…!تبدیلی کیوں نہ آسکی

570

اب خود وزیراعظم عمران خان اپنی غلطیاں تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے انتخابی ٹکٹ غلط لوگوں کو دیے اور وزارتیں بھی غلط لوگوں کے حوالے کردیں، اگر دیکھا جائے تو اس وقت وزیروں، مشیروں اور ترجمانوں کی ایک فوج خان صاحب نے اپنے گرد جمع کر رکھی ہے ان کے اقتدار کا آدھا سفر پورا ہوا اور باقی ماندہ سفر اب آنے والے الیکشن کی تیاری اور اسی ضمن میں ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل ہی میں گزر جائے گا، اقتدار کے اس عرصے میں سیاسی استحکام کو برقرار رکھنا ضروری ہوگا ورنہ یہ اقتدار کسی بھی وقت ختم ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یعنی جیسا کہ اب عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ خان صاحب اسمبلیاں تحلیل بھی کرسکتے ہیں کیوں کہ اس وقت غیر یقینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ قومی معیشت نہ ماضی میں اچھی تھی اور نہ اب معیشت سنبھل پائی ہے، آنے والے برسوں میں اگر معیشت سنبھل جاتی ہے تو یہ معجزہ ہی ہوگا، عالمی قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ خان صاحب کی نیت صاف تھی اور اب بھی ہے، ان کی ایمانداری اور انتھک کام کرنے کے ثبوت موجود ہیں، ماضی کے حکمرانوں سے یہ مختلف ہیں ان میں قومی خدمت کا جذبہ موجزن ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت ایک تو اپوزیشن ناکارہ ہے تو دوسری طرف حکمران جماعت کے عوامی نمائندے بھی بے کار ہیں، ہر طرف مفاد پرست مافیا موجود ہے، بیورو کریسی مکمل طور پر حکومت کے قابو میں نہیں ہے، یہ وہی بیورو کریسی ہے جو ماضی کے حکمرانوں کی نرسریوں میں پروان چڑھ کر قومی اداروں کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے، اب تحریک انصاف اپنے قیام کے 25 سال پورے کرچکی ہے۔
لندن کے کانوائے ہال میں عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت بنانے کی بات کی تھی تو انہوں نے سمندر پار پاکستانیوں کے ایک بڑے اجتماع میں پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لیے جدوجہد کا اعلان کیا تھا، سمندر پار پاکستانیوں نے جن میں نوجوانوں اور بزرگوں کی بھاری تعداد نے اس تحریک میں شامل ہونے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے عہد کیا تھا کہ وہ پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد واپس پاکستان لوٹ جائیں گے ایسا واقعی ہوا، عمران خان وزیراعظم بنے تو پاکستانیوں کی کثیر تعداد پاکستان لوٹ گئی، اپنا سرمایہ پاکستان میں رہ کر کاروبار میں لگانا چاہا مگر چند ہی ماہ بعد یہ پاکستانی واپس بیرونِ ملک آنا شروع ہوگئے، وجہ اس کی یہ تھی کہ پاکستان میں کسی قسم کی کسی تبدیلی کے آثار نظر نہ آئے، اپنا سرمایہ پاکستان میں کس جگہ لگاتے ہر جگہ تو کمیشن مافیا کا راج برقرار تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تارکین وطن میں مایوسی پھیلتی چلی گئی، جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی اپنی پارٹی سے جے اے رحیم اور مختار رانا جیسے نظریاتی رہنمائوں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا بالکل ایسا ہی تحریک انصاف میں بھی ہوا۔ پارٹی کے انتہائی اہم اور بانی ارکان جن میں جسٹس وجیہہ الدین، حامد خان اور فوزیہ قصوری کو بھی پارٹی چھوڑنی پڑی کیوں کہ اس پارٹی میں بھی جمہوری اقدار کو نظر انداز کرتے ہوئے پارٹی میں متبادل قیادت اُبھرنے ہی نہیں دی گئی، اب اصل حقیقت اس وقت یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اب انتشار کا شکار ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، ترین گروپ منظر عام پر آچکا ہے، اصل مسئلہ ہی کرپشن ہے کرپشن جس سطح پر بھی ہو یہ کرپشن ہی ہے، یعنی شوگر مافیا کھل کر سامنے آگیا ہے اس مافیا کے خلاف پوری رپورٹ بھی تیار ہوچکی ہے۔ وزیراعظم اس مافیا کے خلاف کیا کرتے ہیں اور جہانگیر ترین کے حوالے سے کیا پالیسی اختیار کی جاتی ہے یہ بہت بڑا امتحان ہوگا کہ عمران خان کس طرح اپنے قریبی ساتھی کی کرپشن کا معاملہ حل کرتے ہیں۔
