شب قدر کی عظمت اور تقاضے

402

سورۃ القدر میں اْس موعود رات کا تذکرہ ہے جس کا پوری کائنات نے فرحت و انبساط اور دعا و ابتہال کے ساتھ استقبال اور ریکارڈ کیا۔ یہ ملائِ اعلیٰ اور زمین کے مابین ربط و اتصال کی رات تھی۔ یہ جناب محمدؐ کے قلب پر نزولِ قرآن کے آغاز کی رات تھی۔ یہ اْس عظیم واقعے کی رات تھی، جس کی طرح کا کوئی واقعہ عظمت و اہمیت، حقائق کی طرف رہنمائی اور حیاتِ انسانی پر اپنے اثرات کے لحاظ سے زمین نے مشاہدہ نہ کیا تھا۔ ایسا واقعہ جس کی عظمت کو انسانی ادراک پوری طرح پا نہیں سکتا!
ترجمہ: ’’بے شک ہم نے اْسے شبِ قدر میں نازل کیا ہے! اور تم کیا جانو! شبِ قدر کیا ہے! شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘۔ (القدر: 1-3)
قرآنی آیات، جو اس واقعے کو بیان کرتی ہیں، گویا نور سے جگمگ جگمگ کر رہی ہیں! وہ اللہ کے نور کو جو پْرسکون، خوش منظر، محبت سے بھرپور اور کائنات میں جاری و ساری ہے اور جو قرآن میں پھیلا ہوا ہے، ہر سْو بکھیر رہی ہیں! ’’بے شک ہم نے اْسے ’شبِ قدر‘ میں نازل کیا ہے!‘‘
اللہ کے نور کے ساتھ فرشتوں اور روح الامین کے نور اور پوری رات زمین اور ملائِ اعلیٰ کے مابین اْن کی آمد ورفت سے بھی یہ آیات معمور ہیں:
’’فرشتے اور روح الامین اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم کو لے کر اْترتے ہیں‘‘۔ (القدر: 4)
اسی کے ساتھ یہ آیات صبح کے نور کو، جو نورِ وحی اور نورِ ملائکہ سے ہم آہنگ ہے اور سلامتی کی روح کو جو پوری کائنات کی ارواح میں جاری و ساری ہے، پیش کرتی ہیں:
’’سراسر امن وسلامتی (کی رات!) یہ صبح کے طلوع ہونے تک‘‘۔ (القدر: 5)
جس رات کا اِس سورت میں ذکر ہے، یہ وہی رات ہے جس کا ذکر سورہ دخان میں اِس طرح ہے:
’’بے شک ہم نے اِس (قرآن) کو ایک بابرکت رات میں اْتارا ہے۔ یقیناً ہم (قرآن کے ذریعے) لوگوں کو خبردار کرنے والے ہیں۔ اس رات میں تمام حکیمانہ امور ہمارے حکم سے طے ہوتے ہیں۔ بے شک ہم ہی رسول بھیجنے والے ہیں۔ یہ تمھارے رب کی رحمت کے باعث ہے۔ یقیناً وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے‘‘۔ (الدخان: 6۔3)
یہ معروف ہے کہ شبِ قدر رمضان ہی کی ایک رات ہے، جیساکہ سورہ بقرہ میں ہے:
’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا جو انسانوں کے لیے ہدایت ہے اور جس میں ہدایت کے واضح دلائل اور حق و باطل میں فرق کرنے والی واضح تعلیمات ہیں‘‘۔ (البقرہ: 185)
یعنی رمضان المبارک کی اِس رات میں قرآن مجید کے نزول کی ابتدا ہوئی تاکہ آپ اْس کی تعلیمات لوگوں تک پہنچائیں۔ ابنِ اسحاق کی روایت ہے کہ سب سے پہلے سورہ علق کی ابتدائی آیات کی وحی رمضان المبارک کے مہینے میں ہوئی، جب کہ رسول اللہؐ اللہ کی عبادت کے لیے غارِ حرا میں خلوت گزیں تھے۔
یہ رات کون سی ہے!
