یورپی پارلیمنٹ: قرارداد کے ٹیڑھے خطوط

391

دوسرا حصہ

عشق رسولؐ کی اس کیفیت سے جو عہدِ نبوی میں صحابہ کرامؓ پر طاری رہتی تھی امت کسی عہد میں خالی نہ رہی۔ جامی نے کہا تھا۔۔ نسخہ کونین را دیباچہ اوست۔۔ جملہ عالم بندگان و خواجہ اوست۔۔ (ترجمہ) آپؐ کتاب دو جہاں کا دیباچہ ہیں۔ آقا صرف آپؐ ہیں اور ساری دنیا آپؐ کے غلام کا درجہ رکھتی ہے۔
کیسے ممکن ہے! کیسے ممکن ہے؟ ناموس رسالتؐ پر سمجھوتا کرلیا جائے۔ نگاہِ شوق و تمنا ہر دم آپؐ کی تمنائی لیکن آپؐ سے رشتے کی نزاکت! اللہ اللہ! کون اس خیال کو پا سکتا ہے، مغرب! نہیں، ہرگز نہیں۔ بڑے بڑے برگزیدہ، سرور نیم شبی آشنا، مست راز آپؐ کی جناب میں نفس نفس لرزاں نظر آتے ہیں۔ اقبال مرتبہ عشق رسالت مآبؐ کے جس درجہ پر فائز تھے کلام سے ظاہر ہے۔ جب بھی سرکارؐ کا اسم مبارک زبان پر آتا آنکھیں شبنم ہوجاتیں۔ ایک طالبعلم نے ’محمد صاحب‘ کہا اقبال غصہ سے کانپنے لگے چہرہ سرخ ہوگیا کہا: ’’میرے آگے سے اسے دور کردو۔ اس نابکار کو میرے آقا و مولا کا نام لینے کی تمیز نہیں‘‘۔ روز محشر ربّ العالمین سے التجا کرتے ہوئے اقبال فرماتے ہیں: تو غنی ازہر دوعالم من فقیر۔۔ روزِ محشر عذر ہائے من پزیر۔۔ گر تومی بینی حسابم ناگزیر۔۔ ازنگاہ مصطفی پنہاں بگیر۔۔ (ترجمہ) اے ربّ ذوالجلال تیری ذاتِ اقدس دونوں جہانوں سے غنی ہے اور میں ایک فقیر خستہ جاں ہوں۔ حشر کے دن تو میری گزارشات کو پزیرائی بخشتے ہوئے میری معافی قبول فرمالینا۔ اگر میرے نامۂ اعمال کو دیکھنا لازم ہی ٹھیرے تو مجھ پر اتنا کرم کرنا کہ محمدؐ کی نظروں سے چھپائے رکھنا۔
غالب کے بارے میں فیض نے کہا تھا ’’انسانی محسوسات کے سب تیور اس نے بیان کردیے‘‘۔ غالب کا عجز بیان اس دیار میں ملاحظہ ہو۔۔ غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم۔۔ کاں ذات پاک مرتبہ داں محمد است۔۔ (ترجمہ) میں نے اللہ کی بارگاہ میں محمدؐ کی ثناء کی کیونکہ وہی ایک ذات پاک ہے جو ان کے مقام اور مرتبے سے آشنا ہے۔ ایک مغربی مفکر نے لکھا ہے: ’’جب میں مسلمانوںکے درمیان محمد (ؐ) کا ذکرسنتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے آپ (ؐ) مسلمانوں کے درمیان ہی تشریف فرماہیں۔ بے عمل سے بے عمل مسلمان بھی آپؐ سے ایسی محبت کرتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے‘‘۔
