فلسطین : جُرم ضعیفی کی سزا

571

ناجائز ریاست اسرائیل کا فلسطینی عوام پر ظلم جاری ہے۔ ایک بار پھر مقبوضہ بیت المقدس میں واقع مسلمانوں کے قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی پولیس جوتوں سمیت داخل ہوئی اور نہتے نمازیوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 259 فلسطینی ز خمی اور دو فلسطینی شہید ہوئے۔ اسرائیل کی برسوں سے جاری اس کھلی جارحیت کے خلاف پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، امریکا اس کی سرپرستی کررہا ہے اور اسرائیل کے تحفظ کے لیے وہ براہِ راست سالانہ بنیادوں پر کھربوں ڈالر کی امداد اور اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی عیاں ہے اور اس بات کا اعتراف سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود اپنی ایک تقریر میں کرچکے ہیں کہ اسرائیل کے تحفظ کے لیے خطے میں عدم استحکام پھیلانے اور خطے کی ریاستوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے سات ٹریلین ڈالر صرف ان کے ایک سال میں خرچ کیے گئے تھے۔ اور یہ انہی امریکی کوششوں کا تسلسل ہے کہ ایک ایک کرکے عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کررہے ہیں۔ مصر، اْردن، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے ہیں۔ یہاں تک کہ گزشتہ دنوں سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا تھا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ طور پر تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے کا فائدہ مشرق وسطیٰ کو ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’خطے میں اسرائیل کے اسٹیٹس کی نارملائزیشن پورے خطے کے لیے بہت زیادہ فائدے کا باعث ہوگی۔ یہ معاشی، سماجی اور سیکورٹی کے نقطہ نظر سے بہت زیادہ مددگار ہوگی‘‘۔ حالانکہ اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کے حوالے سے عرب ممالک کی یہ دیرینہ شرط رہی ہے کہ جب تک اسرائیل فلسطین کو علیحدہ ریاست کا درجہ نہیں دیتا وہ اْس کے ساتھ کسی طرح کا سمجھوتا نہیں کریں گے۔ ایسے میں علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر ان ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کو دھوکا اور فلسطینیوں کی پیٹھ میںچھرا گھونپنے کے سوا کیا قرار دیا جاسکتا ہے! اس پس منظر میں پاکستان کے مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم فلسطینی عوام کے ناگزیر حقوق کے حصول اور آزاد ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد میں اپنی مکمل حمایت جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ فلسطین کے جواز کی حمایت کی ہے۔ فلسطین کے مقاصد کے لیے پاکستان کی غیر متزلزل حمایت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سمیت تمام بین الاقوامی فورمز پر فلسطین کے حق میں ہر قرارداد پیش کرنے میں معاونت یا حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان 1988ء میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے ابتدائی ممالک میں شامل تھا، اور بعد میں 2012ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کی باہمی سرپرستی کی گئی جس نے اس کی حیثیت کو غیر رکن مبصر کی حیثیت سے بڑھایا۔ پاکستان کی فلسطین سے متعلق پالیسی پر بات کرتے ہوئے دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چودھری نے کہا کہ منصفانہ، جامع اور دیرپا امن کے لیے پاکستان اقوام متحدہ اور او آئی سی کی متعلقہ قراردادوں سمیت بین الاقوامی قوانین کے ساتھ دو ریاستی حل کا حامی ہے، جبکہ 1967ء سے پہلے کی سرحدوں اور بیت المقدس کے بطور دارالحکومت فلسطین کی حمایت کرتے ہیں۔
اس وقت عالمِ اسلام کی جو صورتِ حال ہے اْس کے پس منظر میںیہ کہنا ہی زیادہ درست معلوم ہوتا ہے اور حقیقی اور صداقت پر مبنی بات بھی یہی ہے کہ خونِ مسلم کی اس ارزانی کا اصل ذمے دار کوئی اور نہیں خود مسلمان ممالک کے حکمران ہیں، جو اپنے ذاتی مفادات اور وقتی عیش و عشرت میں غرق ہیں، ان میں امتِ مسلمہ اور مسلم عوام کا کوئی درد موجود نہیںہے، یہی وجہ ہے کہ وہ امت کے اجتماعی مفاد کو فراموش کیے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دشمن ایک صف میں ہے اور بدقسمتی سے مسلم ممالک بھی ان کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ فلسطینیوں کی زمینوں پر صہیونی بستیاں آباد ہیں، جبکہ اس زمین کے اصل باسی مہاجر اور پناہ گزین بن کر دنیا کے مختلف ممالک میں در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے برسوں پہلے یہ بات کہی تھی: ’’یہودی آج تک اپنے منصوبوں میں اس بنا پر کامیاب ہوتے رہے ہیں کہ دنیا کی بڑی طاقتیں اْن کی حامی و مددگار بنی رہی ہیں، اور اْن کی اس روش میں آئندہ بھی کسی تغیر کے امکانات نظر نہیں آتے، خصوصاً امریکا کی پشت پناہی جب تک اسے حاصل ہے، وہ کسی بڑے سے بڑے جرم کے ارتکاب سے بھی باز نہیں رہ سکتا۔‘‘
اور اس کے ساتھ مولانا نے ایک اور اہم بات کی تھی کہ
’’نہ صرف مسجدِ اقصیٰ، بلکہ مدینہ منورہ کو بھی آنے والے خطرات سے بچانے کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی طاقت اس یہودی خطرے کا مقابلہ کرنے اور اسلام کے مقاماتِ مقدسہ کو مستقل طور پر محفوظ کردینے کے لیے مجتمع کی جائے۔‘‘
اسرائیل امتِ مسلمہ کے لیے بڑا خطرہ ہے، اور عالمِ اسلام کو اس خطرے سے مزاحمت ہی بچا سکتی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمِ اسلام کے حکمران مغرب کی فریب کاریوں کو سمجھیں اور اسے کھلا دشمن سمجھ کر مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں، اگر مسلم حکمرانوں کی بے حمیتی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو کچھ عجب نہیں اسرائیلی بربریت کا دائرہ پھیلے گا اور آنے والے وقت میں کوئی بھی محفوظ نہیںرہے گا۔کیونکہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہی ہوا کرتی ہے-