایا کردینے والی اور مونڈ دینے والی ہے۔ پھر نبیؐ نے اپنا مقصد واضح کرتے ہوئے فرمایا: میرے فرمانے کا مطلب یہ نہیںکہ یہ بالوں کو مونڈنے والی ہے، یہ بری خصلت و عادت دین کو مونڈ ڈالتی ہے اور بالکل صفایا کردیتی ہے۔ کسی بندے میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوسکتا۔ (نسائی)
سیرت صحابہ: سیدنا انسؓ کی روایت میں ارشاد نبویؐ ہے کہ ہم رسول اللہؐ کی خدمت میںحاضر تھے۔ آپؐ نے فرمایا: ابھی اس راستے سے تمہارے سامنے جنتی شخص داخل ہوگا۔ اتنے میں ہم نے دیکھا کہ ایک انصاری صحابی نمودار ہوئے، ان کے بائیں ہاتھ میں جوتے تھے اور ڈاڑھی سے پانی ٹپک رہا تھا۔ دوسرے دن بھی آپؐ نے اسی طرح ارشاد فرمایا اور وہی صحابی سامنے آئے۔ تیسرے دن بھی اسی طرح کا واقعہ رونما ہوا۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص نے اس بات کا کھوج لگانے کے لیے کہ اس انصاری صحابی کا وہ کون سا عمل ہے جس کی وجہ سے اللہ کے رسول نے تین دن لگاتار اس کے جنتی ہونے کی بشارت دی۔ اس صحابی کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ میرا اپنے والدین سے اختلاف ہوگیا ہے اور میں نے قسم کھائی ہے کہ میں تین دن تک ان کے پاس نہیں جائوں گا۔ آپ اجازت دیں کہ میں یہ تین دن آپ کے ساتھ بسر کرلوں (تاکہ ان کے بارے میں جان سکیںکہ وہ ایسا کون سا عمل کرتے ہیں)۔ انصاری صحابی نے اجازت دے دی۔ سید نا عبداللہ تین دن ان کے ساتھ رہے اور انہوں نے ان کا کوئی ایسا بڑا عمل نہیں دیکھا یہاں تک کہ رات کو تھوڑی دیر کے لیے بھی نماز کی غرض سے نہیں جاگے البتہ اس تمام عرصے میں جب وہ ان کے ساتھ رہے ان کی زبان سے خیر کے علاوہ کچھ نہیں سنا۔ جب سیدنا عبداللہ کو ان کے اعمال کے معمولی ہونے کا یقین ہو گیا تو انہوں نے انصاری صحابی سے عرض کیا کہ میرا اپنے والدین سے کوئی اختلاف نہیں ہوا۔ میں نے تو آپ کے بارے میں رسول اللہ ؐ سے ایک بشارت سنی تو سوچاکہ میںآپ کے وہ اعمال دیکھوں جن کی بنیاد پر آپ کو دنیا ہی میں جنتی ہونے کی بشارت دی گئی لیکن میں نے ان تین دنوں میں آپ کو کوئی خاص عمل کرتے نہیں دیکھا۔ پھر آپ کو یہ درجہ کیسے مل گیا۔ انہوںنے جواب دیا۔ میرے اعمال تو بس یہی ہیں جو تم نے دیکھے تو سیدنا عبداللہ واپس جانے لگے تو انہوں نے پیچھے سے آواز دے کر انہیں بلایااور کہا ’’میںکسی سے اس لیے حسد نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نعمت سے نوازا ہے اور نہ ہی کسی مسلمان کے لیے اپنے دل میں کوئی کدورت رکھتا ہوں۔ جب یہ بات سیدنا عبداللہ نے سنی تو بے ساختہ کہا کہ یہی تو وہ خوبیاں ہیںجن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مقام تک پہنچایا ہے کہ دنیا ہی میںآپ کو جنت کی بشارت مل گئی-
حسد سے بچنے کی تدابیر: (۱)اللہ کی پناہ میں آیا جائے اور اُس کے لیے دعائوں کا اہتمام کیا جائے۔ (۲)حاسد کی باتوں پر صبر کیا جائے، اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ (۳) ہر حال میں تقویٰ کی روش پر قائم رہا جائے کیونکہ جو متقی ہوتا ہے اللہ اس کی حفاظت فرماتا ہے۔’’ان کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کارگر نہیں ہوسکتی بہ شرط یہ کہ تم صبر سے کام لو اور آ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔ (آل عمران: 120) (۴)اللہ پر توکل کرے۔ یہ دفع مظالم کے لیے سب سے مضبوط اور طاقتور ذریعہ ہے۔ (ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ)(۵) حاسد کو نظرانداز کرنا حسد کا سب سے کامیاب علاج اور حسد سے بچنے کی کارگر تدبیر ہے۔ (۶) اللہ سے اپنے تعلق کو اخلاص، انابت، رب سے محبت و رضا کی بنیاد پر استوار کرے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’بے شک میرے حقیقی بندوں پر تیرا بس نہیں چلے گا‘‘۔ (۷) اپنے گناہوں اور نافرمانیوں سے توبہ کرے کیونکہ گناہ دشمن کے تسلط اور غلبے کاایک اہم سبب ہیں۔ اللہ فرماتا ہے’’تم پر جو مصیبت آتی ہے تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آتی ہے‘‘۔ (الشوریٰ: 30) (۸) صدقہ و خیرات کرتا رہے، اس کے بڑے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خصوصاً نظربد، دفع بلا اور حاسد کے شر سے بچنے کی عمدہ تدبیر ہے۔ (۹) حاسد کے ساتھ احسان اور بھلائی کا معاملہ کرے۔ اگرچہ نفس پر شاق گزرتا ہے۔ تم بدی کو بہتر نیکی سے رفع کرو تو تمہارا دشمن بھی تمہارا جگری دوست بن جائے گا۔ (حٰم السجدہ: 34) (۱۰) عقیدہ توحید پر مضبوطی سے جمے رہنا کہ نفع و نقصان کا مالک اللہ ہے۔