اس سلسلے میں بہت سی روایات ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی 27 ویں شب ہے۔ کچھ اور روایات سے 21 ویں شب۔ بعض دوسری روایات سے واضح ہوتا ہے کہ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے ایک رات ہے اور کچھ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی کوئی ایک رات ہے… بہرحال زیادہ راجح بات یہ ہے کہ شبِ قدر رمضان ہی کی ایک رات ہے۔
اس رات کا نام لَیلَۃُ القَدر کیوں ہے؟ ’قدر‘ کا ایک مفہوم ہے: ’منصوبہ بندی اور تدبیرِ امر‘۔ دوسرا مفہوم ہے ’قدر وقیمت اور مقام‘ اور دونوں ہی مفہوم اس عظیم واقعے… قرآن، وحی اور رسالت کے سلسلے میں صحیح ہیں۔ کائنات میں اس سے زیادہ عظیم کوئی واقعہ نہیں، نہ اس سے زیادہ کوئی واقعہ بندوں کی تقدیر اور تدبیرِ امر سے متعلق ہے۔
’شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘ قرآن مجید میں اس طرح کے مواقع پر عدد سے کوئی مخصوص تعداد مراد نہیں ہوتی! اس سے صرف کثرت کا اظہار مقصود ہوتا ہے، یعنی یہ رات نوعِ انسانی کی زندگی کی ہزارہا راتوں سے بہتر ہے! ہزاروں مہینے اور ہزارہا سال گزر جاتے ہیں اور حیاتِ انسانی پر اْن کے اثرات اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں پڑتے جتنے اِس مبارک اور سعید رات نے انسانی زندگی پر ڈالے۔
اِس رات کی عظمت کی حقیقت انسانی فہم و ادراک سے ماورا ہے۔ ’’اور تم کیا جانو! شبِ قدر کیا ہے‘‘۔ اس رات کے سلسلے میں جو افسانوی داستانیں عوام میں پھیلی ہوئی ہیں، اس کی عظمت کا اْن سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ اس لیے عظیم ہے کہ اسے قرآن کے (جس میں عقیدہ، فکر، قانون اور زندگی کے وہ تمام اصول و آداب ہیں جن سے زمین اور انسانی ضمیر کی سلامتی وابستہ ہے) نزول کے آغاز کے لیے منتخب کیا گیا۔ یہ اس لیے بھی عظیم ہے کہ اس میں ملائکہ بالخصوص جبرئیل علیہ السلام اپنے رب کے اِذن کے ساتھ قرآن لے کر زمین پر نازل ہوئے۔ اور پھر یہ فرشتے کائنات کے اس جشنِ نوروز کے موقع پر زمین و آسمان کے مابین پھیل گئے۔ یہ سورت اِن امور کی عجیب و غریب انداز میں تصویر کشی کرتی ہے۔
آج جب ہم ان طویل صدیوں کے پیچھے سے اِس بزرگ اور سعید رات کی طرف دیکھتے ہیں اور اس عجیب جشنِ نوروز کا تصور کرتے ہیں جس کا مشاہدہ اْس رات زمین نے کیا اور اْس رات میں جس امر کی تکمیل ہوئی، اس کی حقیقت پر غور کرتے ہیں اور زمانے کے مختلف مراحل، زمین کے واقعات اور قلوب و اذہان کے تصورات و افکار پر اس کے دور رس اثرات کو دیکھتے ہیں تو ہم واقعتا ایک عظیم امر کا مشاہدہ کرتے ہیں اور قرآن مجید نے ’’اور تم کیا جانو! شبِ قدر کیا ہے!‘‘ کہہ کر اْس رات کی عظمت کی طرف جو اشارہ کیا ہے، اْسے ہم تھوڑا سا سمجھ پاتے ہیں۔
اِس رات میں تمام حکیمانہ امور کا فیصلہ ہوا۔ اس رات میں قدریں، بنیادیں اور پیمانے وضع ہوئے۔ اس میں افراد کی قسمتوں سے بڑھ کر قوموں، نسلوں اور حکومتوں کی قسمتوں کا فیصلہ ہوا بلکہ اس سے بھی زیادہ عظیم امر، حقائق، طور طریق اور قلوب کی قدریں طے ہوئیں۔
نوعِ انسانی اپنی جہالت و بدبختی سے اِس شب کی قدر وقیمت، اس واقعے ’وحی‘ کی حقیقت اور اس معاملے کی عظمت سے غافل ہے، اور اس جہالت و غفلت کے نتیجے میں وہ اللہ کی بہترین نعمتوں سے محروم ہے۔ وہ سعادت اور حقیقی سلامتی، دل کی سلامتی، گھر کی سلامتی اور سماج کی سلامتی کو، جو اسلام نے اسے بخشی تھی، کھو چکی ہے۔ مادی ارتقا اور تہذیب وتمدن کے جو دروازے آج نوعِ انسانی پر کھلے ہیں، اْس سے اِس محرومی کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ آج انسانیت شقاوت و بدبختی کا شکار ہے حالانکہ پیداوار کی افراط ہے اور وسائلِ معاش کی بہتات۔
حسین و جمیل نور، جو انسانیت کی روح میں ایک بار چمکا تھا، بجھ چکا ہے۔ ملائِ اعلیٰ سے ربط و تعلق کی فرحت و انبساط کا خاتمہ ہوچکا ہے اور ارواح و قلوب پر سلامتی کا جو فیضان تھا، وہ مفقود ہوچکا ہے۔ روح کی اِس مسرت، آسمان کے اس نور اور ملائِ اعلیٰ سے ربط و تعلق کی مسرت کا کوئی بدل اسے نہیں مل سکا ہے!
