وزیراعظم کا اپنی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار

پچھلے اتوار کو وزیراعظم عمران خان نے تحریک انصاف کے 25 ویں یوم تاسیس کے موقع پر اپنے ویڈیو پیغام میں ایک طرف ماضی میں آنے والے مصائب اور مشکلات کا ذکر کیا اور ساتھ ہی موجودہ ملکی معیشت پر اظہار خیال کیا۔ مثلاً میری جدوجہد کے پہلے 15 سال بڑے صبر آزما تھے جس میں میرے ساتھ کئی لوگ آئے اور کئی چلے گئے، کئی ہار مان گئے، ملک میں پیسہ چوری ہوتا ہے اس کو دیکھ کر میں نے پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا۔ قومیں جنگوں اور وسائل کمی سے تباہ نہیں ہوتیں بلکہ کرپشن سے تباہ ہوتی ہیں۔ پاکستان میں پہلی بار کوئی حکومت غریب طبقے کی بہتری کے لیے اقدامات کررہی ہے۔ سیاسی مافیاز اور کارٹلر ہمارے خلاف کھڑے ہیں۔ پی ٹی آئی نے پاکستان کو مدنی ریاست بنانے کے لیے جو اقدامات کیے وہ ماضی میں کسی حکومت نے نہیں کیے۔ مجھے اپنی ڈھائی سالہ کارکردگی پر فخر ہے۔ کیوں کہ ہم نے ریکارڈ خسارے کم کیے ہیں، دو نئے شہر اور دو بڑے ڈیم حکومت بنارہی ہے، صحت کارڈ کے بعد کسان کارڈ جاری کیا جارہا ہے، غریبوں کے لیے کھانا اور کمزور طبقے کے لیے نئے گھر بن رہے ہیں، پہلی بار کرنٹ اکائونٹ سرپلس میں ہے۔ اس سے ہمارے ریونیو بڑھ رہے ہیں، روپیہ مضبوط ہورہا ہے، اسٹاک مارکیٹ نے بہت زبردست پرفارم کیا ہے۔ لوگوں کو معیشت پر اعتماد آرہا ہے، کسان خوشحال ہوئے ہیں، تعمیرات کا شعبہ تیزی سے ترقی کررہا ہے، صرف سیاحت کو درست کرکے ہم اپنے قرض واپس کرسکتے ہیں۔
وزیراعظم صاحب جب اپنی ڈھائی سالہ کارکردگی فخریہ طور پر بتارہے تھے میرے ذہن میں اہم معاشی اشاریوں کی کارکردگی آرہی تھی۔ مثلاً سب سے اہم مجموعی قومی پیداوار (GDP) کی شرح نمو ہے جس سے کسی ملک کی معاشی کارکردگی کو جانچا جاتا ہے سال 2019ء میں بنگلادیش کی شرح نمو 8.2 فی صد، بھوٹان 8.5 فی صد، انڈیا 4.2 فی صد، نیپال 7 فی صد، سری لنکا 2.3 فی صد اور پاکستان کی ایک فی صد رہی۔ حالت یہ ہے کہ افغانستان کی شرح نمو بھی 3.8 فی صد رہی۔ دوسرا اہم اشاریہ یہ ہے جس کا براہ راست تعلق ملکی معیشت اور عوام کی قوت خرید سے ہے۔ سال 2019ء میں بنگلادیش میں مہنگائی کی شرح 5.6 فی صد، بھوٹان 2.7 فی صد، انڈیا 7.7 فی صد، نیپال 5.6 فی صد، افغانستان 2.3 فی صد جب کہ پاکستان میں یہ شرح 10.6 فی صد رہی۔ اسی طرح سری لنکا میں یہ شرح 3.5 فی صد رہی۔ شرح خواندگی سے ملک کی افرادی قوت کی قابلیت اور صلاحیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ سال 2019ء کے مطابق بنگلادیش کی شرح خواندگی 74 فی صد، انڈیا 72 فی صد، سری لنکا 90 فی صد اور پاکستان 60 فی صد ہے۔ اس کے علاوہ اقوام عالم نے بین الاقوامی موازنے کے لیے مختلف اشاریے وضع کیے ہیں جو دنیا بھر میں تسلیم شدہ ہیں اور عالمی ممالک کے درمیان درجہ بندی اور موازنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم انسانی ترقیاتی اشاریہ (HDI) ہے۔ سال 2020ء میں پاکستان کا نمبر 159 ہے۔ دوسرا اشاریہ بہتر کارکردگی کا اشاریہ (good governance) ہے۔ اس میں سیاسی استحکام، جوابدہی کا نظام، قانون کی حکمرانی اور رائے کی آزادی وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں پاکستان، انڈیا اور سری لنکا سے پیچھے ہے جب کہ بنگلادیش اور نیپال سے بہتر ہے۔ اس طرح عالمی مقابلاتی اشاریہ (global competitiveness index) ایک اہم اشاریہ ہے جسے ورلڈ اکنامک فورم نے تیار کیا ہے۔ اس میں ملک کی معاشی، معاشرتی و مالیاتی، افرادی قوت، ماحول سے متعلقہ 13 نکات ہیں۔ اس میں پاکستان سری لنکا، انڈیا اور بنگلادیش سے پیچھے ہے۔ کرپشن انڈکس میں پاکستان 180 ممالک میں 124 ویں نمبر پر ہے۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم کو اپنی کارکردگی پر فخر کرنا چاہیے یا پھر اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا احساس کرکے مستقبل میں بہتری کے لیے اپنے عزم اور ارادوں کو پختہ کرنا چاہیے۔