عمران خان پر دباؤ، حکومتی صفوں میں انتشار – میاں منیر احمد

370

کراچی میں قومی اسمبلی کی نشست کے لیے ضمنی انتخاب بھی ہر الیکشن کی طرح متنازع ہوگیا ہے۔ شکست کھانے والوں نے نتائج مسترد کردیے ہیں۔ اپوزیشن کی دو جماعتیں ان انتخابی نتائج پر ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ تحریک انصاف نے بھی انتخابی نتائج کو چیلنج کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ دھاندلی کے الزامات لگانے والے ثبوت پیش کریں ورنہ خاموش رہیں۔ ڈسکہ ضمنی انتخاب کے بعد امید کی جارہی تھی کہ کراچی کے ضمنی انتخاب میں ایسی کوئی ناخوشگوار صورتِ حال پیدا نہیں ہوگی۔ اب اسی ہفتے خوشاب میں پنجاب اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخاب ہونے والا ہے، وہاں کیا صورتِ حال ہوگی اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

کراچی کے ضمنی انتخاب کے نتائج کے بعد تحریک انصاف شفاف انتخابی عمل کے لیے ایک آئینی پیکیج پیش کرچکی ہے اور وزیراعظم نے اپوزیشن کو بات چیت کی دعوت دی ہے۔ لیکن انتخابی پیکیج کے لیے آئینی ترمیم ہوگی، اور یہ کام پارلیمنٹ میں لائے بغیر مکمل نہیں ہوگا۔ وزیراعظم جو گزشتہ تین سال اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملانا تو درکنار، سلام دعا کے لیے دستیاب نہیں تھے، اب خود بات چیت کی دعوت دے رہے ہیں۔ لیکن حکومت کے آئینی ترمیم کے اس پیکیج پر اپوزیشن وزیراعظم کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ آئینی پیکیج پر بات چیت کے لیے اپوزیشن جماعتوں میں باہمی اتفاق بھی ضروری ہے، اس کے بعد وہ حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے بیٹھیں گی، اور یہ کام کس شرط پر ہوگا، اس کی ایک جھلک تو اسمبلی میں دیکھی جاچکی ہے۔ مسلم لیگ(ن) یہ سمجھ چکی ہے اور سیاست کا ہر طالب علم بھی جانتا ہے کہ حکومت کے تین سال گزر چکے، اگلے دو سال حکومت کے نہیں بلکہ اپوزیشن کے ہیں، حکومت کو جو کچھ کرنا تھا ،کرلیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) چاہتی ہے کہ بات چیت غیر جانب دار ماحول میں ہو، اور اس کے لیے پارلیمنٹ کے اسپیکر پر اتفاق ہوسکتا ہے۔ لیکن مسلم لیگ(ن) کے شاہد خاقان عباسی نے اسپیکر کے ساتھ سینگ پھنساکر معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اب مذاکرات کے لیے شاہد خاقان عباسی نہیں بلکہ اسپیکر اپنے رویّے میں تبدیلی لائیں گے۔ یوں بات چیت سے پہلے ہی اپوزیشن نفسیاتی برتری حاصل کرلے گی۔ وزیراعظم عمران خان اب دبائو میں ہیں اور فرسٹریشن میں ہی وہ اسمبلیاں توڑ دینے کی بات کررہے ہیں، لیکن اب انہیں کوئی اسمبلیاں توڑنے نہیں دے گا۔ اس کی وجہ صاف صاف یہ ہے کہ یہ سیاسی نظام لانے والے ایک دوسرے محاذ پر کام کررہے ہیں، جس میں گلگت بلتستان کے عبوری صوبے کے قیام، آزاد کشمیر کے انتخابات، بھارت کے ساتھ اس خطے میں امن کے قیام کے لیے پیش رفت، اور کابل میں سازگار ماحول کی کوشش شامل ہے، جس کے لیے انہیں ایک جمہوری چہرہ چاہیے، اس کام کے لیے موجودہ سیاسی نظام سے بہتر کوئی اور نظام نہیں ہوسکتا، اور اگر عمران خان نے کوئی ایڈونچر کردیا اور اسمبلیاں توڑ دیں تو پھر انتخابات نہیں ہوں گے بلکہ طویل عرصے کے لیے عبوری حکومت بن سکتی ہے، جس کے لیے عدلیہ کا آئین کے محافظ کی حیثیت سے کردار ابھر کر سامنے آسکتا ہے۔

