عید الفطر کے احکام ومسائل

447

عید الفطر کی شب میں عبادت کرنا مستحب ہے، جیساکہ حدیث میں ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: رمضان کے متعلق میری امت کو خاص طور پر پانچ چیزیں دی گئی ہیں، جو پہلی امتوں کو نہیں ملیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ رمضان کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ کیا یہ شب ِمغفرت شب ِقدر ہی تو نہیں ہے؟ آپؐ نے فرمایا نہیں، بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کا کام ختم ہوتے ہی اسے مزدوری دے دی جاتی ہے۔ (مسند احمد، بزار ، بیہقی، ابن حبان) معلوم ہوا کہ عید کی رات میں بھی ہمیں عبادت کرنی چاہیے اور اِس بابرکت رات میں خرافات میں لگنے اور بازاروں میں گھومنے کے بجائے عشاء اور فجر کی نمازوں کی وقت پر ادائیگی کرنی چاہیے، نیز تلاوتِ قرآن، ذکر واذکار اور دعاؤں میں اپنے آپ کو مشغول رکھنا چاہیے یا کم از کم نمازِ عشاء اور نماز فجر جماعت کے ساتھ ادا کریں۔
عید الفطر کے بعض مسائل اور احکام
اسلام نے عید الفطر کے موقع پر شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے مل جل کر خوشیاں منانے کی اجازت دی ہے۔ احادیث میں وارد ہے کہ نبی اکرمؐ جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں دیکھا کہ لوگ دو دنوں کو تہوار کے طور پر مناتے ہیں۔ آپؐ نے جب اہل مدینہ سے دریافت کیا کہ یہ دو دن کیسے ہیں جن میں وہ کھیل کود میں مشغول رہتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں؟ تو انصار نے جواب دیا کہ ہم لوگ زمانۂ قدیم سے ان دونوں دنوں میں خوشیاں مناتے چلے آرہے ہیں۔ یہ سن کر نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان دو دنوں سے بہتر دو دن مقرر فرمائے ہیں، ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحی۔ (ابوداود)
عید الفطر کے دن روزہ رکھنا حرام ہے، جیسا کہ نبی اکرمؐ کے ارشادات میں وارد ہوا ہے۔
عید کے دن غسل کرنا، مسواک کرنا، حسب ِاستطاعت عمدہ کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، صبح ہونے کے بعد عید کی نماز سے پہلے کھجور یا کوئی میٹھی چیز کھانا، عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا، ایک راستے سے عیدگاہ جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا، نماز کے لیے جاتے ہوئے تکبیر کہنا: ’’اَللہْ اَکبَر، اَللہْ اَکبَر،لَا اِلہَ اِلَّا اللہ، وَاللہْ اَکبَر، اَللہْ اَکبَر، وَلِلہِ الحَمد‘‘ یہ سب عید کی سنتوں میں سے ہیں۔
نبی اکرمؐ عید الفطر میں نماز سے پہلے کچھ کھاکر جاتے تھے اور عید الاضحی میں بغیر کھائے جاتے تھے۔ (ترمذی)
عید الفطر کے روز نماز عید سے قبل نماز اشراق نہ پڑھیں۔ (بخاری ومسلم)
عید الفطر کے دن دو رکعت نماز جماعت کے ساتھ بطور شکریہ ادا کرنا واجب ہے۔
عید الفطر کی نماز کا وقت طلوع ِآفتاب کے بعد سے شروع ہوجاتا ہے۔
عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز میں زائد تکبیریں بھی کہی جاتی ہیں، جن کی تعداد میں فقہاء کا اختلاف ہے، البتہ زائد تکبیروں کے کم یا زیادہ ہونے کی صورت میں امت مسلمہ نماز کے صحیح ہونے پر متفق ہے۔80 ہجری میں پیدا ہوئے مشہور فقیہ ومحدث امام ابوحنیفہؒ نے 6 زائد تکبیروں کے قول کو اختیار کیا ہے، جس کے متعدد دلائل میں سے تین دلائل پیش خدمت ہیں:
سعید بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ابوموسیٰ اشعریؓ اور حذیفہ بن الیمانؓ سے سوال کیا کہ رسول اللہؐ عیدالاضحی اور عید الفطر میں کتنی تکبیریں کہتے تھے؟ ابوموسیٰ اشعریؓ نے جواب دیا: چار تکبیریں کہتے تھے جنازے کی تکبیروں کی طرح۔ حذیفہؓ نے (ابوموسیٰ اشعریؓ کی تصدیق کرتے ہوئے) کہا کہ انہوں نے سچ کہا۔ ابوموسیٰ اشعریؓ نے بتایا کہ جب میں بصرہ میں گورنر تھا تو وہاں بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ (سنن ابی داؤد۔ باب التکبیر فی العیدین، السنن الکبری للبیہقی۔ باب فی ذکر الخبر الذی قد روی فی التکبیر اربعاً)
احادیث کی متعدد کتابوں میں جلیل القدر صحابی عبداللہ بن مسعودؓ سے عیدین کی چار تکبیریں (پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے ساتھ اور دوسری رکعت میں رکوع کی تکبیر کے ساتھ) منقول ہیں۔ یاد رکھیں کہ امام ابوحنیفہؒ، عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگردوں کے خصوصی شاگرد ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ ہی عبداللہ بن مسعودؓ کی قرآن وحدیث فہمی کے حقیقی وارث بنے۔
امام طحاویؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ کی وفات کے بعد تکبیراتِ جنازہ کی تعداد میں اختلاف ہوا۔ عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں صحابہ کرامؓ نے باہمی غور وخوض کے بعد اس امر پر اتفاق کیا کہ جنازے کی بھی چار تکبیریں ہیں نماز عیدالاضحی اور عید الفطر کی چار تکبیروں کی طرح (پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے ساتھ اور دوسری رکعت میں رکوع کی تکبیر کے ساتھ)۔ (طحاوی) غرضیکہ عہد فاروقی میں اختلافی مسئلہ ’’تکبیراتِ جنازہ‘‘ کو طے شدہ مسئلہ ’’تکبیراتِ عید‘‘ کے مشابہ قرار دے کر چار کی تعیین کردی گئی۔
عید کی نماز کے بعد امام کا خطبہ پڑھنا سنت ہے، خطبہ شروع ہوجائے تو خاموش بیٹھ کر اْس کا سننا واجب ہے۔ جو لوگ خطبے کے دوران بات چیت کرتے رہتے ہیں یا خطبہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں۔