صدقہ فطر کی حقیقت‘ اہمیت اور مسائل

554

فطر کے معنی روزہ افطار کرنے یا روزہ نہ رکھنے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رمضان شریف کے روزے ختم ہونے کی خوشی میں شکریہ کے طور پر یہ صدقہ مقرر فرمایا ہے، اسی کو صدقہ فطر کہتے ہیں۔ رمضان کے روزے ختم ہونے کی خوشی میں جو عید منائی جاتی ہے اس کو اسی لیے عیدالفطر کہا جاتا ہے۔ صدقہ فطر ہر مسلمان صاحب نصاب پر واجب ہے، جو نصاب زکوٰۃ کا ہے وہی اس کا بھی ہے، فرق دونوں میں یہ ہے کہ زکوٰۃ واجب ہونے کے لیے تو چاندی یا سونا یا مال تجارت ہونا اور اس پر ایک سال گذرنا شرط ہے، اور صدقہ فطر واجب ہونے کے لیے ان باتوںکی ضرورت نہیں، بلکہ اس کے واجب ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ضروری سامان کے علاوہ کسی کے پاس اتنا مال و اسباب ہو جس پر زکوٰۃ واجب ہوگئی ہے، تو اس پر صدقہ فطر واجب ہے، اس پر سال گزرنا شرط نہیں ہے۔ مثلاً کسی کے پاس استعمالی کپڑوں سے زیادہ کپڑے رکھے ہوئے ہیں، یا کسی کا کوئی ذاتی مکان خالی پڑا ہے، یا اسی قسم کا کوئی اور سامان اور اسباب ہے جو اس کی حاجت اور ضرورت سے زائد ہے اور ان چیزوں کی قیمت نصاب کے برابر یا زیادہ ہے تو ایسے شخص پر صدقہ فطر واجب ہے۔ حدیث میں صدقہ فطر کی بہت تاکید آئی ہے۔آپؐ نے ایک آدمی کو مقرر کرکے مکہ معظمہ کے گلی کوچوں میں یہ اعلان کرایا کہ صدقہ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے، مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا، آزاد ہو کہ غلام۔ (ابوداؤد)جناب نبی کریمؐ ارشاد فرماتے ہیں: جس شخص نے عید کی نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کر دیا تو یہ زکوٰۃ مقبولہ ہے، اور جس شخص نے عید کی نماز کے بعد ادا کیا تو وہ صدقوں میں ایک صدقہ ہے‘‘۔ (دارقطنی، بیہقی) رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ماہ رمضان کا روزہ آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتا ہے، اور بغیر صدقہ فطر کے اوپر نہیں اٹھایا جاتا۔ (انوارالصوم) صدقہ فطر غرباء کے کھانے کی غرض سے مقرر کیا گیا ہے، اور اس لیے (بھی) مقرر کیا گیا ہے کہ روزوں میں جو کوتاہی ہوگئی ہو وہ دور ہو جائے، روزوں میں کبھی لغو اور بے ہودہ بات ہو جاتی ہے وہ صدقہ فطر سے معاف ہو جائے۔ (ابوداؤد) عبداللہ بن ثعلبہ یا ثعلبہ بن عبداللہ بن صغیرؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک صاع گیہوں ہر شخص کے ذمے ہے، بچہ ہو یا بڑا، آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت، غنی ہو یا فقیر۔ غنی کو تو اللہ تعالیٰ (صدقہ فطر کی وجہ سے) پاک کر دیتے ہیں (اس کی جان اور مال دونوں کو) اور فقیر کو اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ واپس کر دیتے ہیں، جو اس نے (صدقہ میں) دیا ہے۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ) اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ فطر فقیروں پر بھی ہے، اسی وجہ سے بعض علماء کے نزدیک فقراء اور مساکین پر بھی صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے، اور دلیل ان کی یہ ہے کہ صدقہ فطر کے واجب ہونے کی علت اور مصلحت یہ ہے کہ اس سے روزے دار ان بے ہودہ اور لغو باتوں سے پاک ہو جاتا ہے جو روزے میں اس سے سرزد ہو جاتی ہیں، کیونکہ روزے میں ایک نہ ایک بات روزے کے آداب کے خلاف ہو ہی جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدقہ فطر جب فقیر پر بھی واجب ہوگیا تو پھر کس کو دیا جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپؐ نے صدقہ فطر کی علت اور مصلحت بتا کر اس کی اہمیت لوگوں کے ذہن میں بٹھائی ہے، تاکہ لوگ اس کے ادا کرنے میں غفلت اور سستی نہ کریں۔ اب رہا یہ سوال کہ جب خود فقراء پر صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہوا تو کس کو دیا جائے، تو اس کی صورت یہ ہے کہ مالدار لوگ غرباء کو دیں، اور غرباء اپنے سے زیادہ غریب اور محتاج کو دیں۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ فقراء کے ذمے صدقہ فطر واجب نہیں، اگر ان پر بھی ضروری قرار دیا جائے تو پھر مستحق کون رہے گا، ویسے فقراء بھی ادا کر دیں تو ثواب ان کو بھی ملے گا۔ (در مختار)
صدقہ فطر کے مسائل:
مسئلہ: کسی شخص کے پاس ضروری اسباب (یعنی اپنی حاجت) سے زیادہ مال و اسباب ہے اور وہ قرض دار بھی ہے تو یہ اندازہ کر کے دیکھا جائے کہ قرضہ ادا کرنے کے بعد کتنا مال بچتا ہے، اگر اتنی قیمت کا مال بچ جائے جتنے پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، تو اس پر صدقہ فطر واجب ہے، اور اتنی مقدار سے کم ہو تو واجب نہیں۔ (در مختار، ج 1)
مسئلہ: اگرکوئی شخص عید کے دن صبح صادق سے پہلے مر گیا تو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں، اس کے چھوڑے ہوئے مال میں سے نہ دیا جائے۔ (عالمگیری)
مسئلہ: مستحب اور زیادہ ثواب کی بات یہ ہے کہ عید کی نماز پڑھنے جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کر دیا جائے۔ (عالمگیری)
مسئلہ: اگر صدقہ فطر کوئی شخص رمضان میں دیدے تو دوبارہ دینے کی ضرورت نہیں۔ (در مختار، ج 2)
مسئلہ: اگر کوئی شخص عید کے دن صدقہ فطر نہ دے سکا تو بعد میں دیدے۔ (ہدایہ ج1)
مسئلہ: کسی نے اگر کسی وجہ سے رمضان کے روزے نہیں رکھے تو اس پر بھی صدقہ فطر واجب ہے، روزہ رکھنے والے اور نہ رکھنے والے میں کوئی فرق نہیں۔ (عالمگیری، ج1)
مسئلہ: ایک آدمی کا صدقہ فطر ایک محتاج کو یا تھوڑا تھوڑا کئی کو دے سکتا ہے۔ (در مختار، ج 2)
مسئلہ: کئی آدمی مل کر ایک محتاج کو بھی صدقہ فطر دے سکتے ہیں، لیکن وہ صدقہ فطر اتنا زیادہ نہ ہو کہ مقدار زکوٰۃ کو پہنچ جائے۔ (در مختار، ج 2)
مسئلہ:صدقہ فطر میں اگر غلہ یا کپڑے کی بجائے قیمت دیدے تو زیادہ ا چھا ہے۔ (عالمگیری، ج 1)
مسئلہ:جن لوگوں کو زکوٰۃ دینی جائز ہے وہی لوگ صدقہ فطر کے بھی مستحق ہیں۔(درمختار ، ج 2)
مسئلہ:مرد پر صدقہ فطر اپنی اور اپنی چھوٹی اولاد کی طرف سے بھی واجب ہے، ایسے ہی جو بچہ عید کے دن صبح صادق سے پہلے پیدا ہو، اس کا بھی صدقہ فطر دیا جائے۔ (در مختار)
صدقہ فطر کن لوگوں کو دینا جائز ہے:
مسئلہ:جن لوگوں کو زکوٰۃ دینی جائز ہے ان کو صدقہ فطر دینا بھی جائز ہے، مثلاً بھائی، بہن، بھتیجی، بھانجی، چچا، پھوپھی، خالہ، ماموں، سوتیلا باپ، سوتیلی ماں، دادا، ساس، سسر، سالہ، سالی وغیرہ، ان سب کو زکوٰۃ اور صدقہ فطر دینا جائز ہے۔ (شامی) نیز صدقہ فطر بطور عیدی بھی دیا جا سکتا ہے۔
کن لوگوں کو صدقہ فطر دینا جائز نہیں:
ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی، پردادا، پردادی، بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسا، نواسی، خاوند، بیوی وغیرہ ان سب کو زکوٰۃ و صدقہ فطر دینا ناجائز ہے۔