ہم عصر دنیا اور ہماری صورت حال

601

 

آخری
حصہ

آپ کا پورا علم اور آپ کی آرا کا بنیادی مادہ بننے والا ماحول اور ذہنیت انہوں نے پیدا کردی ہے۔ تو ظاہر ہے وہ ہری عینک آپ لگائیں گے تو ہر چیز ہری ہی نظر آئے گی، ہری ہی ہوجائے گی۔ وہ بس عینک لگادیتے ہیں جن لوگوں نے نہ پڑھا ہو، اکثر لوگوں نے تو اُمید ہے پڑھا ہوگا، لارڈ میکالے کا جو برٹش پارلیمنٹ میں خطاب ہے۔ اس کے دو خطابات ہیں، وہ پڑھیں۔ لارڈ میکالے انیسویں صدی کا آدمی ہے جس نے برٹش انڈیا کے بارے میں کچھ تعلیمی اصلاحات تجویز کی تھیں۔ اس نے جو اپنی پارلیمنٹ میں خطاب کیا تھا، اپنی حکومت کو اپنی تجویز کردہ پالیسی کا قائل کرنے کے لیے۔ وہ خطاب تاریخ کو بدلنے والے چند خطابات میں سے ہے، اور اس نے ہماری تاریخ کوبدل دیا ہے۔ تو اب ایک ہزار لارڈ میکالے ہیں۔ ایک لارڈ میکالے نے آپ کو بدل دیا۔ اب تو ایک ہزار ہیں۔ اب مغرب آپ کے دین کو ایک state slogan رکھے گا، ایک societal force کبھی نہیں بننے دے گا۔ state slogan یعنی ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘، وہ کہیں گے اس کو سلیوٹ کریں، لیکن اگر ہم کہیں گے Islamic society of Pakistan تو وہ کہیں گے اس کو مٹائو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب اسلام کو ہم سے زیادہ سمجھتا ہے، اس کے نتائج کو، اس کی productions کو، وہ ہم سے بہت زیادہ سمجھتا ہے۔ یہ تو سطحی اور سرسری issues ہیں کہ یہ طالبان کیا کررہے ہیں اور القاعدہ کیا کررہی ہے۔ یہ تو دو چار پانچ سال کا ایک factor ہے، یہ دو چار پانچ سال میں ختم ہی ہوجائے گا۔ لیکن اصل چیز ان کے پیچھے ہے۔ اور ابھی وہ Bernard Lewis نے بیان کیا کہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ آسانی سے خریدا جاسکتا ہے۔ یہ کتنا شدید تھپڑ ہے ہمارے منہ پر! کہ ان کو خوشحالی کا لالچ دے کر یا خوشحالی کے وسائل دے کر اپنے دین سے برگشتہ کیا جاسکتا ہے، اپنے دین کو تبدیل کرنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ طالبان وغیرہ تو ابھی دوچار حملے ہوں گے، تو یہ مسئلہ نمٹ جائے گا۔ لیکن یہی ایک مسئلہ تو نہیں ہے۔ بہت خطرناک صورت حال ہے اور بعض دفعہ مایوس کن لگنے لگتی ہے۔
میرے خیال میں زوال مکمل ہوگا۔ ابھی اس پر بریک نہیں لگے گا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دین معاشرت نہیں بن سکتا، اس وجہ سے ہمارا ہر دینی تصور چاہے وہ اس دنیا سے متعلق ہو، چاہے ہماری ذات سے متعلق ہو، چاہے آخرت سے تعلق رکھتا ہو، وہ utopian ہے، ایک romanticization ہے، اور ناممکن حد تک مکمل اور سادہ ہے۔ مطلب وہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم نے کچھ چیزیں رٹ رکھی ہیں، بس انہیں بولتے رہتے ہیں۔
کیوں؟ اس کا سبب کیا ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم نے دین اور سوسائٹی کا تعلق قائم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش صدیوں میں نہیں کی۔ ہم نے دین کو state oriented رکھا، یا personal matter رکھا۔ اور سوسائٹی میں لوگوں کے درمیان بڑا اور چھوٹا بنانے والے جو معیارات ہیں وہ کبھی دینی نہیں رہے۔ اور مذہبی علم corrupt ہوگیا، اور سب سے زیادہ ذمے دار ہے مذہبی نظام تعلیم، صدیوں سے۔ اس نے ’’العلم مخافہ‘‘ کی اصل کو سب سے زیادہ دھندلایا ہے۔ فنون اور یہ سب چلتا رہا اور اس میں بھی مبتدیانہ رسائی، وہ بھی آخر تک نہیں۔ ختم، سب ختم! بہت زیادہ ’’ذہنیت‘‘ اس میں بھر کے دین کو آپ نے انتہائی مصنوعی بنادیا۔ دین کو آپ نے over simplify کرکے بہت زیادہ غیر فطری بنادیا۔ مطلب ہر چیز کا آپ کے پاس حل ہے۔ یہ کیا بات ہے؟ کسی نے کہا کہ بھئی میرے حالات بہت خراب ہیں، انہوں نے کہا آئو اسلام کے پاس ہر چیز کا حل ہے! کیا بے وقوفی کی باتیں ہیں۔ مطلب آپ اسلام کی جو قوت و تاثیر اپنے بھائیوں کو بتارہے ہیں، وہ اس کو قصہ کہانی سمجھ کے قبول کر لیتے ہیں۔ وہ بھی یہ بات جانتے ہیں لیکن کہہ نہیں پاتے۔ یار یہ کوئی جادو کی چھڑی اللہ میاں نے ہمیں دے دی ہے؟ دین جادو کی چھڑی بننے کے لیے آیا ہے اس دنیا میں؟
ایک humanity ہے political تصور، ایک humanity ہے نفسیاتی تصور کہ ہمیں اپنے ایک معیار انسانیت کو بلند کرنا ہے اور معیار انسانیت جو ہے یعنی انسان ہونے کی quality، وہ صرف ذہانت اور اخلاق کا نام ہے۔ یہ ہماری سب سے بڑی دینی ضرورت ہمیشہ سے ہے۔ لیکن آج اس کا ضرورت ہونا بہت بھیانک طریقے سے واضح ہوا ہے۔ آپ اچھے آدمی نہیں ہیں ناں، تو آپ کی باتیں بے اثر ہیں۔ آدمی کا اچھا ہونا ایک معاشرتی حقیقت ہے، کوئی نظریاتی اصول تھوڑی ہے۔ سیدنا عمرؓ جو بالکل پیغمبرانہ بصیرت کے وارث، بلکہ وارث اعظم تھے۔ یعنی دنیا میں کوئی غیر نبی ایسے prophetic vision کا نہیں ہوا جو سیدنا عمرؓ ہیں۔ تو وہ فرمایا ناں، ایک آدمی کی کسی نے تعریف کی کہ نماز بہت پڑھتا ہے، روزے بہت رکھتا ہے۔ انہوں نے سختی سے کہا تم نے کبھی اس کے ساتھ سفر کیا ہے؟ تم اس کے پڑوس میں رہے ہو؟ تم نے اس کے ساتھ کچھ وقت گزارا؟ کہنے لگا نہیں۔ کہنے لگے خبردار آدمی کی تعریف اس کے روزے، نماز سے نہیں ہوتی، اس کے معاملات سے ہوتی ہے۔ معاملات کا مطلب کیا ہے؟ کہ اعلیٰ اخلاق پر ہمارا ایسا نظام العمل جو حکم کے صحیح فہم کے ساتھ ہو۔ حکم کے صحیح فہم کے لیے ذہانت ضروری ہے، اور اس سے ہم آہنگ ہونے کے لیے اخلاق ضروری ہے۔
میں نے کہا کہ ابھی زوال مکمل ہوگا، یعنی امید کی کوئی کرن نہیں ہے؟ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے دینی آدمی کا مورال ڈائون نہیں ہوگا؟
میں کہتا ہوں کہ نہیں! ہمارا مورال ڈائون نہیں ہوا۔ ہم تو اس پر یقین رکھتے ہیں۔ میں اس پر یقین رکھتا ہوں کہ زوال کا یہ cycle مکمل ہوگا۔ کیوں کہ یہ ہماری شامت اعمال ہے، یہ اللہ کی طرف سے آیا ہوا عذاب ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ اس دین کی حفاظت میں اس دین کے ماننے والوں کی بقا کی ضمانت شامل ہے۔ تو اس وجہ سے مایوسی نہیں ہے۔ یعنی اگر اللہ نے اسلام کی حفاظت کا ذمہ لیا ہوا ہے، تو اس میں مسلمان تو خودبخود شامل ہیں، اسلام کوئی فضا میں لکھی ہوئی تحریر کی طرح تھوڑی رہے گا۔ یا کفار کے ہاتھ میں موجود مصحف کی طرح تھوڑی رہے گا۔ وہ تو میرے ایمان کا حصہ ہے۔ لیکن ہم لوگ گئے تو ایک سطحی جدیدیت آئے گی یا ایک کاٹ کھانے والی قدامت آئے گی۔
سیدنا عیسیٰؑ نے فرمایا: ’’زوال یقینی ہے مگر لعنت ہو اس پر جو اس زوال کا ذریعہ بنے!‘‘
کچھ نہیں رہا آپ میں، پہلے اس بات کو تو realize کرلیں۔ جدیدیت بھی آگئی ہے اور کاٹ کھانے والی ’’قدامت‘‘ بھی۔ دونوں آگئی ہیں! دونوں ہی کا ٹکرائو ہورہا ہے۔ دیکھیں وہ جارح قدامت والے تو خودکش حملہ کررہے ہیں، سطحی جدیدیت والے دیگر کش حربے استعمال کررہے ہیں، جس سے دوسرے مارے جائیں! تو اصولی بات بہرحال یہ ہے کہ ہمیں اپنی انسانیت کو معیاری بنانا چاہیے۔