پچیسواں سبق: پڑوسی کے حقوق

503

مطالعہ قرآن: ’’اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائو، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، نیز رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب والے پڑوسی، دور والے پڑوسی، ساتھ بیٹھے (یا ساتھ کھڑے) ہوئے شخص اور راہ گیر کے ساتھ اور اپنے غلام باندیوںکے ساتھ بھی (اچھا برتائو رکھو) بیشک اللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیںکرتا‘‘۔ (النساء: 63)
اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی طرف بھی توجہ دلائی ہے، اور بعض اعتبار سے حقوق العباد کو حقوق اللہ پر مقدم رکھا ہے، کیونکہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اپنے حق تو معاف کردیں گے مگر حقوق العباد کی معافی نہیں فرمائیں گے۔ حقوق العباد میں سے ایک اہم حق پڑوسی کے حقوق ہیں۔ نبی اکرمؐ نے بھی پڑوسی کے ساتھ بہتر سلوک کا حکم دیا ہے، آپؐ نے فرمایا جو اللہ اور قیامت کے روز پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ پڑوسی کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے۔ (مسلم) نیز آپؐ کا ارشاد ہے جبرائیل ؑ نے مجھے پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید کی کہ مجھے خدشہ ہوا کہ پڑوسی کو وراثت میں حق دار ٹھیرایا جائے۔
سورۃنساء کی درج بالا آیت میں چوتھے نمبر پر ’’جَارِ ذِی القْربیٰ‘‘ اور پانچویں نمبر پر ’’جَارِ الجْنْبِ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں، مفسرین نے پہلے سے مراد ’’مکان سے متصل رہنے والا پڑوسی‘‘ اور ’’دوسرے سے مراد جو مکان سے فاصلے پر رہتا ہے‘‘ لیا ہے۔
عبداللہ بن عباس نے ’’جَارِ ذِی القْربیٰ‘‘ سے مراد وہ پڑوسی جو پڑوسی بھی ہے اور رشتہ دار بھی اور ’’جَارِ الجْنْبِ‘‘ سے مراد وہ پڑوسی جو رشتہ دار نہیں ہے مراد لیا ہے۔ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ پڑوسی چاہے قریب کا ہو یا دور کا، رشتہ دار ہو یا غیر، مسلم ہو یا غیر مسلم اس کا حق ہے کہ بقدر استطاعت اس کی امداد اور خبر گیری کی جائے البتہ جس پڑوسی کا آپ پر کوئی اور حق بھی ہے وہ دوسرے پڑوسیوں سے درجہ میں پہلے ہے۔
مطالعہ حدیث: نبی کریمؐ نے تین مرتبہ قسم کھا کر فرمایا۔ خدا کی قسم وہ مومن نہیں، خدا کی قسم وہ مومن نہیں، خدا کی قسم وہ مومن نہیں۔ صحابہ نے پوچھا۔ کون یا رسول اللہؐ۔ جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو۔ (بخاری) سرکار دوعالم ؐ خود اپنی ازواج مطہرات کو پڑوسیوںکے ساتھ محبت و استواری کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ اسی بنا پر ایک مرتبہ سیدہ عائشہؐ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہؐ میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے کس کو پہلے یا زیادہ ہدیہ دیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا۔ جس کا دروازہ تمہارے دروازے سے زیادہ قریب ہو۔ (بخاری) مومن وہ ہے جو اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ (بخاری و مسلم) رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے کہ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جو خود پیٹ بھر کر سوئے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔ (مسلم) پڑوسی کو کھانا بھجوانے کے بارے میں آپؐ کا ارشاد ہے: ’’اے ابوذر! جب شوربہ پکائو تو پانی زیادہ کردیا کرو اور ہمسائے کا خیال رکھو۔ (بخاری)
سیرتِ تابعین: عبداللہ بن مبارک ایک مرتبہ حج سے فراغت کے بعد حرم شریف میں ایک ساعت کے لیے سو گئے، آپ نے خواب میں دیکھا کہ دو فرشتے آسمان سے نازل ہوئے اور ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ اس سال کتنی تعداد میں لوگ حج کو آئے، دوسرے نے جواب دیا ’’چھ لاکھ‘‘ پھر اس نے پوچھا: کتنے لوگوںکا حج قبول ہوا؟ جواب دیا۔ کسی کا حج قبول نہیں ہوا۔ عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیںکہ جب میں نے یہ سنا تو میرے دل میں ایک اضطراب پیدا ہوا تو میں نے کہا کہ اس قدر لوگ دور دراز سے اس قدر تکلیف اٹھا کر صحرائوں اور بیابانوں کو طے کرکے آئے ان کی تمام تکالیف و مصائب رائیگاںگئے۔ پھر اس فرشتے نے کہا: دمشق میں ایک موچی ہے اس کا نام علی بن الموفق ہے، وہ حج کو نہیں آیا لیکن اس کا حج قبول ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے ان سب لوگوںکو اس کے طفیل بخش دیا۔ عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیںکہ جب میں نے یہ سنا تو خواب سے بیدار ہوکر ارادہ کیا کہ مجھے دمشق جاکر اس شخص کی زیارت کرنی چاہیے۔ جب میں دمشق پہنچا تو اس کا مکان تلاش کیا اور دروازہ پر دستک دی۔ میں نے اس کا نام پوچھا: اس نے کہا، علی بن الموفق۔ میں نے کہا آپ سے کچھ باتیںکرنی ہیں۔ اس نے کہا، ہاںکہو! میں نے کہا، آپ کیا کام کرتے ہیں؟ اس نے جواب دیا: میں موچی کا کام کرتا ہوں۔ پھر میں نے خواب کا تمام واقعہ اس سے بیان کیا۔ اس نے میرا نام پوچھا؟ میں نے کہا عبداللہ بن مبارک، پھر اس نے کہا مجھے تیس سال سے حج کی آرزو تھی؛ میں نے اس مدت میں تین ہزار درہم جمع کیے اور اس سال حج کا ارادہ کیا میری بیوی حاملہ تھی وہ ایک دن مجھ سے کہنے لگی پڑوس کے گھر سے آج کھانے کی خوشبو آرہی ہے، آپ جائیں میرے لیے کچھ کھانا مانگ کر لائیں۔ میں گیا تو پڑوسی نے مجھ سے یہ کہا کہ تین دن تین راتوں سے میرے بچوں نے کچھ نہ کھایا تھا، آج اتفاقاً میں نے ایک مردار گدھا دیکھا تو اس سے ایک ٹکڑا گوشت کا کاٹ کر لے آیا اور اس کا کھانا بنایا، اس لیے یہ کھانا آپ کے لیے حلال نہیں ہے۔ جب میں نے یہ سنا تو میرے بدن میں ایک آگ سی لگ گئی۔ میں نے وہ تین ہزار درہم گھر سے لایا اور اس کو دے دیے، اس سے اپنے بال بچوں کا گزارا کرو۔ بس اب یہی میرا حج ہے۔ اور اللہ کی خاص عنایت ہے کہ میرے خلوص نیت کو دیکھ کر بغیر حج کے افعال کی ادائیگی کے میرے اس فعل کو قبولیت حج کا درجہ عطا فرما دیا گیا۔