ہم اہلِ ایمان مامور ہیں کہ اِس یادگار واقعے کو فراموش نہ کریں، نہ اْس سے غافل ہوں۔ ہمارے نبیؐ نے ہماری ارواح میں اس یاد کو تازہ رکھنے کا بہت آسان طریقہ مقرر فرما دیا تاکہ ہماری ارواح اْس رات سے اور جو کائناتی واقعہ ’وحیِ آسمانی‘ اس میں رونما ہوا، اس سے ہمیشہ وابستہ رہیں۔ آپ نے ہمیں اس بات پر اْبھارا کہ شبِ قدر کو ہم ہر سال رمضان کے آخری عشرے کی راتوں میں ڈھونڈیں اور اس رات میں جاگ کر اللہ کی عبادت کریں۔ بخاری اور مسلم میں ہے: ’’شبِ قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو‘‘۔ اور صحیحین ہی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جس کسی نے شبِ قدر میں اللہ کی عبادت ایمان اور احتساب کی حالت میں کی، اْس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔
اسلام ظاہری شکلوں اور رسموں کا نام نہیں ہے۔ اسی واسطے رسول اللہؐ نے ’شبِ قدر‘ کی عبادت کے بارے میں فرمایا کہ وہ ’ایمان‘ اور ’اِحتساب‘ کی حالت میں ہو۔ ایمان کا مطلب یہ ہے کہ شبِ قدر جن عظیم مطالب و معانی سے وابستہ ہے (دین، وحی، رسالت اور قرآن) انھیں ہم ذہن میں تازہ کریں، اور ’احتساب‘ کا مطلب یہ ہے کہ عبادت صرف اللہ کی رضا کے لیے اور اخلاص کے ساتھ ہو۔ اسی صورت میں قلب کے اندر اْس عبادت کی متعینہ حقیقت زندہ و بیدار ہوسکتی ہے اور قرآن جس تعلیم کو لے کر آیا ہے، اس سے ربط و تعلق قائم ہوسکتا ہے۔

تربیت کا اسلامی نظام، عبادت اور قلبی عقائد کے درمیان ربط قائم کرتا ہے اور اْن ایمانی حقائق کو زندہ رکھنے، انھیں واضح کرنے اور انھیں زندہ صورت میں مستحکم بنانے کے لیے عبادات کو بطور ذریعے کے استعمال کرتا ہے تاکہ یہ ایمانی حقائق غور وفکر کے دائرے سے آگے بڑھ کر انسان کے احساسات اور اس کے قلب و دماغ میں اچھی طرح پیوست ہوجائیں۔
یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ تربیت کا یہی نظام اِن حقائق کو زندہ و تازہ رکھنے اور دل کی دنیا اور عمل کی دنیا میں انھیں حرکت بخشنے کے لیے موزوں ترین نظام ہے۔ یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ ان حقائق کا صرف نظری علم، عبادت کی معاونت کے بغیر اِن حقائق کو زندہ و برقرار نہیں رکھ سکتا اور نہ کسی اور طریقے سے ہی ممکن ہے اور نہ اِس نظام کے بغیر ان حقائق کو فرد اور معاشرے کی زندگی میں قوتِ محرکہ کی حیثیت حاصل ہوسکتی ہے۔
شبِ قدر کی یاد اور اس میں ایمان و احتساب کے ساتھ اللہ کی عبادت، اِس کامیاب اور بہترین اسلامی نظامِ تربیت کا ایک جزو ہے۔ (فی ظلال القرآن)