مسلمان کیسا ہی بد عمل ہو، کتنا ہی گناہ گار ہو، باہوش ہو یا بے ہوش عالی مرتبتؐ کے حضور ادنیٰ سی گستاخی برداشت نہیں کر سکتا۔ اختر شیرانی شراب کے نشے میں سرشار اور بد مست، واہی تباہی بکتے رہتے تھے۔ اس روز بھی معمول تھا۔ آباء کا، رفتگاںکا، سب کا مضحکہ اڑارہے تھے، سب پر جملے کس رہے تھے۔ ایسے میں کسی نے آقاؐ کا نام لے دیا۔ ایک لمحے کے لیے کانپ گئے، بدن تھر تھرا اٹھا، گلاس مخاطب کے سر پر دے مارا۔ ’’بدبخت ایک عامی سے آپؐ کی بابت پوچھتا ہے، ایک روسیاہ سے آپؐ کا سوال کرتا ہے، چاہتا ہے اس عالم میں آپؐ کا نام لوں‘‘۔ اس کے بعد ایسا پھوٹ پھوٹ کر روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔
اجمیر شریف میں نعتیہ مشاعرہ تھا۔ فہرست میں جگر مرادآبادی کا نام بھی شامل تھا مگر مشکل یہ کہ کیسے مدعو کیا جائے۔ وہ ٹھیرے کھلے رند۔ عوام کے نزدیک وہ اچھے اور بہت اچھے شاعر تھے لیکن پکے شرابی۔ بڑے بڑے شیوخ اور عارف باللہ ان سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گناہ گار سمجھتے تھے لیکن قابل اصلاح۔ اس رعایت کے باوجود ان کے لیے بھی جگر کو نعتیہ مشاعرے میں دعوت دینا آسان نہیں تھا۔ بہرحال بہت بحث مباحثے کے بعدطے کیا گیا کہ جگر کو مدعو کیا جائے۔ جگر کو دعوت پہنچی تو وہ سر سے پائوں تک کانپ گئے ’’میں گنہگار، رند، سیہ کار، بدبخت اور نعتیہ مشاعرہ! نہیں، صاحب نہیں‘‘۔ لاکھ زور دیا گیا۔ آنکھوں سے آنسو اور لبوں سے انکار جاری رہا۔ حمید صدیقی نے، نواب علی حسن طاہر نے کوشش کی۔ نہ مانے۔ بالآخر اصغر گونڈوی نے حکم دیا۔ چپ ہوگئے۔
سرہانے رکھی بوتل کہیں چھپادی۔ دوستوں سے کہا کچھ بھی ہوجائے کوئی شراب کا نام بھی میرے سامنے نہ لے۔ مجھے نعت کہنی ہے، اپنے آقا کی مدح لکھنی ہے۔ شراب کا ایک قطرہ بھی حلق سے اُترا تو آقا کو کیا منہ دکھائوں گا۔ شاید اسی بہانے اصلاح ہوجائے۔ اللہ کو مجھ پر رحم آجائے۔ ایک دن گزرا، دو دن گزرے۔ لکھتے رہتے کاٹتے رہتے۔ کاٹ کاٹ کر تھک گئے۔ مطمئن نہ ہوئے۔ آخر ایک دن نعت کا مطلع ہوگیا۔ پھر دوسرا شعر ہوا۔ پھر تو بارش سی ہوگئی۔ سجدے میں گرگئے۔ مشاعرے کو اس طرح روانہ ہوئے جیسے حج کو جارہے ہوں۔ دوجہاں کی دولت پاگئے ہوں۔ ادھر شہر میں ہنگامہ برپا تھا۔ احتجاجی پوسٹر لگ رہے تھے۔ ایک شرابی سے نعت! لوگ بپھرے ہوئے تھے۔ خطرہ تھا مشاعرے میں آمد کے وقت جگر صاحب پر حملہ نہ ہوجائے۔ جگر اپنے خلاف یہ سب دیکھ رہے تھے اور مسکرارہے تھے:
کہاں پھر یہ مستی، کہاں ایسی ہستی
جگر کی جگر تک ہی مے خواریاں ہیں
