عید کی تیاری

499

ایک فتنہ عید کی تیاری کا ہے، جو عید الفطر میں زیادہ اور بقر عید کے موقع پر کچھ کم برپا ہوتا ہے، عید الفطر اور عید الاضحی کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے بلاشبہ مسرت کا دن قرار دیا اور اتنی بات بھی شریعت سے ثابت ہے کہ اس روز جو بہتر سے بہتر لباس کسی شخص کو میسر ہو وہ لباس پہنے، لیکن آج کل اس غرض کے لیے جن بے شمار فضول خرچیوں اور اسراف کے ایک سیلاب کو عیدین کے لوازم میں سمجھ لیا گیا ہے، اس کا دین وشریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
آج یہ بات فرض واجب سمجھ لی گئی ہے کہ کسی شخص کے پاس مالی طور پر گنجائش ہو یا نہ ہو، لیکن وہ کسی نہ کسی طرح گھر کے ہر فرد کے لیے نئے سے نئے جوڑے کا اہتمام کرے، گھر کے ہر فرد کے لیے جوتے ٹوپی سے لے کر ہر چیز نئی خریدے، گھر کی آرائش وزیبائش کے لیے نت نیا سامان فراہم کرے، اور ان تمام امور کی انجام دہی میں کسی سے پیچھے نہ رہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ ایک متوسط آمدنی رکھنے والے شخص کے لیے عید اور بقر عید کی تیاری ایک مستقل مصیبت بن چکی ہے، اس سلسلے میں وہ اپنے گھر والوں کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے جب جائز ذرائع کو ناکافی سمجھتا ہے تو مختلف طریقوں سے دوسروں کی جیب کاٹ کر وہ روپیہ فراہم کرتا ہے، تاکہ ان غیر متناہی خواہشات کا پیٹ بھر سکے، اور اس عید کی تیاری کا کم سے کم نقصان تو یہ ہے ہی کہ رمضان اور خاص طور سے آخری عشرے کی راتیں اور اسی طرح بقر عید کے پہلے عشرے کی راتیں بالخصوص بقر عید کی شب جو گوشۂ تنہائی میں اللہ تعالیٰ سے عرض ومناجات اور ذکر وفکر کی راتیں ہیں وہ سب بازاروں میں گزرتی ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ رمضان المبارک کے آخری دس دن اور ان کی راتیں، عید اور شب ِعید بڑی مبارک ہیں اور آخرت کمانے کا بہترین سیزن ہے، بندۂ مؤمن جس کی زندگی کا مقصد صرف حق تعالیٰ کی رضا اور حصولِ جنت ہے اس کے لیے یہ بہت ہی نادر موقع ہے، جو حق تعالیٰ نے محض اپنی رحمت سے عطا فرمایا ہے، ان ایام اور مبارک لیل ونہار کو بے حد غنیمت سمجھا جائے اور ہر شخص کو اپنی طاقت کے مطابق ان ایام میں زیادہ سے زیادہ عبادت وطاعت، ذکر وتلاوت، تسبیح ومناجات اور توبہ واستغفار کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے اور زیادہ نفلی عبادت وطاعت نہ کرسکے تو کم از کم مذکورہ بالا اور دیگر گناہوں سے تو اپنے کو دور ہی رکھے اور تمام رات کوئی نہ جاگ سکے تب بھی کچھ حرج نہیں، آسانی اور بشاشت کے ساتھ جتنی دیر جاگ کر عبادت کرسکے اتنا ہی کر لے۔
عید کے دن بارہ چیزیں مسنون ہیں:
1) اپنی آرائش کرنا۔ 2) غسل کرنا۔ 3) مسواک کرنا۔ 4) عمدہ سے عمدہ کپڑے جو پاس موجود ہوں وہ پہننا۔ 5) خوشبو لگانا۔ 6) صبح سویرے اٹھنا۔ 7) عید گاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر دے دینا۔ 8) عید گاہ میں بہت سویرے جانا۔ 9) عید گاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز مثلاً چھوہارے وغیرہ کھانا۔ 10) نماز عید گاہ میں جاکر پڑھنا اور عید گاہ سے واپسی پر دوسرا راستہ اختیار کرنا۔ 11) پاپیادہ جانا۔ 12) راستے میں اللہ اکبر اللہ اکبرلا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد پڑھنا، جہاں عید کی نماز پڑھی جائے وہاں نماز سے پہلے اور بعد کوئی اور نماز پڑھنا مکروہ ہے، نمازِ عید کے لیے عید گاہ جانا سنت ِمؤکدہ ہے، نبی کریمؐ اپنی مقدس مسجد کو انتہائی فضیلت کے باوجود عیدین کے دن چھوڑ دیتے تھے اور عید گاہ تشریف لے جاتے تھے۔
عید الفطر کی نماز کا طریقہ
عید الفطر کی نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس طرح نیت کرے: میں نے دو رکعت واجب نماز ِعید کی چھ واجب تکبیروں کے ساتھ نیت کی، نیت کے بعد ہاتھ باندھ لے اور سبحانک اللھم پڑھ کر تین مرتبہ اللہ اکبر کہے اور ہر مرتبہ تکبیر تحریمہ کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور بعد تکبیر کے ہاتھ لٹکا دے اور ہر تکبیر کے بعد اتنی دیرٹھہرے کہ تین مرتبہ سبحان اللہ کہہ سکیں، تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ لٹکانے کے بجائے باندھ لے اور اعوذباللہ، بسم اللہ پڑھ کر سورہ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھ کر حسب ِ دستور رکوع اور سجدے کرکے کھڑا ہو اور دوسری رکعت میں پہلے سورۃ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ لے، اس کے بعد تین تکبیریں اس طرح کہے جس طرح پہلی رکعت میں کہی ہیں، البتہ دوسری رکعت میں تیسری تکبیر کہنے کے بعد ہاتھ باندھنے کے بجائے لٹکائے رکھے اور پھر تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے۔