انصاف اور قانون

777

یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ وطن عزیز میں انسان اور آدمی میں بہت فرق ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس تفرقے کی بنیاد کس نے رکھی انسان اور آدمی کو مختلف درجات میں کس نے تقسیم کیا۔ یہاں انسان کہلانے کا مستحق وہی شخص ہے جو با اثر ہو صاحب ثروت ہو عام مشاہدہ یہ بھی ہے کہ جب مال و زر بے اثر ہوجائے تو ثروت خانم ایوان اقتدار کا دروازہ کھلوا دیتی ہے۔ جو ثروت خانم کا خانہ زاد ہو اس سے حکمرانی کی توقع رکھنا حماقت کی انتہا ہے۔ پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ انصاف سب کے لیے ہے کوئی بھی شخص قانون سے بالا تر نہیں یہ بھی باور کرایا جاتا ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے قانون کے کان بھی نہیں ہوتے گویا قانون کان ٹوٹا ہوتا ہے حالانکہ کان تو دیواروں کے بھی ہوتے ہیں۔ ایوان عدل کی دہلیز سے رزق چننے والے کہتے ہیں کہ قانون اندھا ہوتا ہے اور اندھے کی لاٹھی کسی کے سر پر بھی پڑ سکتی ہے سو اس پر کسی تعزیز کا اطلاق نہیں ہوتا مگر مطالعہ مشاہدہ چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ قانون کی دونوں آنکھیں سلامت ہیں۔ اور بصارت بے مثال ہے اصل میں اندھا قانون کی مسند پر براجمان شخص ہوتا ہے جج صاحبان کا ارشادگرامی ہے کہ فیصلہ شہادت اور ثبوتوں کے مطابق ہوتا ہے ان کا یہ فرمان دیدہ دلیری کی انتہا ہے بہت سے جج صاحبا ن اس حقیقت کا ادارک رکھتے ہیں کہ گواہ کرائے کے ہوتے ہیں اور ثبوت جعل سازوں کی مہارت کا شہکار ہوتے ہیں۔
پاکستان کے اکثر سوٹٹ بوٹٹ لوگوں کا کہنا ہے کہ 1973کا آئین بنانے والا شخص بہت ذہین اور فطین تھا اس نے قوم کو آئین دے کر ایک ایسا احسان کیا ہے کہ جو انمول ہے۔ مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بھٹو مرحوم نے 1973کا آئین تسلیم کرانے کے لیے کیسے کیسے حربے استعمال کیے تھے۔ 73کے آئین کو متفقہ کہنا ایک متفقہ جھوٹ ہے بہاولپورکے دو ارکان اسمبلی نے دستخط کرنے سے صاف انکار کردیا تھا ممکن ہے کہ کچھ اور لوگوں نے بھی انکار کیا ہوگا مگر ہم ان سے لاعلم ہیں سیاست کے ولی ولی خان نے بتایا تھا کہ سول مارشل لا سے جان چھڑانے کے لیے بھٹو کی بات ماننے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا اور یہ بات بھی ذہین میں رکھنا چاہیے کہ وزیر اعظم کی مسند پر جلوہ افروز ہوتے ہی بھٹو مرحوم نے 73کے آئین کے بخیے ادھیڑنا شروع کردیے تھے۔ اگر کچھ اور وقت مل جاتا تو 73کے آئین کا نام ونشان مٹ چکا ہوتا ہمارے مسائل اور مشکلات کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ حکمران اور ان کے چیلے چاٹے تاریخ کو جھوٹ کا پلندہ بنانے کی جتن کررہے ہیں۔ جو تاریخ کاغذ کے بجائے بدن پر لکھی جائے وہ قابل اعتبار نہیں ہوتی اقوام عالم انہیں مسترد کردیتی ہے حکومت کے حاشیہ برداروں کی نظر میں لمحہ موجود ہی سب کچھ ہوتا ہے حکمرانو ںکی خوش نودی ہی ان کی خوشی کا وسیلہ ہوتا ہے۔
وطن عزیز کا طرز حکمرانی ایسے خطوط پر استوار کیا گیا ہے کہ یہاں وسیلے کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا سوائے اس کے کہ حلف اٹھانے والے حلف اٹھاتے رہے اور بٹھل اٹھانے والے بٹھل اٹھاتے رہے۔ خدا جانے نظام عدل کے کرتا دھرتائوں کی لغت میں انصاف اور قانون کے کیا معنی ہیں۔ مسند انصاف پر خدا کے نائب کے بجائے ابلیس کے جان نشین کو کیوں بیٹھا دیا جاتا ہے غور طلب امر یہ بھی ہے کہ جہاں جسٹس عیسیٰ فائز کو چیف جسٹس آف پاکستان بننے سے روکنے کے لیے شیطانی حربے استعمال کیے جارہے ہیں وہاں عام آدمی کو انصاف کون فراہم کرے گا۔ یہاں یہ کہنا گستاخی نہ ہوگا کہ نظام عدل کے میکنزم میں دیانت دار جسٹس آف پاکستان کی کوئی گنجائش نہیں۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان چودھری افتخار خود کو شہنشاہ معظم سمجھتے تھے ان کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ قانون کی حیثیت رکھتا تھا۔ مگر اب ان کے بہت سے فیصلوں کی مذمت کی جارہی ہے جب تک چیف جسٹس آف پاکستان رہے واہ واہ سبحان اللہ کی صدائیں گونجتی تھیں۔ آج بیرسٹر اعتزاز احسن بھی جو بڑے فخرسے خود کو چودھری افتخا کا ڈرائیور کہا کرتے تھے ان کے بعض فیصلوں کو قانون سے ماروا قرار دے رہے ہیں۔ اور ان کے بہت سے فیصلوں کو پاکستان کے لیے نقصان کا موجب قرار دے رہے ہیں تو کیا پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ نہیں جو جج صاحبان اور جسٹس حضرات کے غلط فیصلوں اور ملک و قوم کے لیے نقصان دہ مقدمات پر نظر ثانی کرے اور غلط فیصلوں کو معطل قرار دے۔