اگر وزیراعظم عمران خان کے اسمبلیاں توڑنے سے متعلق حالیہ بیان کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بیان مایوسی کی علامت ہے اور کسی کے لیے پیغام بھی ہے، کیونکہ انہیں جہانگیر ترین کے بعد اپوزیشن کی جانب سے آنے والی گرم ہوا سے بچانے والی قوت متحرک نہیں ہورہی۔ امکان اور کسی حد تک یہ بات یقین کی حد تک کہی جارہی تھی کہ عمران خان قومی سیاست میں تحمل، برداشت اور رواداری کو فروغ دیں گے۔ کیا ملک کے چیف ایگزیکٹو کا یہ کام ہے کہ وہ اپنے ہر بھاشن کا آغاز اپنے مخالفین کی کرپشن سے کرے؟ حکومت کی نااہلی کا یہ عالم ہے کہ نہ صرف اسے لانے والے پریشان ہیں بلکہ اس کی اپنی صفوںکے اندر بغاوت کا سماں ہے، یہ عمران خان کی فرسٹریشن کی دوسری وجہ ہے۔ لیکن تحریک انصاف یہ بات یاد رکھے کہ اسے کوئی ایڈونچر نہیں کرنے دے گا۔ مسلم لیگ(ن) کی لیڈرشپ کو ہٹانا اور اس کی جگہ نیا نظام عمران خان کے حوالے کرنا کوئی معمولی کام نہیں تھا، لیکن کچھ منصوبے اللہ کے بھی ہوتے ہیں۔

وزیراعظم عمران نے دعویٰ کیا تھا کہ سو دنوں میں کرپشن ختم کردیںگے، نظام میں شفافیت لائی جائے گی، نوکریاں ملیں گی اور گھر بنیں گے۔ تین سال بعد اب وہ اسمبلیاں توڑنے کی بات کرنے لگے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ فیصلے غلط ہوجاتے ہیں اور سوچتا ہوں کہ فلاں کو وزیر کیوں بنایا؟ اس سوال کا جواب یہی ہے کہ جسے وزیر بنایا ہے اگر آپ بااختیار ہیں تو اسے نکال کر دکھائیں۔ رہا سوال کہ کراچی میں کیوں ہارے؟ اس کا جواب وزیراعظم کے دوست عارف نقوی بہتر دے سکتے ہیں کہ قوم کے 87 ارب روپے کہاں ہیں؟ ایک سوال وزیراعظم کے لیے یہ بھی ہے کہ گیارہ سو ارب کے کراچی پیکیج کا کیا بنا؟

بشیر میمن کے سنسنی خیز اور انتہائی حساس انکشافات نے قانون کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان بار کونسل نے بھی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے کہ سپریم کورٹ بشیر میمن کے میڈیا بیانات کا نوٹس لے۔ اگرچہ معاون خصوصی شہزاد اکبر نے سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن کے الزامات پر نوٹس بھجوایا ہے، تاہم اسلام آباد کی سیاسی حقیقتیں یہی ہیں کہ حکومت کی جانب سے ہتک عزت کے نوٹس تب دیے جاتے ہیں جب حکومت نہ کرنی ہو۔ بشیر میمن نے وزیراعظم سے متعلق اپنی کتاب بلاوجہ نہیں کھولی۔ وزیراعظم نے اسمبلیاں توڑنے کی بات جہانگیر ترین گروپ سے ملاقات میں کی تھی اور ردعمل میں بشیر میمن میدان میں اتارے گئے ہیں کہ اسمبلیاں توڑیں تو ان سوالوں کا جواب بھی دینا ہوگا۔ اس نظام کے خالق فی الحال کوئی انہونی نہیں چاہتے۔