موجودہ حکومت کے وزرا، مشیر اور دیگر ارکان پارلیمنٹ کا عالم یہ ہے کہ وہ عام لوگوں سے رابطے ہی میں نہیں حتیٰ کہ وہ فون تک بھی کسی کا سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ عوام کی ان تک رسائی ہی ممکن نہیں ہے، وزرا اور مشیر اور پارلیمنٹ میں قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین اور ارکان سارا دن پریس کانفرنس اور پھر شام کو ٹی وی ٹاک شوز میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ ہے ان کی کارکردگی، اِن حالات میں کس تبدیلی کی توقع رکھی جائے گی، ماضی میں قومی المیہ یہ تھا کہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی پارٹیوں میں کرپٹ لوگوں نے مل کر قومی خزانہ لوٹا جس کے ہاتھ جو لگا وہ لوٹ کر لے گیا یہی سلسلہ آصف علی زرداری کی حکومت میں بھی ہوا، کرپٹ سیاسی ایلیٹ اب مضبوط مافیا کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ تحریک انصاف میں اسی کرپٹ ایلیٹ نے اپنا کلہ مضبوط بنایا، اس وقت حکومت میں زیادہ تر وزرا نواز شریف اور زرداری ہی کے وزرا ہیں۔ شوگر، سیمنٹ، گندم اور پھر پٹرول مافیا جس انداز میں ابھی تک برقرار ہے پوری بیورو کریسی اس مافیا کے ساتھ تعاون کرتی ہے، یہ کھلی حقیقت ہے۔ اس حد تک تو یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ عمران خان نے ملک میں صنعتی میدان میں انڈسٹریز کو چلا دیا ہے، پاکستان مخالف قوتوں نے جب یہ دیکھا کہ پاکستان میں صنعتی میدان میں کام دوبارہ شروع ہوگیا ہے، ٹیکسٹائل کے شعبے میں برق رفتاری سے بیرون ملک سے ڈیمانڈ آنی شروع ہوگئی ہیں تو یورپی یونین نے پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کو بنیاد بنا کر پاکستان پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کردیا ہے جو کہ افسوس ناک ہے۔
یقینا عمران خان کی حکومت کو اندرون اور بیرونی دونوں جگہوں پر مشکلات کا سامنا ہے اور ساتھ ہی کورونا جیسی وبا نے بھی پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ان تمام حالات کا تقاضا ہے کہ ملک میں ہر سطح پر قومی یکجہتی کو برقرار رکھا جائے، اصل مسئلہ اس وقت یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عمران حکومت کو ختم کردیا جائے یا خود عمران خان اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کردیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ اب وزیراعظم عمران خان صدر پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان سے باہمی مشاورت کے بعد اپوزیشن لیڈر، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، آرمی چیف سمیت دیگر سروسز چیفس اور صوبوں کے گورنرز کو بلا کر قومی سطح کا ہنگامی اجلاس بلائیں، اس اجلاس میں پاکستان میں نظام کی تبدیلی، بیوروکریسی میں وسیع پیمانے پر آپریشن کے علاوہ عدالت عظمیٰ سے لے کر نچلی سطح تک تمام عدالتی نظام میں انقلابی تبدیلیوں کے لیے ہنگامی اقدامات کی عملی منصوبہ بندی کے لیے لائحہ عمل وضع کیا جائے، ہر سطح پر کرپشن کے خاتمے کے لیے جنگی بنیادوں پر حکمت عملی اپنائی جائے، جب تک ان تمام امور پر عملدرآمد نہیں ہوجاتا اس وقت تک قومی انتخابات کروانا بے معنی ہوگا، انتخابی اصلاحات اسی صورت میں ہوسکتی ہیں کہ جب ملک کا موجودہ نظام یکسر تبدیل ہو، موجودہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں سینیٹ آف پاکستان اپنا اعتماد کھوچکی ہیں اور ان فلورز پر اب قومی قانون سازی ناممکن ہے۔ سیاسی جماعتوں کے آپس کے اختلافات اور سابقہ حکمران خاندانوں کی کرپشن کو نظر انداز کرکے ایک بار پھر NRO کی پالیسی اپنانا کسی طور پر بھی اب قومی مفادات میں نہیں ہے جو سیاستدان بھی پاکستان سے باہر جا کر خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرے یا بیرون ملک جا کر قومی اداروں کے خلاف عوام کو اُبھارے انہی شخصیات کو پاکستان میں عوامی نمائندگی کے حق سے قانونی طور پر محروم کردیا جائے، ان تمام امور پر ڈیفنس آف پاکستان رولز کا اطلاق کرکے قومی پالیسی ہنگامی طور پر واضح ہونی چاہیے تب جا کر پاکستان میں تبدیلی ممکن ہوگی۔