چوبیسواں سبق: جھوٹ

486

مطالعہ قرآن: ’’جھوٹ افترا تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اور وہی جھوٹے ہیں‘‘۔ (النحل: 501)
جھوٹ کے معنی دروغ گوئی اور غلط بیانی کے ہیں جس میں یہ بری صفت پائی جاتی ہے وہ اللہ اور انسانوںکے نزدیک بہت برا ہے۔ جھوٹ اُم الخبائث (برائیوںکی جڑ) ہے کیونکہ اس سے معاشرے میں بے شمار برائیاں جنم لیتی ہیں۔ جھوٹ بولنے والا ہر جگہ ذلیل و خوار ہوتا ہے۔ ہر مجلس اور انسان کے سامنے بے وقار ہوجاتا ہے۔ جھوٹ بولنے سے دنیا و آخرت کا نقصان ہوتا ہے۔ عذاب جہنم اور قبر کی قسم قسم کی سزائوں میں مبتلا ہوتا ہے۔ جھوٹ بولنے والے کا دل سیاہ اور بے رونق ہوجاتا ہے۔ رزق میں برکت ختم ہوجاتی ہے۔ جھوٹ انسان میں غم و فکر کو پیدا کرتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا اللہ، اس کے فرشتوںاور نبیوںکی رحمت سے دور ہوجاتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا وقتی طور پر تو مطمئن ہوجاتا ہے لیکن بعد میں اس کا ضمیر اسے ہمیشہ ملامت کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ اطمینان قلب کی دولت سے محروم رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میںجھوٹ کی مذمت سے متعلق ارشاد ہے کہ ان کے دلوںمیں مرض ہے۔ اللہ نے ان کے مرض میں اضافہ کردیا ہے اور ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (البقرہ: 9)
جھوٹ اتنا خطرناک گناہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جھوٹ کا ذکر شرک کے ساتھ کیا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: پس بتوں کی گندگی سے بچو، جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو۔ (الحج: 03) بے شک اللہ تعالیٰ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھنے والا جھوٹا ہو۔ (مومن: 82) قیامت کے دن جنہوں نے اللہ پر جھوٹ بولا ان کے چہرے سیاہ ہوں گے۔ کیا ان کا ٹھکانا جہنم میں نہ ہوگا۔ (زمر: 6)
مطالعہ حدیث: سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت میں ارشاد نبویؐ ہے کہ بلاشبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے، یہاںتک کہ وہ ’’صدیق‘‘ کا لقب حاصل کر لیتا ہے اور بلاشبہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف۔ اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ (بخاری) سیدنا ابو امامہؓ کی روایت میں ارشاد نبویؐ ہے کہ میں اس شخص کے لیے جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا ضامن ہوں جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے۔ اگرچہ وہ ہنسی مذاق ہی میں ہو۔ (ابو دائود) سیدنا معاویہ بن حیدہ قشیری ؓ کی روایت میں ارشاد نبویؐ ہے کہ تباہی ہے اس کیلیے جو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس سے لوگوںکو ہنسائے۔ تباہی ہے اس کے لیے، تباہی ہے اس کے لیے۔ (ابو دائود)
سیرت النبیؐ: عبداللہ بن عامرؓ کا کہنا ہے کہ ایک بار میری والدہ نے مجھے بلاتے ہوئے پکارا۔ ’’یہاں آئو، میں تمہیں کچھ دوںگی‘‘۔ رسول اللہ ؐ ہمارے گھر تشریف فرما تھے انہوں نے (میری والدہ کی یہ بات سن کر) ارشاد فرمایا: ’’تم اسے کیا دینے کا ارادہ رکھتی ہو‘‘۔ ام عبداللہ نے عرض کیا: ’’میں اسے کھجور دوںگی‘‘۔ تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اور اگر تم نے اسے کھجور نہ دی تو تم پر ایک جھوٹ لکھ دیا جائیگا‘‘۔ (ابو دائود) اس حدیث سے بڑا واضح سبق ملتا ہے کہ ہمیں مذاق میں بھی بچوں سے جھوٹ نہیں بولنا چاہیے اور نہ ہی ان سے کوئی جھوٹا وعدہ کرنا چاہیے۔
نبی کریم عنفوانِ شباب ہی میں صادق وا مین کے القاب سے معروف ہوگئے تھے۔ آپؐ کی اس صفت کی بدولت بدترین مخالفتوں کے ادوار میں بھی آپؐ کا ستارہ چمکتا رہا۔ جب آپؐ نے چالیس سال کی عمر میں اللہ کی طرف سے حکم ملنے پر اعلان نبوت کیا تو حالات یکسر بدل گئے۔ پوری قوم آپؐ کی مخالفت میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہر قسم کا حربہ آپؐ کے خلاف استعمال کیا جانے لگا۔ کفارجان کے دشمن بن گئے لیکن اس سارے عرصے میں آپؐ کی صداقت کا انکار کوئی نہ کرسکا۔ کوہ صفا کے مشہور خطبے میں آپؐ نے اپنا اصلی خطاب شروع کرنے سے پہلے لوگوں سے گواہی لی کیا تم لوگوں نے مجھے سچا پایا ہے یا جھوٹا تو مجمع بہ یک زبان پکار اٹھا کہ ہم نے آپ کو ہمیشہ راست گو پایا ہے، آپ ( ؐ ) نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اس گواہی کے باوجود اسی مجلس میں ابو لہب اور دیگر لوگوں نے بعد میں دعوتِ حق سے انکار کیا، رسول اللہ کو جھٹلایا اور نت نئے الزامات تراشے لیکن داعیِ حقؐ کے بارے میں ان کی وہ پہلی گواہی قولِ فیصل بن کر تاریخ کا حصہ بن گئی اور لوگوں کے ذہن میں ہمیشہ پیوست رہی۔ قریش مکہ میں آپؐ کا سب سے بڑا مخالف ابو جہل سمجھا جاتا ہے۔ وہ بھی آپ کو جھوٹا کہنے کی ہمت نہ کرسکا۔ ایک مرتبہ عرب کی ایک دوسری معروف شخصیت اخنس بن شریق نے ابوجہل سے پوچھا کہ تم جو (محمدؐ) کو جھٹلاتے ہوئے تو کیا واقعی اسے جھوٹا سمجھتے ہو؟ جواب میں اس نے کہا بخدا، میں نہیں سمجھتا کہ محمد ( ؐ ) جھوٹ بولتا ہے، لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ بنو ہاشم میں سے ہے اور ہم بنو مخزوم ہیں۔ ہم ہمیشہ سے ان کے روایتی حریف اور مد مقابل ہیں۔ مہمان نوازی سے لے کر جنگ آرائی اور جود و سخا سے لے کر شعر و خطابت تک ہر میدان میں ہم نے ان کا مقابلہ کیا ہے، اب اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو ہم اسے نبی مان کر اپنی برتری سے دست بردار ہوجائیں۔ بخدا، ایسا نہیں ہوسکتا۔
اللہ رب العالمین نے اسی واقعے کی جانب قرآن مجید میں اشارہ کرکے آپؐکو حوصلہ دیا ہے۔ ارشاد باری ہے ’’اے نبیؐ! ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں، ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں۔ آپؐ کے حق میں صداقت و امانت کی گواہی محض ابو جہل ہی نے نہیں دی بلکہ پوری قوم اس کی گواہ تھی نبی رحمتؐ نے اپنی امت کو جو ہدایات دیں، ان میں راست بازی سب سے نمایاں ہے۔