گزشتہ ہفتے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی میڈیا کے گروپ سے ملاقات بھی اہم موضوع ہے۔ تیس کے قریب صحافیوں کو آئی ایس پی آر بلایا گیا اور ملاقات رات گئے تک جاری رہی۔ اب ایک نئے گروپ سے ملاقات کی بھی تیاری ہے۔ بہرحال گزشتے ہفتے ہونے والی سات گھنٹے طویل نشست میں بات چیت کا اہم حصہ بھارت اور افغانستان کے حوالے سے تھا۔ اس کی کچھ تفصیلات انہوں نے بیان کی ہیں۔ ہماری مقتدرہ بھارت سے سب مسائل حل کرنے کے لیے تیار ہوچکی ہے، اب کشمیر پر بھی معنی خیز گفتگو کا ماحول بن چکا ہے۔ پاکستان اب اپنی ستّر سال پرانی پالیسی بدل رہا ہے کہ پہلے کشمیر اور پھر کسی اور ایشو پر بات ہوگی۔ اب پاکستان کشمیر کے ساتھ ساتھ سیاچن، سرکریک اور تجارتی ایشوز پر بھی بات کرنے کو تیار ہے۔ کشمیر پر پاکستان اپنا دعویٰ رکھے گا لیکن کشمیر کو بنیاد بناکر بھارت سے تعلقات دائو پر نہیں لگائے گا۔ اس کے بدلے بھارت کشمیر میں پانچ اگست والے اقدامات واپس لے گا۔ اس دوران پاکستان بھارت کو افغانستان اور سینٹرل ایشیا تک راستہ دے گا، اور اس کے بدلے پاکستان بھارت سے راہداری اور کرائے کی مد میں خاصا بل وصول کرے گا۔ مقتدرہ سمجھتی ہے کہ اب وقت ہے کہ ان ایشوز کو حل کرکے پاکستان کو ایک ’’نارمل‘‘ ملک بنایا جائے۔ کشمیر، اور بھارت کے ساتھ ہونے والی بیک ڈور چینل گفتگو کو ملاقات کا موضوع بنانے کا مقصد رائے عامہ کا جائزہ لینا ہے۔ حکمت ِ عملی یہ ہے کہ عدم مداخلت اور علاقائی پائیدار ترقی کے لیے آگے بڑھا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ’’کور ایشوز‘‘ کو کہاں اور کب تک فریز کیا جائے گا؟ اس بارے میں کوئی وضاحت بھی نہیں کی جارہی۔ پاک بھارت بات چیت بیک وقت تمام پہلوئوں اور ایشوز پر ہورہی ہے، حکمتِ عملی کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ تصادم کے بجائے باہمی تعاون کی راہ اختیار کی جائے۔ اب ایک قدم اور آگے بڑھ کر فیصلہ ہوا ہے کہ تحمل اختیار کیا جائے۔ اس ملاقات میں یہ گفتگو بھی ہوئی کہ پاکستان کو اندرونی لحاظ سے پُرامن کیسے بنایا جائے کہ عالمی تنقید اور سوالوں کے در بند ہوجائیں۔ سوال یہ ہے کہ امن کی فاختہ بن کر رہنا اچھی سوچ ہے، مگر یہ فیصلہ پارلیمنٹ کیوں نہ کرے؟ یہ فیصلہ سیاسی قیادت کو کرنے دیا جائے جسے رائے عامہ کی حمایت میسر ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کے فکری سوتے سوکھنے سے بچائے جائیں۔ سیاسی قیادت کو ساتھ ملائے بغیر یہ کام نہیں ہوسکے گا۔

مسلم لیگ(ن) کی صف بندی یہ ہے کہ وہ صورت حال کا ادراک کرچکی ہے اور اس خطے میں ’’امن کے قیام‘‘ کے لیے کی جانے والی کوششوں میں ہاتھ بٹانے کو تیار ہے، اور بدلے میں اپنے لیے سیاسی کردار مانگ رہی ہے، اور اسے بہت کچھ مل بھی جائے گا۔ پیپلزپارٹی بھی اس آڑ میں بہت کچھ چاہتی ہے۔ دونوں کے مابین لفظی جنگ اصل میں ملکی اور عالمی قوتوں کے لیے خود کو قابلِ قبول بنانے کی جنگ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک نئی ٹیم قومی حکومت کے نام پر میدان میں اتاری جائے، اور تمام تر مثبت نتائج کی مکمل یقین دہانی کے بعد نئے انتخابات بھی کرائے جاسکتے ہیں، اور پھر کہا جائے گا کہ خطے میں امن کے لیے’’ اقدامات‘‘ پر حتمی مہر آنے والی پارلیمنٹ کے ذریعے لگائی جائے گی۔ یہ بات طے ہوچکی ہے کہ مستقبل میں پاکستان کے تزویراتی فیصلے عسکری اور سیاسی محاذ مل کر ہی کریں گے۔ اب گیند سیاست دانوں کے کورٹ میں آنے والی ہے، کیونکہ کشمیر پر کوئی یک طرفہ فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ مسلم لیگ(ن) کے لیے ریلیف بھی اسی راستے سے ملے گا۔

(This article was first published in Friday Special)