مشاعرے کی رات جگر کو بڑی حفاظت کے ساتھ اسٹیج تک لا یا گیا۔ اعلان ہوا ’’رئیس المتغز لین حضرت جگر مراد آبادی‘‘ احتجاج کا شور بلند ہوگیا۔ جگر گویا ہوئے ’’آپ مجھے ہوٹ کررہے ہیں یا نعت رسول پاک کو۔ جس کے پڑھنے کی سعادت مجھے ملنے والی ہے اور سننے کی آپ کو‘‘ سب کو سانپ سونگھ گیا۔ اسی لمحے ٹوٹے ہوئے دل سے جگر کی صدا بلند ہوئی۔۔ اک رند ہے اور مدحت ِ سلطان ِ مدینہ۔۔ ہاں کوئی نظر ِ رحمت ِ سلطان ِ مدینہ۔۔ جو جہاں تھا ساکت ہوگیا۔ شعر پڑھے جارہے تھے جیسے قبولیت کا پروانہ مل رہاتھا۔۔ دامان نظر تنگ وفراوانی جلوہ۔ اے طلعت حق طلعت سلطان مدینہ۔۔۔ اس طرح کہ ہرسانس ہو مصروف عبادت۔ دیکھوں میں درِ دولت سلطان مدینہ۔۔۔ اک ننگ غم عشق بھی ہے منتظر دید۔ صدقے ترے اے صورت سلطان ِ مدینہ۔۔۔ کونین کا غم یادِ خدا اور شفاعت۔ دولت ہے یہی دولت سلطان مدینہ۔۔۔ ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی یہ عالم۔ شاہوں سے سوا سطوت سلطان مدینہ۔۔۔ اس امت عاصی سے نہ منہ پھیر خدایا۔ نازک ہے بہت غیرت سلطان مدینہ۔۔۔ کچھ ہم کو نہیں کام جگر اور کسی سے۔ کافی ہے بس ایک نسبت سلطان مدینہ
اس عشق کا اندازہ مغرب کے لیے ممکن نہیں۔ مغرب دنیائے اسلام سے تصادم کے جس جنون میں مبتلا ہے اس تصادم میں مسلمانوں کی بہ نسبت مغرب کی زیادہ چیزیں خطرے کی زد میں ہیں۔ ہمارے پاس قربان کرنے کے لیے مادی چیزیں کم ہیں، روحانی چیزیں ان شاء اللہ اس خطرے سے باہر ہیں۔ مغرب کے پاس جو کچھ ہے اس تصادم میں وہ سب فنا ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام کے بارے مغرب کا رویہ مجنونانہ نفرت پر مبنی ہے۔ یہ محض ذہنی نہیں ہے بلکہ اس پر شدید جذباتی رنگ غالب ہے جس کے بعد وہ انسانیت کی سطح سے گر کر ایک ایسا حیوان بن جاتا ہے جس کے نزدیک نہ تو عقلی توجیہات کوئی اہمیت رکھتی ہیں اور نہ ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں کے جذبات اور احساسات۔ مغربی دنیا تقدیس کے تصور سے عاری ہوچکی ہے۔ ان کے نزدیک سیدنا مسیحؑ بھی زیادہ سے زیادہ ایک تاریخی شخصیت ہیں یا محض ایک روایت۔ جو مغرب خدا اور اپنے نبی کی تقدیس کا قائل نہیں وہ مسلمانوں کے عشق رسالت مآبؐ کا ادراک کیسے کرسکتا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ ڈیڑھ ہزار برس گزر جانے کے باوجود ختم الرسلؐ آج بھی مسلمانوں کے نزدیک ایک شخصیت نہیں ایک ادارہ نہیں ایسی ادب گاہ ہیں کہ مسلمان سانس لینا بھول جاتے ہیں۔ ’’محمدؐ کا مزار مبارک آسمان تلے وہ ادب گاہ ہے کہ عرش سے بھی نازک تر۔۔ جنید و بایزید ایسے جلیل القدر بھی یہاں سانس لینا بھول جاتے ہیں‘‘۔
(جاری ہے)