یورپی پارلیمنٹ: قرارداد کے ٹیڑھے خطوط

586

آخری حصہ

عالی مرتبتؐ سے دریافت کیا گیا ’’قیامت کب آئے گی‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے‘‘ جواب آیا ’’کچھ نہیں مگر یہ کہ میں اللہ اور اس کے رسول ؐ سے محبت کرتا ہوں‘‘ سیدالمرسلینؐ نے فرمایا ’’تم اس کے ساتھ ہوں گے جس سے تم محبت کرتے ہو‘‘ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی ان ساعتوں میں ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ روز حشر جب بعض چہرے غبار آلود ہوں گے، بعض چہرے شرمندہ ہوں گے، بعض چہرے سیاہ ہوں گے، اس دن ہم کن کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتے ہیں؟ آقا، امام الانبیا، سیدالمرسلین، فخر موجودات رسالت مآب سیدنا محمدؐ کے ساتھ یا پھر یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد سے کانپنے والوں کے ساتھ۔ یورپی پارلیمنٹ کی وہ قرارداد جس میں یورپی کمیشن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ 2014ء میں پاکستان کو جنرلائزڈ اسکیم آف پریفرنسز (جی ایس پی) پلس کے تحت دی گئی تجارتی رعایتوں پر نظرثانی کرے۔ اس اسکیم کے تحت ترقی پزیر ممالک کی یورپی یونین کی منڈیوں میں آنے والی مصنوعات سے درآمدی ڈیوٹی ہٹا دی جاتی ہے۔
پاکستان کی 25فی صد ایکسپورٹ یورپی ممالک کے ساتھ ہے۔ اگر یہ ممالک جی ایس پی پلس کی سہولت واپس لے لیں گے تو یہ پاکستان کی معیشت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔ یہ وہ مفاد ہے جو میرے آقا ختم المرسلینؐ کی ناموس کے مقابل رکھا جارہا ہے۔ کیا ان دو کے بیچ کوئی تقابل ممکن ہے؟ موازنہ تو کجا کوئی مسلمان ان دو کو آمنے سامنے رکھنے کی ہمت بھی کرسکتا ہے؟ کوئی مسلمان ایسا سوچ بھی سکتا ہے؟ کیا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے یہ دنیا شیطان کے سپرد کردی ہے؟ کیا یورپی پارلیمنٹ کو رزق کی تقسیم سونپ دی گئی ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ اس عزت وجلال والے کی ذات سب سے بابرکت ہے جو خیرالرازقین ہے۔ ایک مائیکرو سیکنڈ کے دس ہزارویں حصے میں بھی اگرفرض کرلیا جائے کہ یورپی پارلیمنٹ کے پاس نعوذ باللہ ایسا کوئی اختیار ہے؟ کیا کوئی مسلمان پھر بھی اس قرارداد کی حمایت کرسکتا ہے؟ یورپی پارلیمنٹ کی طرف سے مسلط کردہ کسی ممکنہ بحران سے خوف زدہ ہوسکتا ہے؟ 25فی صد نہیں سو فی صد معیشت غرق ہوجائے، پورے پاکستان کو پیپل کے پتے کھانے پڑیں، قسم اس وحدہ لاشریک کی، یہ کوئی بحران ہی نہیں جس سے مسلمان ڈرجائیں۔ یہ تو ایک اعزاز ہوگا کہ اس صورت میں ہم اپنے آقاسیدالرسل محمدؐ کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟ کوئی مسلمان اس سے بڑے اکرام اور عزت کا تصور کرسکتا ہے؟
یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد میں فرانس کے خلاف پاکستان میں ہونے والے مظاہروں اور حملوں کو ناقابل قبول ٹھیرایا گیا ہے۔ مظاہروں اور حملوں کو اس ملک کے خلاف ناقابل قبول کہا جا رہا ہے کہ یورپ میں اگر کسی بھی مظاہرے کی کوئی تصویر ہو یا خبر ہو تو آنکھیں بند کرکے بھی قراردیا جاسکتا ہے کہ یہ فرانس کی ہے۔ یورپی ممالک میں جب یہ نعرہ گونجا We are all Charlie Hebdo، چارلی ہیبڈو کے حق میں مظاہرے کیے گئے۔ یہ مظاہرے نہیں، پوری دنیا کے
مسلمانوں کے لیے چیلنج تھا کہ تم کچھ بھی کرلو ہم توہین رسالت کا جرم کرتے رہیں گے۔ تم مظاہرے کرو ہم دیکھتے ہیں تم کب تک اور کہاں تک احتجاج کرتے ہو۔ بانہوں میں بانہیں ڈالے مغرب کے حکمرانوں کی طرف سے یہ مشترکہ چیلنج تھا۔ مسلم حکمرانوں کا فرض تھا کہ وہ آگے آتے اور اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرتے۔ ان کی طرف سے نہ صرف ڈھیلی ڈھالی مذمتوں پر اکتفا کیا گیابلکہ کچھ مسلمان حکمران تو ان کے شانے سے شانہ ملاکر کھڑا ہوگئے۔ گزشتہ صدی کے وسط سے استعماری طاقتیںڈائریکٹ کو لونیل ازم سے دستبردار ہوگئیں۔ اس کی جگہ انڈائریکٹ کولونیل ازم نے لے لی۔ اسے ورلڈنیو لبر ل آرڈر بھی کہا جاتا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ ایشیا اور افریقا کے ملکوں سے اپنی منڈیوں کے لیے، اشیا کے حصول کے لیے، جبر اور ظلم سے کیے گئے زمینی قبضوں کو ختم کرکے، ان ممالک کو آزاد کرکے اب انہیں اقتصادی اور سیاسی غلام بنایا جائے گا۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ مسلم ممالک کے حکمران آج بھی ان کے ذہنی اور جسمانی غلام ہیں۔ یہ مغرب سے التجائیں کرسکتے ہیں، درخواستیں کرسکتے ہیں، مختلف فورمز پر تقاریر کرکے انہیں سمجھانے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ مائی لارڈ ایسا نہ کیجیے لیکن کسی بھی معاملے میں خواہ وہ ناموس رسالت کا معاملہ ہی کیوں نہ ہو مغربی ممالک کے سامنے، ان کی آنکھوں کی آنکھیں ڈال کر کھڑے نہیں ہوسکتے۔
یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد میں حکومت پاکستان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ توہین رسالت کے قانون کی دفعات 295بی اور سی کوختم کرے۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں B.295 کے تحت قرآن کی بے حرمتی کرنے پر عمرقید اور C.295 کے تحت پیغمبر اسلام ؐ کی شان میں کسی بھی کسی قسم کی گستاخی کرنے کی سزا موت یا عمر قید بشمول جرمانہ مقرر کی گئی۔ 1990 میں شرعی عدالت نے توہین رسالتؐ کی سزا صرف موت قراردی۔ دنیا کے 26فی صد ممالک میں مذہب کے حوالے سے ایسے قوانین موجود ہیں۔ خود مغرب میں ہولو کاسٹ کو ایک مذہب جیسادرجہ حاصل ہے جس پر تنقید کی جاسکتی ہے اور نہ اس کا انکار کیا جاسکتا ہے۔ ہولو کاسٹ ہی نہیں سرمایہ دارانہ نظام کی دی ہوئی آزادیاں بھی مغرب کا مذہب ہیں۔ آزادی عقیدہ، آزادی رائے، آزادی ملکیت اور شخصی آزادی۔ اس کے باوجود صرف پاکستان کو ہدف کیا جارہا ہے، پاکستان کو زنجیر کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ قرارداد میں پاکستان میں فرانس مخالف جذبات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ ان کی وجہ سے فرانسیسی شہریوں اور کمپنیوں کو محتاط رہنا پڑتا ہے۔ 295C کے بارے میں قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بے شک اس جرم میں کسی فرد کو پاکستان میں سزا نہیں دی گئی لیکن اس قانون کی وجہ سے اقلیتوں کو خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ یورپ میں مساجد بند کی گئیں، اسلامی ادارے بند کیے گئے، اسکارف اور نقاب پر پابندی لگائی گئی، مساجد پر حملے ہوئے، مسلمانوں پر حملے ہوئے، اسلام کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا گیا،مساجد کے میناروں اور حلال ذبیحہ کو جرم قرار دیا گیا، سرکاری عمارتوں پر نبی کریمؐ کے کارٹون چلائے گئے، ان سے مسلمانوں کے جذبات مجروح نہیں ہوتے، یہ سب خوف زدہ کرنے کے باب میں نہیں آتاکیونکہ فرانس میں کیا جارہا ہے۔ یورپی پارلیمنٹ کے لیے قابل قبول ہے کیونکہ اسلام مخالف ہے۔
یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد میں تحریک لبیک کا نام لے کر کہا گیا کہ حکومت پاکستان کو اس جماعت کی طرف سے تشدد کو روکنے کے لیے موثر اقدام کرنے چاہئیں۔ یہ اس قرارداد کے الفاظ ہیں جس کا پیش کرنے والامعاون خود ایک ایسی جماعت کارکن ہے جسے سویڈن کے وزیراعظم نے ’’ایک ایجنڈے والی نیو فاشسٹ پارٹی‘‘ قرار دیا تھا جس کی جڑیں نازی اور نسل پرستانہ ہیں۔ یورپی پارلیمنٹ کے نزدیک تحریک لبیک ایک پرتشدد جماعت ہے جب کہ یورپی یونین کی پارلیمنٹ تو کجا کسی ملک کو بھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت کبھی نسل پرست،شدت پسند،قاتل اور فاشسٹ نظر نہیں آئیںجس نے گجرات میں اور چند مہینے قبل دہلی میں اور گزشتہ دو برس سے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام کررکھا ہے۔ پاکستان اور عالم اسلام میں ایسے ہزارہا اقدام کیے گئے کہ مغرب ہم سے راضی ہوجائے لیکن پھر بھی ایسا نہ ہوسکا۔اللہ کی آخری کتاب قراردیتی ہے ’’یہ یہود ونصاری تم سے اس وقت تک راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے دین میں داخل نہ ہوجائو‘‘ لیکن مسلم حکمرانوں کو یہ بات کون سمجھائے جو ہر دم مغرب کو راضی کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ فرانس کے سفیرکی بے دخلی کو ایک بحران کے جنم سے تعبیر کیا جارہا تھا، حکومت کی طرف سے ڈراوے دیے جارہے تھے اب اس کا کیا کیا جائے کہ یورپی یونین خود پاکستان کے لیے بحران کھڑا کردیا ہے۔ مغرب کو واضح ہو قراردادوں کے ٹیڑھے خطوط ہوں یا جغرافیہ کے، تلوار کی نوک سے سیدھے کیے جاتے ہیں اور مسلمان اس فن میں یکتا ہیں۔ مسلمان ماضی میں بھی ایسا کرکے دکھاچکے ہیں اور ان شااللہ بہت جلد مستقبل میں بھی۔